بلوچستان: مڈل کلاس نے سرداری نظام کو پچھاڑ دیا
شاہ ؐمحمد مری
معاشی پیداوار کرنے میں صرف دو طبقے شامل ہوتے ہیں : بورژوازی (کارخانے کا مالک جو مزدور کو اجرت پہ رکھتا ہے )،اور پرولتاری ( صنعتی مزدور)۔ یہ دونوں طبقات ہی بنیادی ہوتے ہیں، باہم دائمی جنگ کرتے ہیں۔چنانچہ مڈل کلاس غلط لفظ ہے۔اس لیے کہ انجینئر ڈاکٹر وکیل ٹیچر ، ٹھیکیدار، تاجر، دکاندار، منیجر،فوج ، مولوی ، بیوروکریسی اور سائنس دان وغیرہ معاشی پیداوار کرنے میں ڈائریکٹ کوئی حصہ نہیں لیتے۔ اسی لیے یہ ایک طبقہ نہیں ہے۔ انہیں کلاس کے بجائے stratumکہتے ہیں۔مگر غلط العام ہونے کے سبب تفہیم میں آسانی کے لیے ہم بھی یہاں اسے ”مڈل کلاس “ ہی کہیں گے۔اس مڈل کلاس کے تین حصے ہیں:
اپر مڈل کلاس ، مڈل کلاس ،اور لوئر مڈل کلاس۔
بلوچستان کا مڈل کلاس سرکاری ملازمین، پروفیشنلز (ڈاکٹرز، انجینئرز ، ٹیچرز) کاروباری ،اور سمال بزنس مالکان ،اور پرائیویٹ سیکٹر ملازمین پر مشتمل ہے۔برٹش کالونیل زمانے میں جدید تعلیم ، ایڈمنسٹریشن اور انفراسٹرکچر قائم ہونے کی وجہ سے ایک چھوٹی سی بلوچ مڈل کلاس پیدا ہوئی تھی۔اور یہ چیونٹی کی رفتار سے بڑھتی رہی۔ اب ڈھائی سو سال بعد یہ اچھی خاصی مضبوط ہوگئی۔1970 میں صوبہ بننے کے بعد بالخصوص پورا سرکاری ڈھانچہ مڈل کلاس سے تشکیل پاتا ہے۔ سارے محکمے مڈل کلاس کے لوگ چلاتے ہیں۔ انہی سرکاری اداروں کے لیے کام کرنے والے ٹھیکیدار ، سپلائرز ، وغیرہ سب مڈل کلاس سے وابستہ ہیں۔
سوئی گیس ویسے تو اردو والوں اور پنجابیوں کے قبضے میں رہا مگر سیاسی وجوہات پہ چند دانے انجینئرز اور لوئر ملازمین بگٹی قبیلے سے بھی لیے جاتے رہے۔ بہت سارے مقامی لوگوں نے وہاں ٹرانسپورٹ اور سامان کی مد میں بیسیوں گاڑیاں کرائے پہ دے رکھی ہیں۔ مقامی ٹھیکیدار اسی گیس سے متعلق چھوٹا موٹا کاروبارکرتے ہیں۔ یوں ایک اچھی خاصی مڈل کلاس پیدا ہوتی رہی وہاں۔
اسی طرح کوئلہ کی صنعت کے بلوچ مالکان کو اگر ،اپر کلاس میں نہ بھی ڈالیں تو وہ اپر مڈل کلاس میں تو ضرور آتے ہیں۔ لوئیر ملازمیں کے مائن منیجرز اور مائننگ انجینئرز ، مائن سردار، لیبر جمعدار وغیر اسی مڈل کلاس میں شمار ہوتے ہیں۔سنگ مرمر، کرومائیٹ ، بیرائٹ ، کاپر ، اور سونے کی کانوں کے اندر آٹے میں نمک برابر ہی سہی ، بلوچ مڈل کلاس اہلکار موجود ہیں۔
سبزی اور فروٹ کے بڑے بڑے باغات کے مالکان اور فصل خریدنے والے ٹھیکیدار اور اس کے ٹرانسپورٹرز مڈل کلاس کی تشکیل کرتے ہیں۔ اسی طرح ٹرکوں ، بسوں کے مالکان اور عملے کو بھی مڈل کلاس میں ڈال دیں تو ان کی تعداد سینکڑوں میں آتی ہے۔
اس کے علاوہ چھوٹے چھوٹے بے شمار سیکٹرز ہیں جہاں مڈل اور اپر مڈل کلاس عرصے سے موجود رہی ہیں۔ مارکر فارماسیوٹیکل کمپنی ،فلورملز ، آر سی سی فیکٹریز ، بلاک فیکٹریاں ، ماربل فیکٹریاں، ٹف ٹائل فیکٹریز، سمینٹ فیکٹری ، واٹر پلانٹس ، فرنیچر پلانٹس، چھوٹی سٹیل ملیں، گھی ملیں، آٹو پارٹس مالکان ، گوادر کی کجھور فیکٹری اور سمندر میں بوٹ میکرز ، ماہی گیری میں کشتی مالکان ، مچھلی فروشی کے ٹھیکیدار اور ٹرانسپورٹرز ، ہمارا مڈل کلاس بناتے ہیں۔ آٹو اور الیکٹرک مرمت ،بیکری سے وابستہ مالکان اور اہلکار، شہروں میں بڑی دکانیں اور مالز، آئس فیکٹریاں، ڈیری فارمز ، پولٹری اور فش فارمز ، ہوٹل صنعت کے بے شمار یونٹس ،اور قالین کی صنعت کے مالکان ہماری اپر مڈل کلاس کی تشکیل میں مدد کرتی ہیں۔
اسی طرح نصیر آباد ڈویڑن میں سو کے قریب رائس ملیں ہیں۔
وفاقی اداروں یعنی واپڈا ، ٹی این ٹی ، ریلوے اور پی آئی اے کے مقامی افسران اور عملہ بھی ہماری مڈل کلاس کی صفوں کو گاڑھا کرتے ہیں۔بلوچستان میں موجود تقریباً پندرہ بینک ہیں اور موٹے انداز ے کے مطابق ان کی 80برانچیں ہیں۔یہ سارا عملہ مڈل کلاس ہے۔تقریباً ہر قصبہ اور شہر میں چھوٹے بڑے پرائیویٹ سکولوں کی موجودگی یہاں کی مڈل کلاس کا حجم بڑھاتی ہے۔ اسی طرح بلوچستان کے تقریباً ہر قصبہ میں مولوی اور مدد سے قائم ہیں۔ یہ اچھی خاصی مڈل کلاس بناتے ہیں۔کوئٹہ اور دیگر بڑے شہروں میں بڑے بڑے پرائیویٹ ہسپتال، پرائیویٹ یونیورسٹیاں ، اور پرائیویٹ کالج ہیں۔ یہ ادارے بے شمار سرکاری اداروں کے علاوہ ہیں۔جہاں کے ملازمین ہمارا مڈل کلاس تشکیل دیتے ہیں۔
صرف بولان میڈیکل کالج سے اب تک 5ہزار ڈاکٹر پروڈیوس ہوئے ہیں۔ بے شمار ہیلتھ ٹیکنیشنز ان کے علاوہ ہیں۔اسی طرح خضدار انجینئرنگ یونیورسٹی اور جہلاوان میڈیکل کالج ،تربت یونیورسٹی ، اور مکران میڈیکل کالج ، لورالائی کی یونیورسٹی اور میڈیکل کالج ، اور بلوچستان یونیورسٹی ، بیوٹمز ، اور ایگریکلچر کالج کے اساتذہ اور دوسرا بھاری عملہ ہماری مڈل کلاس تشکیل کرتے ہیں۔بلکہ یہ ادارے توہر سال ہزاروں گریجوئیٹ اور پوسٹ گریجوئیٹس نکالتے ہیں۔
لا کالجز ہمیں بے شمار وکیل دیتے ہیں جو بلوچستان کے طول و عرض میں موجود عدالتی نظام کو چلاتے ہیں۔ بلوچستان کا عدالتی نظام اسی مڈل کلاس سے تشکیل پاتا ہے جس کی تعداد ہزاروں میں ہے۔لیویز اور پولیس اور سول بیوروکریسی لوئر ، مڈل اور اپر مڈل کلاس کی تشکیل میں اہم ادارے ہیں۔ ریٹائرڈ ملازمین اس کے علاوہ ہیں۔
واضح رہے کہ مڈل کلاس معاشرے کی متحرک ترین کلاس ہے۔ یہ جدید تعلیم سے آراستہ ہے اور اپنے متحرک پن کی وجہ سے الیکٹرانک ، پرنٹ اور سوشل میڈیا پر آواز بلند کرنے والی آبادی ہے۔ یہ پیٹی بورڑوا کلاس جلدی آگے بڑھنے کی خواہش رکھنے والی بیتاب کلاس ہے۔ یہ سیاست میں بھی حصہ لیتی ہے اور ریاستی اقتدار حاصل کرنے کی خواہش بھی رکھتی ہے۔اصولاً تو مڈل کلاس (پیٹی بورژوا زی )حکمران طبقات کے ہاتھوں میں ایک ہتھیار ہوتی ہے جو کہ بہت بڑی لوئر کلاس کو ہمہ وقت گمراہ کرتی رہتی ہے۔
بلوچ سماج میں ، البتہ یہی مڈل کلاس الٹ کام کرتی ہے۔ یہ پروگریسو ہے، انٹی امپیریلسٹ ہے ،قدامت پرستی کے خلاف ہے، قومی اختیار کی طالب ہے ، عورتوں کو سیاسی طور پر متحرک کرنے کے حق میںہے ، اور داخلی طور پر سرداری نظام کی مخالف ہے۔
کیوں؟۔
اس لیے کہ بہت پہلے سے یہاں ایک تلخ اور بنیادی مسئلہ موجود رہا ہے :قومی سوال۔اسی قومی تحریک میں شہری مڈل کلاس کی شمولیت کو اب سوا صدی ہونے کو ہیں۔عبدالعزیز کرد اور یوسف مگسی نے یہ جدوجہد شروع کی تھی۔ اِن بانیوں سے لے کر آج کی قیادت تک سارے لوگ مارکسزم سے متاثر رہے ہیں۔1948 کے قلات پہ حملہ اور قبضہ سے لے کر آج تک یہ قومی تحریک جاری ہے۔بلوچ کے معدنی وسائل لوٹے جارہے ہیں، سمندر و ساحل پہ بری نگاہیں ہیں۔ بلوچ کی نفسیات میں اس کے اقتدار اعلیٰ کے چھن جانے کا غصہ موجود ہے،تعلیم صحت اور نوکریوں پہ دوسرے صوبے کے لوگوں کا قبضہ رہا۔ اور پھر سرکار کے خلاف جنگوں میں ہزاروں افراد کا قتل ،ٹارچر جیلیں، اور جلاوطنیاں کل آبادی کے معاملات بن گئے۔
بلوچ مڈل کلاس شروع میں تو زیادہ تر ان علاقوں میں بڑھتی رہی جہاں سرداری اور قبائلی سٹرکچر نمایاں نہ تھے۔اب تو بلوچستان بھر میں سرداریت کا سٹرکچر کمزور ہوتا جا رہا ہے۔اور اب محض اس کی باقیات رہ گئی ہیں۔معاشی معاملات کے علاوہ اس مڈل کلاس کو بنیادی انسانی حقوق کا شعورحاصل ہے۔ جمہوریت کے فوائد کی جانکاری بھی اِسی گروہ کو حاصل ہے۔ اس جمہوریت کے لیے ، اور ون یونٹ کے خلاف بلوچ عوامی جدوجہد کی تاریخ اسے معلوم ہے ۔اسی لیے حقوق کا غصب ہوجانا اسے بہت تنگ کرتا ہے ، اسے سیاسی جدوجہد کے لیے ابھارتا ہے۔
ایک اہم بات یہ ہے کہ یہ مڈل کلاس نوجوان مردوں عورتوں پہ مشتمل ہے۔ یونیورسٹیوں ،کالجوں ،سکولوں اور سرکاری وغیر سرکاری اداروں کے یہ لوگ بکھرے ہوئے نہیں ہوتے بلکہ ایک ہی بلڈنگ اور احاطے میں اکٹھے ہیں۔ اس لیے سیاسی سماجی اور معاشی خیالات سے متاثر ہونے ، ایک دوسرے کو متاثر کرنے ، منظم ہونے اور سٹرگل کرنے میںانہیں بہت آسانی ہوتی ہے۔
بلوچ کی مڈل کلاس سٹڈی سرکل لگاتی ہے۔ اجلاس کرتی ہے ، منظم ہوتی ہے۔ یہ اپنا شعور بڑھانے کے لیے فیس بک ٹوئیٹر اور یوٹیوب استعمال کرتی ہے۔ صرف سوشل میڈیا ہی نہیں بلکہ زندگی کے تجربات و مشکلات نے بھی عوام کی بے پناہ اکثریت کو باشعور اور دوراندیش بنادیا ہے۔
اس مڈل کلاس کی بے آرامی کو اربنائزیشن نے بہت بڑھاوا دیا۔ سچی بات ہے کہ اربنائزیشن ہی نے اسے نمایاں رول عطا کیا ہے۔اربنائزیشن سے بلوچ آبادی کا بڑا حصہ قبائلی زندگی کے گنوار پن اور وحشت سے چھٹکارا پاگیا۔ اس بڑے پیمانے کی اربنائزیشن سے دیہات میں سرداری نظام مزید کھوکھلا ہوتا گیا۔ اس اربنائزیشن نے کثیر آبادیوں کو شہر میں اکٹھا کیا۔ تحریک کو مرکزیت بخشی۔
اس مڈل کلاس کو روزگار کے کم مواقع اور انفراسٹرکچر کی فرسودگی کے چیلنج نے سرگرم کردیا۔اور اس کی تنظیمیں غربت کے خلاف اٹھتی رہیں، اپنے بے روزگار نوجوان بیٹوں کا خالی جیب والدین کے دلوں پہ چھریاں چلاتی ہے۔ مڈل کلاس سے وابستہ لوگوں کو سرداروں جاگیرداروں اور غیر مقامی افسروں کی کالے شیشوں والی ویگو گاڑی زہر لگتی ہے۔ ان افسروں اور ان کے بنائے ہوئے سرداروں کے آئی فون ، برگر بال ، قیمتی غیر ملکی سگریٹ ، کلف شدہ اجلا لباس ، کالے چشمے ، اے سی لگے دفتر و گھر، برانڈ ڈ بوٹ، فرعونی لہجہ ، اپنی قوم قومی زبان قومی کلچر اور قومی گھر بلوچستان سے نفرت ہمارے مڈل کلاس کو شدید جدوجہد پہ اکساتی رہیں۔
باہر وفاق اور اندر سرداریت۔ ان دونوں سے غیر مطمئن اس مڈل کلاس نے ہر وقت لوئر کلاس کو ساتھ ملانے کی کوشش کی۔ مختلف سیاسی پارٹیوں اور تحریکوں کے پرچم تلے بلوچ مڈل کلاس یہ جدوجہد کرتی رہی۔اور یوں بالآخراِن دو جینوئن مسائل یعنی وفاق اور سردار کے ظلم کے خلاف ایک ہمہ طبقاتی عوامی تحریک چلانے میں کامیاب ہوگئی۔ اس عوامی تحریک نے پہلے سے کمزور شدہ سرداری نظام کو بالآخر غیر متعلق کردیا۔
اب کا سردار تو بقول کسے چھاﺅنی کا سردار ہے۔ اور چھاﺅنی میں تو دستار کسی کے ہاتھ اور وقار کسی کے ہاں۔ چھا?نی میں تو دست بستگی چلتی ہے۔ مونچھ کی نوکیں گھڑی کی ڈائل پہ چھ بج کر چھبیس منٹ جیسی نیچی ہونی ہیں۔ ہاتھ اگلے کے پیروں پہ۔ ہر فقرمیں چار بار” سر“ کا استعمال شرط ہوتا ہے۔۔۔۔ اور اس میں سردار کا کیا قصور۔معاشی سماجی ارتقا نے اس کے اقتدار کے پاﺅں اکھاڑ جو دیے۔۔۔ اب کا سردار سرکار کا جڑواں تو کیا اس کی گھوڑی کے رکاب برابر کرنے والا ملازم بن چکا ہے۔مڈل کلاس کی اس تحریک نے سرداری جاگیرداری نظام کے سارے Taboosتوڑ دیے۔ اور مردوزن، شرق و غرب، مالدارو ماہی گیر، پٹ فیڈر و خوشک آبہ سب کو اس عوامی تحریک میں پرو دیا۔
بلاشبہ ہمارے مڈل اور لوئر مڈل کلاس کا یہ رول حادثاتی نہیں ہے۔ عوامی حقوق کے لیے اس جدوجہد میں ان کی شرکت و قیادت پرانی ، شعوری ،اور قومی ہے۔