Challenging the purists: the Marxist debate over China’s path

 

سچے اور کھرے مارکسسٹوں کو چیلنج :  چین کے سوشلزم پر بحث

تحقیق و ترجمہ: پروفیسر امیر حمزہ ورک

عوامی جمہوریہ چین کی ترقی اور عالمی سامراج کےراستے مین چیلنج بننے سے چین پر  عالمی سامراجی قوتوں کی تنقید برھتی جا رہی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ بائیں بازو کے لوگ اور بالخصوص یورپ میں اور ہمارے جیسے ملکوں میں بھی  دائیں اور بائیں بازو کے حضرات تنقید کرتے ہیں کہ چین نے 1978 کے بعد سے مارکیٹ میکنزم  کو متعارف کروانا  سوشلزم کے ساتھ دھوکہ تھا اور یہ کی چین  سوشلزم چھوڑ کر سرمائہ دارانہ نطام کے راستے پر چل نکلا ہے- ذیل کا مضمون بیروت (لبنان) میں مقیم دانشور،مصنف اور محقق ڈین فرحت  اور کئی دوسرے مارکسسٹ لیننسٹ دانشوروں کی رائےکا نچوڑ ہے جس میں وہ بائیں   

بازو کی طرف سے چین پر  کی جانے والی تنقید کا جواب دیتے ہیں

انیس سو بیس 1920کی دہائی میں سوویت یونین کی نئی اقتصادی پالیسی کے ساتھ چین کی اصلاحات اور کھلے پن کا موازنہ کرتے ہوئے، اور اطالوی مارکسی فلسفی ڈومینیکو لوسورڈو کی تحریروں سے تحریک لیتے ہوئے، ڈین نے دلیل دی کہ چین کی اصلاحات نے درپیش حالات کا تخلیقی اور کامیاب جواب دیا ہے۔جو 

  اس وقت ملک، اور درحقیقت چین کی پالیسیوں کی کامیابیوں کا ایک اہم عنصر رہا ہے۔ انتہائی غربت کو ختم کرنے اور معیار زندگی کو  بہتر سے بالاتر کرنے

میں عوامی جمہوریہ چین کے سوشلزم کو چین کے معروضی ھالات کے مطابق نفاذ کو دخل حاصل ہے- ۔مضمون میں مزید نوٹ کیا گیا ہے کہ ، جبکہ مارکیٹ فورسز کے پھیلاؤ میں تضادات ، خطرات اور چیلنجوں کا  سامنا  ہوتا ہے ، لیکن چینی قیادت ، سی پی سی اور ریاستی شعبے کے اہم کردار کو برقرار رکھتے  ہوئے ، اور “بورژوازی کو ہم آہنگ،منظم اور سیاسی طور پر طاقتور طبقے ”۔بننے سے روکتی ہے۔

    چین میں  اصلاحات سے قبل  غربت اور پسماندگی کے بارے میں اخبار چائینا ڈیلی کے ایڈیٹرانچیف کانگ بنگ اپنا ذاتی تجربہ بیان کرتے ہویے کہتے ہیں کہ  انیس سو ساٹھ 1960 اور انیس سو ستر 1970کی دہائیوں میں پروان چڑھنے کے بعد، میری بچپن کی یادیں بھوک سے جڑی ہوئی ہیں۔ میرے آبائی شہر ژیان میں، ایک شہری کے لیے ماہانہ کوٹہ 100 گرام کوکنگ آئل، آدھا کلو گوشت، آدھا درجن انڈے، اور 100 گرام چینی تھا۔ دودھ کے طور پر، یہ صرف نوزائیدہ 

بچوں کے ساتھ خاندانوں کو دیا گیا تھا. آج بہت سے خاندان تیل، گوشت، انڈے اور چینی کا پورا ماہانہ کوٹہ ایک دن میں کھا لیتے ہیں 

اگرچہ راشن کے نظام نے اس بات کو یقینی بنایا کہ ہر ایک کو دستیاب خوراک میں حصہ ملے اور بھوک سے ہونے والی اموات کو روکا جائے، لیکن اس سے بچوں، نوعمروں، بڑوں اور بوڑھوں میں غذائی قلت پیدا ہوئی۔ 1977 میں میرے ساتھ ہائی اسکول سے فارغ التحصیل ہونے والے میرے 100 مرد ہم جماعتوں

میں سے ایک بھی لڑکا غذائی قلت کی بدولت 1.8 میٹر اونچائی (قد) کو عبور نہیں کر سکا۔”

آج کی تصویر بہت مختلف ہے، چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت کے طور پر ابھر رہا ہے۔ 85 کروڑ لوگوں کو غربت سے نکالا گیا ہے، اور چین میں معیار زندگی میں نمایاں بہتری آئی ہے –جو  در حقیقت، انسانی تاریخ میں اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی۔ یہ ناقابل یقین تبدیلی ڈینگ ژیاؤپنگ کی اقتصادی اصلاحات کے گہرے اثرات کا کوئی معمولی   حصہ نہیں ہے۔خود ڈینگ سیاؤ پنگ  نے مشہور جملہ  کہا تھا کہ ’’سوشلزم کی تعمیر کے لیے پیداواری قوتوں کو تیار کرنا  اور ترقی دینا ضروری ہے۔  سوشلزم کا نام غربت یا غربت کو تقسیم کرنا نہیں ہے۔ سوشلزم کو برقرار رکھنے کے لیے، ایک ایسا سوشلزم جو سرمایہ داری سے برتراور اعلی ہو، سب سے پہلے غربت کا خاتمہ ضروری ہے۔” ڈینگ کے نزدیک حقیقی سوشلزم سب کو یکساں طور پر غریب رکھنے کے بارے میں نہیں تھا۔ یہ لوگوں کو غربت سے نکالنے کے بارے میں تھا۔ ڈینگ نے ایک ایسا سوشلزم دیکھا جو مارکیٹ کے طریقہ کار کے استعمال کے ذریعے، اور ترقی اور اقتصادی ترقی پر توجہ دے کر،سیاسی اقتدار اعلی پر کیمونسٹوں کا قبضہ برقرار رکھ کرہی عام لوگوں کی زندگیوں کو

بدل سکتا ہے اور عالمی معیشت میں چین کے مقام کو بلند کر سکتا ہے۔

  تاہم ڈنگ سیاؤ پنگ کے اس وژن کے ناقدین چین کے اند اور باہر  بہت تھے- جب چین نے اقتصادی اصلاحات شروع کیں، اور  معاشی طور پر  مارکیٹ کی قوتوں کو اپنانے اور غیر ملکی سرمایہ کاری کی اجازت دینے کا  فیصلہ کیا تو  کچھ لوگوں نے اسے سوشلزم سے علیحدگی کے طور پر دیکھا۔ لیکن کیا اصلاحات انقلاب کے ساتھ غداری تھی؟ یا کیا یہ ایک ایسی قوم کے لیے حکمت عملی اور عملی فیصلہ تھا جو کئی دہائیوں سے سامراجی جبری تنہائی اور معاشی  ابتری و غربت کا شکار تھی؟ اس مضمون میں  ہم انحیں سوالوں کے جواب تلاش کرنے کی کوشش  کر رہے ہیں 

تاریخ یہ واضح کرتی ہے کہ: مارکیٹ کے عناصر فطری طور پر سوشلزم سے مطابقت نہیں رکھتے۔ 1920 کی دہائی میں لینن کو سامراجی ملکوں کی  مداخلت کی جنگ (برطانیہ، فرانس، امریکہ، جاپان اور دیگر دس ممالک کے سامراجی اتحاد کی طرف سے لڑی گئی) کے بعد روس کو درپیش تباہ کن حقیقت کا تخلیقی طور پر جواب دینا پڑا تاکہ تعمیر نو کے لیے نجی ادارے اور غیر ملکی مہارت کو متعارف کرایا جا سکے۔ اس کے لئے لینن نے نئی اقتصادی پالیسی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا تھا اسی طرح،  چین میں ڈینگ ژیاؤپنگ کی اصلاحات نے سوشلسٹ فریم ورک کو برقرار رکھتے ہوئے، برسوں کی اقتصادی ناکہ بندی اور ثقافتی انقلاب کے ہنگاموں کے بعد اہم چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے مارکیٹ کے طریقہ کار کا استعمال کیا۔ دونوں صورتیں اس بات پر روشنی ڈالتی ہیں کہ نظریاتی پاکیزگی پر سختی سے عمل کرنے کے مقابلے میں موافقت کتنی اہم ہے۔ دونوں صورتوں میں، نظریاتی  پیورسٹوں کی مخالفت کے باوجود، معاشی بحالی کے لیے عملی پالیسیاں ایک ضرورت تھیں۔ جیسا کہ ڈینگ نے اچھی طرح سے وضاحت کی تھی

کہ ِ”ذہن کو آزاد کرنا، حقائق سے سچائی تلاش کرنا، اور مستقبل کا سامنا کرنے کے لیے متحد ہونا ضروری ہے۔ ہمیں ذہن کو آزاد کرنا، پرانے خیالات سے چھٹکارا حاصل کرنا سیکھنا چاہیے، اور یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ نئے خیالات ہی معاشرے کی ترقی کا محرک ہیں۔”

مارکس نے خود تسلیم کیا کہ سرمایہ داری کی باقیات کو ایک ہی وقت میں مکمل طور پر ختم نہیں کیا جا سکتا،(جبکہ چین میں جاگیرداری اپنی کلاسیکل شکل میں بھی موجود تھی) خاص طور پر دنیا کی حقیقتوں کو دیکھتے ہوئے جب کہ سرمایہ دارانہ سامراج کا غلبہ ہے۔ گوتھا پروگرام کی تنقید میں، اس نے دلیل دی کہ سوشلزم کو موجودہ حالات(جس عہد اور ملک یا علاقے کے معروضی حالات)  سے ابھرنا چاہیے (ایک آئیڈیلائزڈ بلیو پرنٹ کے مطابق نہیں)۔ مارکس نے نوٹ کیا کہ ابتدائی سوشلسٹ معاشرے اب بھی “پرانے معاشرے کے پیدائشی نشان” کو برداشت کریں گے، جو ابھرتے ہوئے سوشلسٹ ڈھانچے کے اندر بھی سرمایہ داری کے جاری اثر کی عکاسی کرتے ہیں۔ مارکس نے سوشلزم کے ‘نچلے’ اور ‘اعلی’ مراحل کے درمیان بھی واضح فرق کیا۔ نچلا مرحلہ ایک عبوری مرحلے کی نمائندگی کرتا ہے جہاں پیداواری قوتیں اب بھی ترقی کر رہی ہیں، اور معاشرہ “ہر ایک کے کام کے مطابق” کے اصول کے تحت کام کرتا ہے۔ تاہم، اعلیٰ مرحلہ مادی کثرت کے معاشرے کی نمائندگی کرتا ہے جس میں “ہر ایک سے اس کی استطاعت کے مطابق، ہر ایک کو اس کی ضروریات کے مطابق” کا اصول مکمل طور پر حاصل کیا جا سکتا ہے۔

China’s Great Road: Lessons for Marxist Theory and Socialist Practices جان راس نے اپنی کتاب

 میں یہ سمجھنے کے لیے ایک ٹھوس نظریاتی ڈھانچہ فراہم کیا ہے کہ کس طرح مارکیٹوں کو سوشلسٹ نظام میں شامل کیا جا سکتا ہے

  اٹھارہ سو سڑسٹھ   میں  1867شائع ہونے والے داس کیپیٹل کے پہلے والیم  میں مارکس کے تجزیے کا حوالہ دیتے ہوئے، راس کا استدلال ہے کہ محنت پر مبنی معاشی تقسیم   (اجناس  کی پیداوار کا بنیادی اصول) میں مارکیٹ کا وجود شامل ہونا چاہیے۔ وہ اس بات پر بھی زور دیتے ہیں کہ سوشلسٹ دور میں مارکیٹیں معیشت کا ایک لازمی حصہ ہیں اور یہ چین کے ’سوشلسٹ مارکیٹ اکانومی‘ کے وژن کے مطابق ہے۔ ڈینگ ژیاؤپنگ اور ان کے جانشینوں نے اس مارکسی خیال کو تجرباتی طور پر درست انداز میں لاگو کیا، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کس طرح مارکیٹ کے نظام سوشلزم کی ترقی کے ساتھ ہم آہنگ ہو سکتے ہیں، اور یہاں تک کہ سہولت بھی فراہم کر سکتے ہیں۔ 

چین کی اصلاحات اس عملی نقطہ نظر سے مطابقت رکھتی ہیں، جو (حقیقت سے) سوشلزم کو ایک جاری عمل کے طور پر دیکھتا ہے جس کے لیے ان حالات ۔ میں مسلسل موافقت کی ضرورت ہوتی ہے جن میں یہ موجود ہے۔ ڈینگ ژیاؤ پنگ نے اس نقطہ نظر پر زور دیتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔ ۔کہ“ہم نے کہا ہے کہ سوشلزم کمیونزم کا بنیادییعنی پہلا مرحلہ ہے اور ترقی یافتہ مرحلے پر ’ہر ایک سے اس کی صلاحیت کے مطابق اور ہر ایک سے اس کی ضروریات کے مطابق‘ کا اصول لاگو ہوگا۔ اس کے لیے انتہائی ترقی یافتہ پیداواری قوتوں اور مادی دولت کی بے تحاشہ کثرت کی ضرورت ہے۔ اس لیے سوشلسٹ مرحلے کا بنیادی کام پیداواری قوتوں کو تیار کرنا ہے۔ سوشلسٹ نظام کی برتری، آخری تجزیے میں، سرمایہ دارانہ نظام کے مقابلے میں ان قوتوں کی تیز رفتار اور زیادہ ترقی سے ظاہر ہوتی ہے”۔

چین پر بائیں بازو کے تنقید کرنے والے حضرات اکثر یہ استدلال کرتے ہیں کہ چین کی جانب سے مارکیٹ کے طریقہ کار کو اپنانے سے اس کی سوشلسٹ شناخت کو نقصان پہنچتا ہے، کیونکہ ایک بڑھتا ہوا نجی شعبہ ایک بورژوا طبقے کے دوبارہ ابھرنے کا باعث بن سکتا ہے جو سوشلسٹ نظام کو خطرے میں ڈال

   سکتا ہے اور دوبارہ سے  سرمائیہ داروں ،جاگیر داروں کے معاشی و سیاسی قبضے کا باعث بن سکتا ہےتاہم، جیسا کہ ڈومینیکو لوسورڈو نے اشارہ کیا ہے، یہ  تنقید کرنے والے بورژوازی کے ‘معاشی’ اور ‘سیاسی’ قبضے کے درمیان اہم فرق پر غور کرنے میں ناکام  رہے۔ جب مارکیٹ میکانزم متعارف کرایا گیا تھا، تو کیمونسٹ پارٹی آف چائینا نے اپنا سخت سیاسی کنٹرول برقرار رکھا،  اس سیاسی کنٹرول نے سرمائیہ دار،جاگیردار اور سامراجی گماشتوں کو دوبارہ منظم ہونے اور مارکیٹ میکنزم سے فائیدہ اٹھا کر پھر سے ایک طبقے کے طور پر منظم ہونے کا موقع فراہم نہی کیا

ڈینگ ژیاؤپنگ نے اس مسئلے پر بھرپور  توجہ دی جب اس نے کہا، کہ  ’’ہم  بورژوازی کو نئی طبقاتی شکل اختیار نہیں کرنے دیں گے۔‘‘ نجی اداروں نے معاشی ترقی میں حصہ ڈالا جبکہ پارٹی کا غلبہ  قائم اورمحفوظ رہا۔ ڈینگ سیاؤ پنگ نے  زمبابوے کے وزیر اعظم رابرٹ موگابے سے بات کرتے ہوئے         1985  میں تبصرہ  کیا کہ “شاید لینن کو ایک اچھا خیال تھا جب اس نے سوویٹ یونین میں نئی اقتصادی پالیسی کو اپنایا  ”  ڈنگ سیاؤ پنگ نےلینن کی نیو اکنامک  پالیسی اور چین کی اصلاحات کے درمیان  مماثلت  اورمتوازی  پن کو  نمایاں کیا۔ دونوں نے (ڈنگ اور لینن) ایک عملی نقطہ نظر تشکیل دیا، جس سے محدود پرائیویٹ انٹرپرائزز کو معیشت کو بحال کرنے کی اجازت دی گئی جبکہ وہ ابھی تک محنت کش طبقے اور اس کے اتحادیوں کے لیے مکمل سیاسی اختیار کو  کیمونسٹ پارٹی کے اقتدار کی صورت میں محفوظ رکھتے ہیں۔

لینن کی این ای پی (نیو اکنامک پالیسی)   کے بارے میں ڈومینیکو لوسورڈو کی سمجھ ممتاز جرمن فلسفی والٹر بنجمن کی سمجھ سے مطابقت رکھتی ہے۔ بیجمن نے 1927 میں اپنے ماسکو کے دورے کے دوران نوٹ کیا کہ سوویٹ یونین کی حکومت نے معاشی دولت اور سیاسی طاقت کے درمیان علیحدگی پیدا کر دی ہے، کیونکہ نیو اکنامک پالیسی کے نفاذ کے باوجود  سوویت ریاست نے مکمل سیاسی کنٹرول برقرار رکھا  لیکن نجی اقتصادی سرگرمیوں کی اجازت دی۔ ببینجمن  نے دیکھا کہ اس قطعی علیحدگی نے ‘این ای پی  کے تحت  محدود نجی ملکیت کو’خوفناک سماجی تنہائی’  کا شکار ہو گئی کیونکہ  اسٹالن اور کیمونسٹ پارٹی کے آہنی کنٹرول  کے نتیجے میں  ان کی دولت سیاسی اثر و رسوخ میں تبدیل نہیں ہونے دی گئی۔ لوسورڈواور بینجمن یہ استدلال  پیش کرتے ہیں کہ اگرچہ مارکیٹ میں اصلاحات متعارف کرائی گئی تھیں  لیکن اس سے سرمایہ دارانہ نظام واپس نہیں آیا، کیونکہ کمیونسٹ پارٹی اب بھی  سیاسی نظام اوراقتدار پر قابض ہے۔

حرف آخر

By only focusing on theoretical ideals, critics overlook and often fail to consider the dialectical nature of Socialism, which cannot be reduced to static definitions; but rather, its relevance and survival depend on its ability to reform and adapt. Lenin’s New Economic Policy and China’s reforms.

صرف نظریاتی نظریاتپر توجہ مرکوز کرنے سے، ناقدین سوشلزم کی جدلیاتی نوعیت کو نظر انداز کرتے ہیں اور اکثر اس پر غور کرنے میں ناکام رہتے ہیں، جسے جامد تعریفوں تک کم نہیں کیا جا سکتا۔ بلکہ اس کی مطابقت اور بقا اس کی اصلاح اور موافقت کی صلاحیت پر منحصر ہے۔ لینن کی نئی اقتصادی پالیسی اور چین کی اصلاحات جدید دنیا میں سوشلزم کے اعلیٰ مقصد کو آگے بڑھانے کے لیے سختی کے بجائے لچک کی ضرورت کو ظاہر کرتی ہیں۔

5 thoughts on “Challenging the purists: the Marxist debate over China’s path”

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *