How is Red China standing despite the retreat of socialism in the Soviet Union?”

صباح الدین صباء کا چین کی نظریاتی صورتحال پر شاندار تجزیہ

 

 

 

 

دسمبر 1991ء کو ہتھوڑے اور درانتی کے نشان والا سرخ پر چم جو 70 سال سے کریملن پر سایہ فگن تھا ، اتار لیا گیا اور اس کی جگہ تین رنگوں پر مشتمل

روس کا جھنڈا لہرا دیا گیا۔ اس طرح دنیا کے پہلے سوشلسٹ ریاست کا خاتمہ ہو گیا جو وی آئی لینن نے قائم کی تھی اور جس پر سوویت کمیونسٹ پارٹی حکمراں تھی۔ مشرقی یورپ کے سوشلسٹ ممالک بھی ایک ایک کر کے منہدم ہو گئے ۔ ہر چند کہ چین میں بھی 1989ء میں سیاسی انتشار پھیلانے کی کوشش کی گئی لیکن چین نے چینی کمیونسٹ پارٹی کی قیادت میں رد نقلاب کی اس لہر کا نہ صرف سامنا کیا بلکہ زیادہ اعتماد اور وقت کے ساتھ چینی خصوصویات کی حامل سوشلزم کی راہ پر اپنا سفر جاری رکھا۔ اس وقت سے چین کمیونسٹ پارٹی کی قیادت میں سوشلسٹ چین کا برقرار رہنا د نیا کیلئے وجہ حیرت بنا ہوا ہے۔

ترقی کی اپنی راہ سودیت کمیونسٹ پارٹی نے روز اول سے دنیا میں سوشلزم کی تعمیر کیلئے سوویت ماڈل کو واحد ماڈل تصور کر رکھا تھا اور وہ اس خیال کی داعی تھی کہ دنیا کی تمام کمیونسٹ پارٹیوں کو کسی چوں چرا کے بغیر اسی راہ پر چلنا چاہئے ۔ سرد جنگ کے شروع ہونے کے بعد سرمایہ دارانہ کیمپ کے جواب میں سوویت یونین نے مشرقی یورپ کے سوشلسٹ ملکوں پر اپنی گرفت کو مضبوط کیا۔ نظری فرسودگی اور سوویت یونین کے بڑھتے ہوئے دباؤ نے مشرقی یورپ کی کمیونسٹ پارٹیوں کے تخلیقی ارتقا کوروک دیا۔

مشرقی یورپ کے سوشلسٹ ملکوں کے مقابلے میں چین شروع میں ہی سوویت ماڈل کے لازمی اثرات سے خود کو باہر نکالنا شروع کر دیا تھا۔ چین کا پہلا پنچ سالہ ترقیاتی منصوبہ (57-1953) سوویت یونین کی مدد سے مکمل ہوا تھا۔ تا ہم ماؤزے تنگ نے کہا کہ” آزادی کے بعد تین سال تک ہم تعمیر کا واضح تصور نہیں رکھتے تھے لہذا ہم بنیادی طور پر صرف سوویت یونین کے طریقوں کی نقل کر سکتے تھے لیکن میں نے کبھی اس میں اطمینان محسوس نہیں کیا ” 1953ء میں کامریڈ اسٹالن کا انتقال ہو گیا۔ سوویت کمیونسٹ پارٹی کی بارہویں قومی کانگریس منعقدہ فروری 1956 ء نے نکیتا خرمچیو کو اس کا جانشین منتخب کیا۔ خرد مجمع نے ایک خصوصی رپورٹ شائع کی جس میں شخصی آمریت اور شخصیت پرستی پر مبنی اسٹالن کی غلطیوں کی تشہیر کی گئی۔ اس عمل نے پورے سوشلسٹ کیمپ کو ہلا کر رکھ دیا۔ سوویت یونین کی جانب سے مسائل میں گھرا ہونے کا اعتراف کر لینے کے نتیجے میں سوشلسٹ تعمیر میں سوویت کی نقل کرنے کا رجحان متاثر ہوا۔ 25 اپریل 1956 ء کو چینی کمیونسٹ پارٹی کے پولیٹکل بیورو کے ایک غیر معمولی اجلاس میں ماؤزے تنگ نے 8 بڑے رشتوں کے بارے میں” کے عنوان سے ایک تقریر کی جس میں ماؤ نے کہا کہ حال ہی میں سوشلزم کی تعمیر میں سویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی کی چند خامیاں اور غلطیاں منظر عام پر آئی ہیں۔ کیا آپ ان کی من وعن پیروی کرنا پسند کریں گے ۔ اس سوال سے واضح ہو گیا کہ چین کو سوشلزم کی تعمیر کیلئے اپنے منفر د حالات کے مطابق اپنی راہ کا تعین کرنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت سے چینی کمیونسٹ پارٹی نے اپنی منفر دراہ کے تعین کی کاوشیں کبھی ترک نہیں کیں۔ 1950ء کے اواخر سے 1980ء تک چین اور سوویت یونین کے دوستانہ تعلقات مسلسل کمزور ہوتے ہوئے حریفانہ نوعیت اختیار کر گئے لیکن اس کا اہم پہلو یہ ہے کہ چین، سوویت یونین کے کنٹرول سے آزاد ہو گیا اور اسے سوشلزم کی آزادانہ تعمیر کا موقع ملا۔ یقیناً سوویت یونین سے علیحدہ ہونے کے بعد چین کو بہت کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اپنے اور پر سوشلزم کی تعمیر میں چینی کمیونسٹ پارٹی کو دائیں اور بائیں بازو کے انحرافات کا مقابلہ بھی کرنا پڑا لیکن بالآ خر صور تحال چینی کمیونسٹ پارٹی کے ہاتھ میں ہی رہی۔ یہ کیفیت اس صورتحال سے قطعی مختلف تھی جس کا مشرقی یورپ کی کمیونسٹ پارٹیوں کو سامنا کرنا پڑا۔

مشرقی یورپی ملکوں کی کمیونسٹ پارٹیوں میں عمومی طور پر سوویت اور مقامی دھڑوں کے درمیان رسہ کشی مسلسل جاری رہی اور ان پارٹیوں میں یہ بحث جاری رہی کہ سوشلزم کی تعمیر کیلئے سوویت راہ یا مقامی راہ اختیار کی جائے۔ نیشنلسٹ پوزیشن اختیار کرنے کے الزام کے تحت مقامی دھڑوں کے رہنماؤں کو اکثر پارٹی سے خارج کیا گیا، سزائیں دی گئیں ، یہاں تک کہ بعض کو سزائے موت بھی دی گئی۔ ما سکونو از دھڑوں کے تمام عمل پر سوویت یونین کا مکمل کنٹرول تھا۔ اس دھڑے کے لوگ عقیدہ پرستی کا شکار تھے۔ سوویت یونین کے تجربے کی من وعن اطاعت ضروری سمجھتے تھے۔ ان میں انفرادیت تخلیقیت اور نئے پن کی سخت کمی تھی۔ چینی کمیونسٹ رہنماڈینگ سپاؤ ینگ نے بین الاقوامی اور مقامی صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد کہا کہ اگر کسی پارٹی ، ملک یا قوم کی ہر چیز کتابوں سے شروع ہوتی ہے اور جامد سوچ اور اندھی تقلید پر انحصار کرتی ہے تو یہ آگے بڑھنے کی صلاحیت کھو دے گی ، اس کی زندگی جمود کا شکار ہوگی اور یہ تباہ ہو جائے گی ۔“ 1980ء میں مقامی اور بین الاقوامی زمینی حقائق کے پیش نظر چینی کمیونسٹ پارٹی نے چینی خصوصیات کی حامل سوشلزم کی تعمیر کا واضح تصور پیش کیا۔

ء  1982میں چینی کمیونسٹ پارٹی کی بارہویں قومی کانگریس میں موقف اختیار کیا گیا کہ معاملہ انقلاب کا ہو یا تعمیر کا، ہمیں غیر ملکی تجربات سے ضرور سیکھنا چاہئے لیکن دیگر ملکوں کے تجربات یا ماڈل کی نقالی کبھی ترقی سے ہمکنار نہیں کر سکتی ۔ ہمیں مارکسزم کی آفاقی سچائی کو چین کی مخصوص صورتحال پر منطبق کرنا ہوگا۔ ہم اپنی راہ خود بنا ئیں گے اور چینی خصوصیات کی حامل سوشلزم تعمیر کریں گے۔ 21 جون 1984 ء کو کمیونسٹ پارٹی آف سوویت یونین کی مرکزی کمیٹی کے ترجمان” پراودا ” نے ایک مضمون شائع کیا جس کا عنوان ”عالمی انقلاب کے عمل میں نمایاں پہلو (Dominant Factor in the process of world Revolution) تھا۔” مضمون میں نجی شعبے کی وسعت سے پیدا خطرات کی نشاندہی کرنے کے ساتھ ساتھ کہا گیا کہ قومی انفرادیت پر زور اور دوسرے ملکوں کے اقتصادی تجربوں کو نظر انداز کرنے کا رجحان خطر ناک ہے۔ ظاہر ہے اس تنقید میں چینی کمیونسٹ پارٹی کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ مضمون سے ظاہر ہوتا تھا کہ کمیونسٹ پارٹی آف سوویت یونین اب بھی فرسودہ طریقہ پیداوار اور تناظر میں پھنسی ہوئی ہے۔ 1986ء میں پی ایس یو کی 27 ویں کانگریس میں میں ائل گوربا چوف نے احیاء کی غرض سے اصلاحات کرنے کا اعلان کیا۔ اس وقت تک چین میں ہونے والی اصلاحات غیر معمولی نتائج حاصل کر چکی تھیں۔ چینی خصوصیات کی حامل سوشلزم کی تعمیری پی سی کی متفقہ لائن بن چکی تھی جسے چینی عوام کی وسیع اکثریت کی حمایت حاصل تھی۔ چینی اصلاحات 1957 ء میں چین کے مزدور اور عام ملازمین کی اوسط تنخواہ سالانہ 624 بن بنتی تھی ۔ 1976ء میں یہ 575 بین رہ گئی تھی۔ روزمرہ استعمال کی بہت سی اشیا نا پید تھیں۔ لہذا ان کی راشن بندی کی جاتی تھی۔

سی پی سی نے تاریخی تجربات کا بغور جائزہ لیا۔ ماضی کی غلطیوں کی اصلاح کی اور کھلے پن کے منتخب اصول اور پالیسیاں اختیار کیں۔ اصلاحات اور جدت کاری کو اختیار کرتے ہوئے اصلاحات کے عمل کا آغاز دیہی علاقوں سے کیا گیا۔ چین کی ایک چوتھائی آبادی دیہی علاقوں میں رہتی تھی۔ پیداواری قوتوں کو ترقی دینے کے نظریے کے تحت سب سے پہلے دیہی علاقوں کی آبادی کو معاشی، ثقافتی ضروریات کو پورا کرنے پر توجہ دی گئی ۔ مشترکہ ملیت کی زمین کھیتی باڑی کیلئے گھرانوں کو دی گئیں۔ ترغیب اور آزادی کے اقدامات کے ذریعہ پیداواری عمل میں مقامی آبادی کو زیادہ سے زیادہ شراکت کا احساس دلا کر شامل کیا گیا۔ دیہی علاقوں میں اصلاحات کی کامیابی کے بعد اسے ملک کے بقیہ حصوں میں وسیع کیا گیا۔ کنٹریکٹ ریسپانسیبلٹی سسٹم  ، ملازمتوں کے نظام  میں تبدیلی اور فیکٹری ڈائریکٹر ریسپونسبلٹی کا نفاذ اور حصہ داری نظام  کا آغاز کیا گیا۔

اس میں شبہ نہیں کہ چین میں ہمہ گیر اصلاحات کے نتیجے میں اقتصادی ترقی اور خوشحالی کو ہر شخص محسوس کر سکتا تھا۔ ان تمام اصلاحات میں ڈبنگ سیاؤ پنگ کے اس مفروضے کو بنیادی حیثیت حاصل تھی کہ ” ہمیں اس سے فرض نہیں کہ بلی کا رنگ سیاہ ہے یا سفید، ہمیں صرف اس بات سے دلچسپی ہے کہ بلی چوہے پکڑنے کی صلاحیت رکھتی ہے یا نہیں ۔ یقیناً صلاحیت یا لیاقت کی اہمیت سے انکار نے بے سود عقیدہ پرستی کو فروغ دیا تھا لیکن رنگ سے لاتعلقی کے اظہار نے نظریے کی اہمیت اور اثرات کو منطقی طور پر کم کیا۔ چین میں ہونے والی اصلاحات، سوویت یونین اور مشرقی یورپی ملکوں میں ہونے والی اصلاحات سے مختلف تھیں ۔ انہوں نے بھی اپنی اصلاحات کا آغاز اقتصادی شعبے سے کیا۔ لیکن کسی نمایاں نتائج کے حصول سے قبل ، انہوں نے اپنی اصلاحات کا دائرہ سیاسی شعبے تک وسیع کر دیا۔ اصلاحات خواہ سیاسی ہوں یا اقتصادی، غیر ضروری جلد بازی اکثر اصلاحات، ترقی اور استحکام کے درمیان حقیقی توجہ مبذول کرنے میں رکاوٹ بنتی ہے اور صورتحال پر قدرت رکھنے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر 1985ء میں میخائل گوربا چوف نے بر سر اقتدار آنے کے بعد اقتصادی اصلاحات پر توجہ دی لیکن چونکہ انہیں تیزی سے کامیابی حاصل نہ ہوئی۔ انہوں نے یہ مفروضہ قائم کر لیا کہ مختلف سطحوں پر موجود پارٹی تنظیمیں اور سرکاری حکام اصلاحات پر عملدرآمد کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ مناسب تیاری کے بغیر جلد بازی کے ساتھ سیاسی اصلاحات شروع کر دی گئیں۔ 1980ء کی دہائی میں گوربا چوف نے اصلاحات اور کھلے پن کے اقدامات کی وجہ سے مقامی بلکہ بین الاقوامی میڈیا میں بھی شہرت حاصل کی ۔ لیکن اصلاحات کے نتائج کیلئے عوام کا بے صبری نے پارٹی اور حکومت کی صلاحیتوں پر ان کے اعتاد کو متزلزل کیا اور پارٹی اور اصلاحات کے ساتھ عوم کی وابستگی تیزی سے زوال پذیر ہوئی۔

ایک ارب 30 کروڑ افراد کو خوراک مهیا کرنا

چین مشرق میں وسیع رقبے پر محیط ملک ہے جو کم از کم 5000 سال پرانی تہذیب کا امین ہے۔ چین کے عوام نے ہی پہلی بار زرعی اجناس کو بطور خوراک استعمال کرنا شروع کیا۔ آثار قدیمہ کی دستیاب دستاویزات کے مطابق چین میں 5000 سال قبل چاول اور مکئی کی کاشت کی گئی۔ 18 ویں صدی میں جب برطانیہ میں صنعتی انقلاب ہو رہا تھا تو اس وقت بھی چین عالمی معیشت میں صف اول میں شمار کیا جاتا تھا۔ چین کی تاریخ بتاتی ہے کہ قدیم تہذیب کا حامل یہ ملک ہمیشہ طویل خشک سالی اور سیلاب کا شکار رہا۔ ماضی کی تمام چینی حکومتوں کیلئے ایک سوال کلیدی اہمیت کا حامل رہا ہے کہ چینی عوام کی خوراک کی ضرورت کیسے پوری کی جائے ؟ 1948ء میں امریکی دفتر خارجہ نے ایک قرطاس ابیض شائع کیا جس میں کہا گیا کہ چین غیر معمولی آبادی والا ملک ہے۔ کثیر آبادی کو خوراک مہیا کرنے میں ناکامی ماضی کی حکومتوں اور کودتا جنگ حکومت کے زوال کا باعث بنی ہے اور ماضی کی تمام حکومتوں کی طرح ہی پی سی بھی اس گھمبیر مسئلے کو حل کرنے سے قاصر رہے گی اور ختم ہو جائے گی۔ امریکی وزیر خارجہ ڈین ایچی سن کا یہ بیان کو ننا تنگ کیلئے درست تھا لیکن سی پی سی کیلئے ان کا اندیشہ درست ثابت نہ ہوا۔ اس دعوے کو مستر د کرتے ہوئے عظیم چینی کمیونسٹ رہنما ماؤزے تنگ نے یکے بعد دیگرے پانچ مضامین تحریر کئے ۔ ان میں سے ایک مضمون میں انہوں نے لکھا کہ دنیا کی تمام چیزوں میں عوام سب سے گرانقدر ہیں۔ جب تک چینی کمیونسٹ پارٹی کی قیادت کے ساتھ عوام کھڑے ہیں ہر طرح کا معجز ممکن ہے۔ زمین کسانوں کی زندگی میں کلیدی اہمیت رکھتی ہے۔ چینی کمیونسٹ کے مستحکم اقتدار کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ اس نے شروع میں ہی کسانوں کو زمین کی ملکیت دی۔ کسانوں کے پاس کاشت کیلئے زمین دستیاب تھی اور کھانے کیلئے خوراک۔ لہذا چینی کمیونسٹ پارٹی کو آبادی کی واضح اکثریت کی زبر دست حمایت حاصل ہوئی۔ یقینا پانی کے ذخائر کی تعمیر اور سیلاب سے بچاؤ کے منصوبوں کی تیزی سے تکمیل نے بھی چین کی زرعی معیشت کو مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ 1976

ء میں جب ماؤزے تنگ کا انتقال ہوا اس وقت چین میں اناج کی پیداوار 286.36 ملین ٹن تک پہنچ گئی جو 1949 ء کے مقابلے میں دو گنا تھی ۔ تاہم چین کی آبادی بڑھ رہی تھی اور اب بھی خوراک کی ضرورت پورا کرنے کیلئے بہت کچھ کرنے کی ضرورت تھی۔ 1970ء کی دہائی کے اواخر میں زرعی اصلاحات کا آغاز کیا گیا اور ہاؤس ہولڈ کنٹریکٹ ریسپانسپلٹی سسٹم کا آغاز کیا گیا جسے پیداوار کے ساتھ مربوط کیا گیا اور لوگوں کو خوراک مہیا کرنے کا بڑا مسئلہ پانچ سے چھ برسوں کے دوران حل کر لیا گیا۔ اقوام متحدہ کی طرف سے چین کو خوراک کی امداد مہیا کی جاتی تھی جو 2004ء میں آخری جہاز کی آمد کے بعد اختتام پذیر ہوگئی۔ اس وقت چین دنیا کی 7 فیصد زیر کاشت اراضی سے دنیا کی 20 فیصد آبادی کی خوراک کی ضرورت پوری کرنے کا معجزہ کا حامل ہے۔ چین میں خوراک میں خود کفالت کی شرح 95 فیصد ہے۔ چین کی بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر اب بھی چین کو اناج کی پیداوار میں ہر سال 4 بلین کلوگرام اضافے کی ضرورت ہے۔ تاہم چینی کمیونسٹ پارٹی نے عوام کو خوراک کی فراہمی کی صورتحال میں جو انقلابی تبدیلی لائی ہے اور دنیا کی سب سے بڑی آبادی کو خوراک کی فراہمی جس طرح یقینی بنائی ہے واقعتا وہ اکیسویں صدی میں معجزے سے کم نہیں۔

بائیں اور دائیں بازو کی غلطیاں اور موجودہ قیادت نکر ماؤ کی ترجمانی نہین بیاؤ ازم کر سکتی ہے نہ ہی ڈینگ ازم، بن بیاؤ ازم بائیں بازو کی مہم جوئی اور ڈپنگ ازم دائیں بازو کی موقع پرستی رجحانات کی حامل ہے۔ ین بیاؤ اور ڈپنگ دونوں چینی کمیونسٹ پارٹی کے قائدین اور ماؤ کے ساتھ رہے ہیں۔ دونوں کی علیحدہ علیحدہ صلاحیتوں اور کار کردگی کو مسترد نہیں کیا جا سکتا لیکن دونوں کے منفی رجحانات کو مسترد کیا جاتا اور ماؤ کی متوازن ہی نہیں بلکہ درست فکر اور حکمت عملی کے ساتھ کھڑا رہنا ضروری ہے۔ چینی کمیونسٹ پارٹی کی تاریخ وا ئیں اور بائیں بازو کے انحرافات سے مسلسل مستمزہ کاری کی تاریخ ہے۔ یہی چینی کمیونسٹ پارٹی کا جدوجہد بہترین وصف اور چینی انقلاب کا اہم جو ہر ہے۔ دولائنوں کی جدو جہد بھی پارٹی اور انقلاب کی مسلسل ترقی کا بنیاد ہے اور یہی فکر ماؤ ہے۔ اقتدار میں اتحاد اور جدل کی واضح نشاندہی اور پیروی ہی ماؤازم ہے۔ ڈپنگ کا یہ جملہ قابل غور ہے کہ ” ہمیں اس سے دلچسپی ہے کہ بلی چوہے پکڑنے کی صلاحیت رکھتی ہے یا نہیں اس سے فرض نہیں کہ بلی کا رنگ کیا ہے۔” شایدلن بیاؤ کو اس سے غرض ہے کہ بلی کا رنگ کیا ہے اس بات دلچسپی نہیں کہ وہ چو ہے پکڑنے کی صلاحیت رکھتی ہے یا نہیں ۔ ہمیں ان دونوں کے آدھے سچ کی بجائے پورے سچ میں دلچسپی ہے۔ ہم بلی کے چوہے پکڑنے کی صلاحیت پر بھی زو دیتے ہیں اور اس بات سے بھی غرض رکھتے ہیں کہ اسکا رنگ کیا ہے۔ یہی ماؤ ازم فکر ماؤ ہے۔ ہم معروض کی حقیقت کو بھی تسلیم کرتے ہیں اور موضوع کی اہمیت سے بھی انکار نہیں کر سکتے ۔

ہم کہتے ہیں کہ کوئی سچائی زمان ومکان کے مخصوص تناظر میں ہی وجود رکھتی ہے۔ اس لئے کوئی بھی فیصلہ اپنے وقت سے پہلے یا بعد میں متعلق نہیں ہوتا۔چینی کمیونسٹ پارٹی کے آج کے کردار کا تعین کرنے ، اس کے مستقبل کا اندازہ لگانے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ 21 ویں صدی میں فکر باؤ کے ارتقائی مراحل کو جانچنے کیلئے ہمیں کلچرل ریوولوشن، اس کے اثرات چینی کمیونسٹ پارٹی میں پیدا ہونے والے قیادت کےخلا، بین الاقوامی سطح پر مزدور تحریک کی بدلتی کیفیات اور خود چین میں ترمیم پسندی کے ابھار کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ اس بات میں شبہ نہیں کہ ثقافتی انقلاب کے تصور کو فکر ماؤ سے علیحدہ کرنا ممکن نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ثقافتی انقلاب فکر ماؤ کا قیمتی خزینہ ہے۔ اس انقلاب کے پیچھے یہ فکر کار فر ماتھی کہ انقلاب کے بعد بھی معاشرے میں نہ طبقات ختم ہو جاتے ہیں نہ طبقاتی جدوجہد متروک ہو جاتی ہے۔

وقت نے ثابت کیا کہ ماؤ کا سب سے بڑا کارنامہ عظیم پرولتاری ثقافتی انقلاب ہی ہے جس نے چین میں سرمایہ داری کی راہ پر چلنے والوں اور ترمیم پسندی اختیار کرنے والوں کیلئے پہیلن کی مسلسل کیفیت پیدا کر رکھی ہے۔ سابق سوویت یونین میں خرو محیف ترمیم پسندی اور چین میں ڈینگ کی ترمیم پسندی سے پیدا ہونے والی صورتحال میں ایک واضح فرق یہ ہے کہ سوویت یونین میں کامریڈ اسٹالن کو مسترد کیا گیا جبکہ چین میں ماؤ کی نفی کرنے کی کسی میں جرات نہیں ہوئی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پارٹی میں سراٹھانے والے دائیں بازو کی ترمیم پسندی کو روز اول سے تنقید، مخالفت اور مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ 2001ء میں جہاں جیانگ ژیمن نمایاں شخصیت سے پارٹی میں شمولیت کی اپیل کر رہے تھے وہیں اس کی مخالفت میں بولنے اور لکھنے والے عناصر بھی موجود تھے۔

” ء 2001میں ہی ایک میگزین” زیانگ کی یوان نے   کا ایک مضمون شائع کیا جس کا عنوان تھا  “سرمایہ داروں کو کیوں بھرتی کیا جائے “۔ ایک اور میگزین   مڈ اسٹریم  نے ایک مضمون شائع کیا جس کا عنوان تھا۔ “پارٹی میں نجی اداروں کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

Private enterprise can not be allowed in the party.

 جولائی میں پارٹی کانگریس سے جیانگ ژیمن کے خطاب پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے 17 نمایاں شخصیات کے دستخطوں سے ایک اعلان نامہ پمفلٹ   کی صورت میں اور آن لائن تقسیم کیا گیا۔ اس اعلان نامہ پر دستخط کرنے والوں میں ڈینگ لی ، دولنگ ژری  ، لی ارز ہونگ  ، وی وی  ، لن موهان  اور یوان مو شامل تھے ۔ “یکم جولائی تقریر کی بھیانک غلطی“ کے عنوان سے اس اعلان نامہ میں کہا گیا

“We believe that the content of the speech of July 1 was not an improvement on the perty’s guideline thought but rather an incorrect interpretation of Marxism. It envolue, fundamental changes to core party doctrine and violates basic principles of right and wrong.”

“ہم سمجھتے ہیں کہ یکم جولائی کی تقریر کا مواد پارٹی کے رہنما اصولوں اور فکر میں کوئی پیش وقت نہیں بلکہ اس کے برعکس مارکسزم کی غلاظ تعبیر کے مترادف ہے۔ یہ پارٹی کے بنیادی نظریہ سے تعلق رکھتی ہے اور صحیح اور غلط کے تعین کیلئے ملے شدہ بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔

ہر چند کانگریس میں جیانگ ژیمن نے ملی جلی معیشت کا تصور پیش کیا اور اصلاحات کے عمل کو زور وشور سے جاری رکھنے میں کانگریس کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب رہے اور اس اعتبار سے بائیں بازو کو اپنے مقاصد میں کامیابی نہیں ملی لیکن یہ حقیقت ہے کہ انہوں نے یہ ترمیم پسندی کے اپنی آواز کو مقام بنایا۔ 24 دسمبر 2004ء کوثر بنگ ژاؤ  میں ایک غیر معمولی واقعہ ترمیم پسندی کے خلاف بائیں بازو کی نمایاں واپسی کی راہ ہموار کرتا نظر آیا۔ چار  چینی مظاہرین کو پکڑ کر چار سال کیلئے جیل بھیج دیا گیا۔ ان پر ایک پمفلٹ تقسیم کرنے کا الزام تھا جس کا عنوان تھا “ماؤ ہمیشہ کیلئے ہمارا قائد ہے

(Mao forever our leader)

 ء 2007 تک بائیں بازو کارجحان خاصہ منتظم ہوتا نظر آنے لگا۔ اکتوبر2007 میں بائیں بازو کے نئے ابھار اور واضح نظری بیانیئے کے ساتھ دو کتابیں منظر   عام پر آئیں۔ ممتاز دانشور مابن  کی کتاب ” ماؤزے تنگ ایورسٹ ” اور می قیاؤ کی کتاب” ماؤزے تنگ کی یاد میں  -) نے زبر دست عوامی مقبولیت حاصل کی ۔ مذکورہ کتابوں میں اصلاحات اور کھلے پن کی پالیسیوں پر کڑی تنقید کی گئی اور ماؤ کی تعلیمات اور خاص طور سے عظیم پرولتاری ثقافتی انقلاب کی دوٹوک انداز میں حمایت کی گئی۔ پروفیسر ڈانگ ہو ٹل گیا تنگ سمیت متعدد بائیں بازوکے دانشوروں نے ان کتابوں کے حوالے سے متعدد تقریبات کا اہتمام کیا اور سوشل میڈیا کے ذریعہ ان کے پیغام کو عام کیا گیا۔ 2010ء میں فکر ماؤ کے احیا کی تحریک زور پکڑ گئی۔ اس تحریک کے حامیوں میں جن شخصیات کا نام لیا جا رہا تھا ان میں اس وقت کے چینی نائب صدر ژی جن پنگ نمایاں تھے ۔ چین کے نئے صدر اور چینی کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکرٹری کی حیثیت سے ژی جن پنگ نے کھل کر اعلان کیا کہ ہر قسم کی اصلاحات قبول نہیں۔ صرف وہ اصلاحات کریں گے جو ہمیں سوشلزم کی راہ پر آگے بڑھا ئیں۔ انہوں نے دائیں بازو کی ترمیم پسندی کا مقابلہ کرنے کیلئے عوامی لائن اصلاحی مہم کا آغاز کیا۔ بڑھتی ہوئی کرپشن پر پوری قوت سے حملہ کیا۔ مارکسی تعلیمات کے احیاء پر زور دیا اور پارٹی کی گرفت مضبوط کرنے کیلئے ٹھوس اقدامات کئے جس کے نتیجے میں بائیں اور دائیں بازو کے انحرافات پر قابو پانے اور پارٹی کی گرفت کو مضبوط بنانے میں مددل رہی ہے۔

6 thoughts on “How is Red China standing despite the retreat of socialism in the Soviet Union?””

  1. یہ بہت اچھا مضمون ہے ۔ پاکستان کے تناظر میں بھی اس طرح کی فکری تحریر کی ضرورت ہے ۔ کیونکہ جس طرح روس اور چین کے جغرافیائی اور زمینی حقائق مختلف ہیں اسی طرح پاکستان کے ںا صرف جغرافیائی
    اور زمینی حقائق بلکہ مذہبی ،ثقافتی ، لسانی اور تہذیبی اور تاریخی حقائق بھی مختلف ہیں ۔ اس لئے ہمیں اپنی راہ خود متعین کرنے کی ضرورت ہے۔ ۔وہ بھی ایسے وقت میں جب قومی اکائیاں ایک دوسرے سے بد ظن ہوں

  2. اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہر ملک یا قوم بہرحال اپنا ایک مخصوص سماجی و تہزیبی پس منظر اور عوامی نفسیات رکھتی ہے ۔ جس کی بنیاد پر یہ بات بڑی آسانی سے سمجھی جا سکتی ہے کہ سماجی اصلاحات کی بنیاد آزاد منڈی کی معیشت کے خلاف ہو لیکن اس کی جزئیات بہرحال ہر ایک ملک کی اپنی منفرد ہی رہیں گی اور یہی سماجی حقیقت بلکہ سائنس بھی ہے جس سے وہ قوم اپنے تاریخی جمود کو توڑتے ہوئے مستقبل کی تعمیر منصوبہ بند معیشت کی بنیادوں پر کر سکتی ہے ۔

    1. کامریڈ عمر وارث صاحب۔۔
      آپکی توجہ کا شکریہ ۃم آپکی بات سے سو فیصد متفق ہیں۔۔۔ہماری پالیسی ہے

      Socialism with pakistani characteristics.

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *