مارکسزم کی روشنی میں پاکستان میں سوشلزم کی جدوجہد

مارکسزم کی روشنی میں پاکستان میں سوشلزم کی جدوجہد

(تحریر:رانا اورنگ زیب عالمگیر)

 

 

دنیا کی تمام بڑی انقلابی تحریکیں ایک بنیادی حقیقت کے گرد گھومتی ہیں: طبقاتی کشمکش۔ اور یہی وہ نکتہ ہے جس پر کارل مارکس کی تمام فکری عمارت کھڑی ہے۔ آج جب ہم پاکستان جیسے ترقی پذیر اور سماجی و معاشی ناہمواری کے شکار ملک میں سوشلسٹ جدوجہد کی بات کرتے ہیں، تو ہمیں مارکسزم کی روشنی میں اپنے حالات کو سمجھنے، اور سیاسی کارکنوں کو بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔
کارل مارکس وہ مفکر جس نے دنیا کو بدل کر رکھ دیا کارل مارکس صرف ایک فلسفی نہیں، بلکہ مظلوم انسانیت کی آواز تھا۔ اس نے مزدور کی زندگی کا وہ سچ بیان کیا جو سرمایہ دارانہ نظام چھپاتا رہا۔ مارکس کا تصور ”قدرِ زائد” ہمیں بتاتا ہے کہ کس طرح مزدور کی محنت کا پھل سرمایہ دار کھا جاتا ہے۔ یہ وہ علمی ہتھیار ہے جو ہر سیاسی کارکن کو ظلم کی بنیادیں سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ آج ہمیں پھر سے مارکس کے افکار کو زندہ کرنے اور عام کارکن تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔
سوشلزم کیا ہے؟

ایک عملی وژن، نہ کہ خواب:سوشلزم کوئی خیالی دنیا نہیں بلکہ ایک منصفانہ نظام ہے، جو پیداواری وسائل کی نجی ملکیت کے بجائے عوامی ملکیت کو ترجیح دیتا ہے۔ یہ ریاست کو چند خاندانوں کی جاگیر نہیں بلکہ عوام کی نمائندہ طاقت مانتا ہے۔ سوشلسٹ اصولوں پر کھڑا معاشرہ تعلیم، صحت، روزگار اور بنیادی سہولیات کو حق سمجھتا ہے، نہ کہ نفع کی منڈی کا سامان۔
طبقاتی شعور: جدوجہد کی اصل بنیاد ہے-پاکستان میں ہر مزدور، ہر کسان، ہر استاد، ہر بے روزگار نوجوان روزانہ ظلم کا شکار ہوتا ہے۔ لیکن جب تک وہ اپنے درد کو نظام کے خلاف شعور میں تبدیل نہیں کرتا، وہ غلامی کی زنجیروں میں جکڑا رہے گا۔ مارکس کہتا ہے: ”مزدور کو اپنی حالت کا شعور ہونا ہی انقلاب کی پہلی شرط ہے۔’‘ لہٰذا ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم سیاسی کارکنوں میں طبقاتی شعور پیدا کریں، انہیں بتائیں کہ ان کی محرومی ذاتی ناکامی نہیں، بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کی پیدا کردہ غلامی ہے۔
پاکستان میں سوشلسٹ جدوجہد، امکانات اور رکاوٹیں:پاکستان میں سوشلزم کا بیج بارہا بویا گیا، لیکن ہر بار اس کی کونپلیں آمریت، مذہبی انتہا پسندی، اور سامراجی مداخلت نے مسل ڈالیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ’اسلامی سوشلزم‘ کا نعرہ بلند کیا، لیکن جلد ہی اس کے اندر سرمایہ دار طبقہ غالب آ گیا۔ حقیقی سوشلسٹ سیاست کو ہمیشہ دبایا گیا — نہ صرف ریاستی جبر کے ذریعے، بلکہ نظریاتی تشویش پھیلانے کے ذریعے بھی۔
مگر آج کے نوجوان، مزدور، اور باشعور طبقے میں پھر سے بائیں بازو کی سیاست کے لیے جگہ پیدا ہو رہی ہے۔ بدترین مہنگائی، بیروزگاری، نجکاری، تعلیمی اداروں کی بربادی، صحت کی تجارت کاری — یہ سب لیفٹ کی سیاست کے لیے نئے میدان فراہم کر رہے ہیں۔
ہمیں ان حالات میں درج ذیل اقدامات کرنے نہایت ضروری ہیں۔
تعلیم و تربیت: ہر کارکن کو مارکسزم، سوشلسٹ تاریخ، اور طبقاتی جدوجہد کی تعلیم دی جائے۔
تنظیم سازی: یونین، طلبا تنظیم، کسان اتحاد، اور لوکل باڈی نیٹ ورکس کو فعال بنایا جائے۔
بیانیہ سازی: عوامی زبان میں لیفٹ کا بیانیہ پھیلایا جائے۔ سوشلزم کو مذہب دشمن یا غیر ملکی تصور سے نکال کرانسان دو ست اور مساوات پر مبنی نظام کے طور پر پیش کیا جائے۔
جمہوری مزاحمت: آمریت، جبر، اور استحصالی ریاستی ڈھانچے کے خلاف پرامن جمہوری عوامی تحریکیں اٹھائی جائیں۔
نئی قیادت: محنت کش طبقہ پر مبنی قیادت پیدا کی جائے،ملک میں جاگیرداری کے خاتمہ اور سامراجی پالیسیوں کے خلاف آواز اُٹھائی جائے
پاکستان میں غیر جمہوری قوتوں نے اس خوف کی وجہ سے کہ ملک میں سوشلسٹ قوت نہ پنپ جائے1958؁ میں ایوب خاں نے مارشل لا لگایا اور سب سے زیادہ لیفٹ کی جدوجہد کو اور لیفٹ کی سیاسی قوت کو نقصان پہنچایا اور جو سیاسی جماعت محنت کشوں کے اقتدار کی راہ ہموار کرنے کا ایجنڈا لئے ہوئے تھی اُسے سیاسی جبر کا نشانہ بنا کر اس سیاست کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی اور ریاستی جبر کا سہارا لیتے ہوئے پارٹی میں گروہی اختلافات کی رسہ کشی سے لیفٹ کی قوتوں کو منتشر کیا گیا۔ہم مارکس ازم کی تعلیمات اور اُس کے بتائے ہوئے راستے سے دور ہوتے چلے گئے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج سوشلزم کی جدوجہد کے لیے بہت زیادہ محنت کرنے کی ضرورت پڑے گی۔مارکسزم ہمیں صرف یہ نہیں بتاتا کہ دنیا کیا ہے، بلکہ یہ بھی سکھاتا ہے کہ دنیا کو کیسے بدلا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں سوشلسٹ جدوجہد کوئی ختم شدہ باب نہیں بلکہ ایک نئی جدوجہد کے راستے کا آغاز ہے اور اس جدوجہد میں ہر کارکن خود ایک تحریک ہے بس شرط یہ ہے کہ وہ سیاسی و طبقاتی شعورسے، علم سے، تنظیم سے، اور عمل سے لیس ہو۔ہمیں وہ راستہ چننا ہے جو مظلوموں کا ہے، جو برابری کا ہے جو تبدیلی کا ہے جو سوشلزم کا ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *