USA Tariff policy and Trade War

ٹیرف: پروٹیکشن ازم کی نامرادی
پروفیسربابر پطرس
ع 1857کے ہنگامہ خیز سالوں میں،جب برصغیر میں آذادی کی جنگ کو متعدد وجوہات کی بنا پر کچل کر برطانوی سامراج نے ہندوستان پر قبضہ کر لیا، تو بغاوت کے شعلوں کو اور راکھ میں دبی چنگاریوں کو ٹھنڈا کرنے کے لیے، گرفتاریوں، سزاوں اور اذیتوں کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوا۔ افراتفری میں روز ایک نیا حکم نامہ صادر ہوتا۔ اندازہ لگانا مشکل ہو گیا تھا کہ کسی نئے قانون کا اطلاق ہو گا یا کوئی قانون معطل کیا جائے گا ۔ تذبذب کی اس کیفیت کو غالب نے اپنے ایک خط میں لکھا تھا:
روز اس شہر میں اک حکم نیا ہوتا ہے
کچھ سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ کیا ہوتا ہے
جناب ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بعد، امریکہ سمیت پوری دنیا اسی قسم کی کیفیت سے گزر رہی ے۔ ہر روز کچھ ایسا ہو جاتا ہے کہ دنیا اتھل پتھل ہو جاتی ہے۔جیساکہ گزشتہ روز صدر ٹرمپ کی جانب سے ، دنیا کے ساتھ تجارت کے حوالے سے، پروٹیکشن ازم کی پالیسی کے تحت مخلتف اقسام کے ٹیرف عائد کرنے کا حکم نامہ جاری کیا گیا ہے۔ بہ ظاہر ایسی پالیسیوں کا مقصد کسی بھی ملک میں آنے والی مصنوعات کی حوصلہ شکنی کر کے، ملکی پیداور کو فروغ دینا، تجارتی خساروں کو کم کرنا ، اور مقامی صنعت کو بڑھاوا دینا ہوتا ہے۔ماضی میں بھی اسی قسم کا ایک ٹیرف ایکٹ امریکہ میں پاس ہوا تھا، جسے اسموٹ ہاولی ٹیرف ایکٹ 1930ع کہا جاتا ہے۔

اس ایکٹ کو صدر ہربرٹ ہوور نے دستخط کرکے قانون بنایا۔ اس کا مقصد امریکہ کی مقامی صنعتوں اور کسانوں کو غیر ملکی درآمدات سے تحفظ دینا تھا۔ اس قانون کے تحت 20,000 سے زائد درآمد شدہ اشیاء پر ٹیرف میں نمایاں اضافہ کیا گیا۔ تاہم یہ اقدام عالمی تجارت کے لیے تباہ کن ثابت ہوا۔ دوسرے ممالک نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے امریکی مصنوعات پر اپنے ٹیرف بڑھا دیے، جس سے بین الاقوامی تجارت میں شدید کمی واقع ہوئی اور اس نے 1930ع کے عالمی معاشی بحران (گریٹ ڈپریشن) کو مزید گہرا کر دیا۔اس ایکٹ نے دوسرے ممالک کو جوابی ٹیرف عائد کرنے پر مجبور کیا۔ کینیڈا اور یورپی ممالک نے امریکی مصنوعات پر ٹیرف بڑھائے، تو عالمی تجارت 1930ء کی دہائی میں تقریباً 66% تک گر گئی۔معاشی بحران میں اضافہ ہوا۔ یہ قانون گریٹ ڈپریشن کی شدت کو بڑھانے کا ذمہ دار ٹھہرا۔ کمپنیوں کے دیوالیہ ہونے، بے روزگاری میں اضافہ، اور عالمی سطح پر معاشی سرگرمیوں کی کمی کا ایک بڑا سبب بنا۔

آج کی دنیا 1930 کی دہائی سے کہیں زیادہ مختلف دنیا ہے۔ آج کی دنیا ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ جڑی ہوئی اور ایک دوسرے سے منسلک ہے، اور اس کی تمام تر” ترقی” ایک دوسرے کے خام مال اور تجارتی تعلقات کی مرہون منت ہے۔خود امریکہ کا ترقی یافتہ وجود دیگر ممالک کے وسائل اور ذہنی قابلیت کا احسان مند ہے۔اس کے ثبوت کے لیے آئی۔ فون کی تیاری کے عمل میں شامل مختلف ممالک کا کردار ہی کافی ہے۔ مثلا آئی۔فون میں ایل۔سی۔ڈی اور او۔ایل۔ای۔ڈی اسکرینز جنوبی کوریا میں،Samsung اور LG ایسی کوریائی کمپنیاں تیار کرتی ہیں۔ کیمرہ سینسرز جاپان میں بنتے ہیں۔ مذکورہ فون کے ڈیزائن، سافٹ وئیر اور سافٹ ویئر کی چپس اور ان کی تحقیق کا کام امریکہ میں ہوتا ہے۔ اس کے بعد تائیوان، جرمنی اور میکسیکو سے ہوتا ہوا، چین میںFoxcon اور Pegatron ایسی کمپنیوں کے پلانٹس پر اسمبل ہو کر پوری دنیا کے صارف تک پہنچتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا اساطیری عہد کی ٹکڑوں میں تقسیم دنیا نہیں ہے بل کہ ایک دوسرے سے اس قدر جڑی ہوئی ہے کہ اس نے ایک عالمی معیشت کو جنم دیا ہے۔ اس لیے ٹرمپ کی ” ٹیرف وار” نہ صرف پوری دنیا پر بل کہ خود امریکہ کی صنعت، کاروبار اور روزمرہ زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرے گی۔ اس کا ہلکا سا اشارہ امریکہ کی اسٹاک ایکسچینج نے دیا ہے جو، ٹیرف کے اعلان کے بعد ، پندرہ سو پوائنٹ نیچے گر گئی ہے۔ گزشتہ کچھ سالوں میں امریکہ توانائی کے وسائل میں اضافہ کر کے خود کفیل ہونے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ سعودیہ عرب، عراق اور متحدہ عرب امارات سمیت دیگر ممالک پر انحصار کو کم کیا جا سکے۔

امریکہ میں شیل آئل نے، اس کی توانائی کی ضرورت کو کافی حد تک پورا کیا ہے، لیکن یہ ایک مہنگا طریقہ ہے۔ پھر امریکہ دنیا کے سب سے بڑے توانائی کے صارفین میں سے ایک ہے۔ جیسے بہ ہرحال تیل اور قدرتی گیس کی ضرورت کو مشرق وسطی اور کینڈا وغیرہ سے پورا کرنا پڑتا ہے۔ اگر یہ ممالک بھی امریکہ پر ٹیرف بڑھا دیتے ہیں، تو خود امریکہ کے اندر توانائی کے اخراجات بڑھ جائیں گے۔ اسی طرح اسٹیل، تانبے اور Aluminium وغیرہ کی درآمد پر برازیل، کینڈا اور جنوبی کوریا کی طرف سے لگائے جانے والے جوابی ٹیرف، امریکی تعمیرات، آٹو موبائل اور طیارے بنانے والی کمپنیوں کو براہ راست متاثر کریں گے۔ چین اور تائیوان کی طرف سے سیمی کنڈکٹرز پر اضافی ٹیرف امریکی ٹیک انڈسٹری کو بحران سے دوچار کر دے گا۔ لہذا ان ٹیرفوں اور جنگی حالات میں تیل سمیت ہر شے کی سپلائی لائن متاثر ہو کر قیمتوں میں اضافہ کا سبب بنے گی۔ جس سے عام صارف کی قوت خرید مزید گر جائے گی۔ یوں دینا ایک نیےمعاشی بحران کے بھنور می پھنس جائے گی، جس میں زندگی کی سانسوں کو بحال رکھنا، ناممکن ہو جائے گا۔خود امریکہ کے اندر افراط زر کی بدولت قیمتیں بڑھ جانے سے ، مہنگائی کا طوفان آ جائے گا۔قوت خرید گر جانے کی وجہ سے کھپت کم ہونے کے ساتھ پیداور میں واضح کمی ہو گی۔ یوں بے روزگاری میں مزید اضافہ ہو گا۔
یہ ہنگامہ آرائی کوئی اتفاقی امر نہیں ہے، نہ ہی کسی لاابالی طبیعت کے منھہ پھٹ، شخض کی ذاتی خواہش کا نتیجہ ہے۔ بل کہ یہ حالات و واقعات کی ناگزیر ضرورت ہے،جس نے ٹرمپ کی صورت اپنا اظہار کیا ہے۔ یہ اس امر کا اظہار بھی ہے کہ مروجہ نظام معیشت، سرمایہ دارانہ اصولوں اور قوانین کے تحت نہیں چل سکتا، اور سرمایہ داری کا نگران امریکہ مختلف طریقوں اور ہتھکنڈوں کے ذریعے سے، اس کو زندگی کی سانسیں مہیا کرنے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے۔ پہلے سے بدحال لوگوں کو دھوکا دے کر باور کرایا جا رہا ہے کہ ان کے دکھوں اور مصائب کی وجہ نظام زر نہیں، بل کہ حکم رانوں کی نا اہلیت ہے۔کیا اس کرے کے تمام حکم ران نا اہل ہیں؟ اگر جواب نہیں میں ہے، تو کیوں ہر خطہ شورشوں کی زد میں ہے ؟
کیوں دنیا کے ہر خطے اور ملک میں بقا اور روٹی کا سوال شدت اختیار کرتا جا رہا ہے؟ کیوں پوری دنیا میں، وقفہ وقفہ سے محرومیوں کے گرد، محکوموں اور مظلوموں کی انقلابی تحریکیں بن رہی ہیں؟ حقیت یہ ہے کہ ان تحریکوں کی شدت اور حدت گلا پھاڑ کر چلا رہی ہیں کہ زر کا نظام متروک ہو چکا ہے۔یہ نظام نہ تو روٹی کا مسئلہ حل کر پایا ہے، نہ محروم قومیتوں کے دکھ درد کا مدوا کر سکا ہے، نہ ذلتوں اور رسوائیوں کا علاج کرنے میں کام یاب ہوا ہے۔ یہ اس نظام کی نامرادی ہے، کہ اس کی جھولی میں جنگوں، تباہی، بربادی، بے روزگاری کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔یہ نظام مزید چلتا رہا، تو ٹیرف کی جنگ، کسی بڑے تصادم کا پیش خیمہ ثابت ہو گی، جو کرے کی تباہی کے سوا کچھ نہیں ہو گا، کیوں کہ سرمایہ داری کو چلانے کے یہ “آزمودہ نسخے” گزرے وقتوں کی داستان ہو چکے ہیں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *