پروفیسر امیر حمزہ ورک
اب تک کی انسانی تاریخ تین بڑے معاشی نطاموں کی تاریخ ہے۔۔۔ جاگیرداری نطام معیشت، سرمایہ ساری نظام معیشت اور سوشلسٹ نطام معیشت۔۔۔۔ تینوں نطاموں کی الگ الگ مادی بنیادیں،نظام سیاست اور ثقافتی اقدار ہیں—جاگیرداری نظام معیشت کا عہد طویل ترین عہد شمار ہوتا ہے—قدیم اشتراکی سماج( جس میں ریاست کا وجود نہی تھا) کے بعد غلام داری سماج سے طبقاتی سماج اور طبقاتی جدوجہد کی تاریخ کا آغاز ہوا۔۔ غلام داری سماج جاگیرداری سماج میں ڈھلا تو جاگیردارنہ نظام معیشت کو چلانے کے لئے سلطنت اور پھر ریاست کی ابتدائی شکلیں معرض وجود میں آیئں اور ساتھ ہی بادشاہت نے ایک سیاسی نظام کے طور پر اپنے قدم جمائے- اس قدیم عہد میں بھی جنگیں اپنی طاقت بڑھانے زیادہ سے زیادہ زمیں ہتھیانے اور قبضہ گیری کے لئے لڑی جاتی رہیں اور مظلوم انسان ان جنگوں کا ہر طرف سے ایندھن بنتے رہے اور سلطنتوں اور ریاستوں پر قابض طبقات اپنی دولت،زمین،اختیار و اقتدار میں اضافہ کرتے رہے
لیکن سرمایہ داری نظام نے جنگوں کے مقابلے میں ماضی کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے-غریب عوام کو لوٹنے اور دولت کے ارتکاذ کی بھی تاریخ میں کوئی مثال نہی ملتی،سرمایہ داروں اور ان کی ریاستوں نے دو عالمی جنگوں کے علاوہ ہزاروں علاقائی اور علاقائی جنگوں کو جنم دیا اور یہ سب کچھ دولت اور مزید
دولت کو جمع کرنے کے لئے کیا گیا اب تک کروڑ ہا لوگ ان جنگوں میں ایندھن کے طور پر کام آئے-
پھریورپ سے جنم لینے والے سرمایہ داری نظام نے قومی ریاستوں کی تخلیق کے نام پر جنگیں کیں،قبضے کئے،قوموں کو غلام بنایا اور ساری دنیا پر قبضہ کر کے نو آبادیاتی نظام کو پیدا کیا اور غریب انسانوں کو جمہوریت و انسانی حقوق کے جھانسے میں زنددہ درگو کر دیا- سرمایہ دار ملکوں کی آپسی قبضے گیری کی جنگوں میں کروڑوں لوگ مارے گئے جس کو سیاسی اصطلاح میں سرمایہ دارانہ نطام کے تضادات کا نتیجہ کہا جاتا ہے-
پھر یورپ ہی سے سرمایہدارانہ نطام کے رد کے طور پر سوشلزم ایک منصفانہ معاشی نطام کے طور پر ابھرا اور جس نے سانجھی معاشرتی ملکیت،اور وسائیل پیداوار پر پورے انسانون کی ملکیت کا تصور پیش کیا تو سرمایہ دار طبقہ،سرمایہ دار ملک اور ریاستیں بلبلا اٹھیں اور انھوں نے پوری دنیا کے وسائل پر(تیل،معدنیات،کارخانے،زمین،جنگلات) قبضہ برقرا رکھنے کے لئے جدید نوآبادیاتی نظام کو لاگو کیا اور جنگوں میں مزید تباہی ،بربادی،وحشی پن لے آ ے اور ساتھ ساتھ جمہوریت (جو کہ اصل میں سرمایہ دارانہ جمہوریت ہے) اور انسانی حقوق کا ڈرامہ بھی رچاتے رہے-
بیسویں صدی میں سرمایہ دارانہ نظام ترقی کرتا کرتا سامراج (امپیرلزم) کی منزل کو چھو چکا ہے اس وقت سے یہ سامراجی نطام،ملک اور ریاستیں دنیا بھر میں مزید جنگیں،خانہ جنگیاں،وسائل اور ملکوں پر قبضے، دولت کا ارتکاذ، ایٹمی ہتھیارون،فوجوں کے لاؤ لشکر بناتے چلے جا رہے ہیں اور دوسری طرف
-غربت،بیماری،جہالت،بد امنی،علاقائی تنازعوں اور جنگوں کو فروغ دے رہے ہیں
1
اس سارے پس منطر کا مقصد یہ واضع کرنا ہے کہ سرمایہ داری نظام اور جنگوں کے درمیان گہرا تعلق ہے جو مختلف تاریخی، معاشی، اور سیاسی پہلوؤں میں واضح ہوتا ہے۔ بیسویں صدی کے بعد جب سے سرمایہ داری نطام نے مقابلہ بازی کی جگہ مناپلی سے مارکیٹوں پر قبضے شروع کئے یا سامراج کا روپ دھارا،فوجی صنعت کو بہت برے پیمانے پر ترقی دی گئی تو اس وقت سے جنگیں اور خانہ جنگیاں پیدا کرنے، جنگوں کو طول دینے میں اس ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کا بہت بڑا کردار ہے- سرمایہداری سامراجی نطام میں فوجی صنعت اور سامراجی ملکوں کی حکومتی پالیسیوں کا گٹھ جوڑ مزید نئے تنازعات اور جنگیں پیدا کرنے کا اہم ذریعہ بن گیا ہے اور صرف اگر امریکہ کی بات کریں تو اس جیسے ملکوں میں لاک ہیڈ مارٹن، ریتھین اور بوئینگ جیسی اسلحہ ساز کمپنیاں ہتھیاروں کی پیداوار سے اربوں ڈالر کماتی ہیں 2023 کے اعدادو شمار کے مطابق امریکی فوجی بجٹ 858$ ارب دالر تک پہنچ گیا جو کہ عالمی ہتھیاروں کی تجارت کا 40٪ ہے اسی طرح یوکرین کی جنگ کے بعد پوری دنیا میں سامراجی ملکوں میں قائیم اسلحہ ساز کمپنیوں کے شئیرز میں 8٪ سے 22٪ تک اضافہ ہوا جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جنگیں،خانہ جنگیاں،دہشت گردی کے لاؤ لشکر،اور علاقائی تنازعات ان صنعتوں کے لئے منافع بخش کاروبار ہے
2
سرمایہ داری نظام میں کچھ سالوں بعد لازمی بحران پیدا ہوتا ہے جس کی کئی ایک وجوہات ہیں جیسے ٹیکنالوجی کی ترقی میں پیداوار میں بے تحاشہ اضافہ، عوام کی قوت خرید میں کمی،بے روزگاری کا پھیلاو اور کساد بازری وغیرہ- تو اس بحران کو ٹالنے کے لئے بھی سرمایہداری سامراجی نطام جنگوں کو “معاشی محرک” کے طور پر استعمال کرتا ہے- جیس کہ دوسری جنگ عظیم کی ایک بڑی وجہ سرمایہ داری نظام کے 1930 کے عظیم کساد بازری (یہ ایک معاشی ٹرم ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ چیزیں بہت زیادہ پیدا ہو رہی ہیں اور مارکیٹ میں خریدار بہت کم ہیں) بحران کو ٹالنا تھا
3
حال ہی میں 2008 میں جو سرمایہ داری سامراجی نطام میں بحران پیدا ہوا اس کے بعد سامراجی ملکوں امریکہ،برطانیہ،فرانس،روس،جرمنی ،اٹلی،سپین وغیرہ کے اور عالمی فوجی اخراجات میں 50٪ اضافہ ہوا جس کا مقصد سرمایہ دارانہ معیشت کو ” سٹیمولیٹ” یا تازہ دم کرنا تھا- اسی طرح روس یوکرائن جنگ نے فوجی بجٹوں میں اضافے کو جواز فراہم کیا جس سے اسلحہ ساز کمپنیوں کو بہت فائیدہ ہوا
4
سرمایہ دار سامراجی ریاستیں اور ملک دنیا بھر کے قدرتی وسائل (تیل،سونا،تانبا و دیگر معدنات) پر قبضے کے لئے جنگیں پیدا کرتی ہیں اور ان کو طول بھی دیتی ہیں جیسا کہ امریکہ نے مشرق وسطی،عراق، اور افغانستان پر حملوں کے ذریعے تیل کے ذخائر تک رسائی حاصل کی اور برطانیہ نے صدیوں تک جنوبی افریقہ کا سونا لوٹا- اور غزہ فلسطین کا تنازعہ بھی اسی کا شاخسانہ ہے- اسرائیل کی فوجی کاروائیوں کو امریکی سامراجی حمائیت حاصل ہے جو خطے کے استحکام کو تہ و بالا کر رہی ہے
5
اسلحہ وہتھیاروں کی غیر منظم تجارت سرمایہداری سامراجی نظام کا اہم ستون مانا جاتا ہے- عراق اور افغانستان میں 15 ملین (ڈیڑھ کروڑ) پرائیویٹ فوجیوں نے کام کیا جن کو ان کی زبان میں کنٹریکٹر بھی کہتے ہیں جن کی تعداد ریاستی فوجیوں سے زیادہ تھی اب یہ سامراجی ملک زیادہ تر ان ہی پرائیویت ملٹری کمپنیوں سے کام لیتے ہیں- جن کو پی ایم سی کہا جاتا ہے- کیونکہ یہ ان کا نیا ڈرامہ ہے اور ان کمپنیوں پر عالمی قوانین کا اطلاق مشکل سے ہوتا ہے اور جن کا اتہ پتہ بھی کم ہوتا ہے
6
سرمایہداری سامراجی نظام کی پیدا کردہ عدم مساوات اور طبقاتی کشمشکش اس نطام کے اندر بے چینی اور تجادات کو پیدا کرتی ہے جس سے اکثر اوقات تصادم، خانہ جنگی اور مسلح تصادم جنم لیتے رہتے ہیں-مثال کے طور پر عدم مساوات کا یہ عالم ہے کہ 1٪ امیر ترین افراد دنیا کی 50٪ دولت کے مالک بن چکے ہیں- اور امریکہ میں 80 فیصد آبادی صرف 5 فیصد دولت اور وسائل کی مالک ہے- اور اکثر اوقات دنیا بھر میں سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف مظاہرے اور احتجاج اسی ریاستی جبر کی علامت ہیں
7
سوویٹ یونین کی پسپائی کے بعد جب دنیا یونی پولر ہو گئی تو امریکی سامراج نے نیو ورلڈ آرڈر جاری کیا جس کا مطلب تھا کہ اب مجھے قبضہ گیری، اور جدید نوآبادیاتی نظام کو کمزور ملکوں پر مسلط کرنے سے کویی نہی روک سکتا- اس کے لئے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک اور اقوام متحدہ جیسے عالمی اداروں نے سرمایہدارانہ سامراجی مفادات کو آگے بڑھانے میں بھرپور کردار ادا کیا،غریب ملکوں کو قرضے دے کر ان کی معیشت کو کنٹرول کیا جاتا ہے جس سے اندرونی تنازعات جنم لیتے ہیں- ہیروشیما پر ایٹم بم گرانے جیسے اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ادارے سامراجی طاقتوں کے ہاتھ میں کھلونا ہیں-
اس لئے تاریخی طور پر یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ سرمایہداری سامراجی نظام اپنی بقا اور مفادات کے لیے جنگوں کو ناگزیر سمجھتا ہے۔ یہ تنازعات نہ صرف وسائل پر کنٹرول بلکہ معاشی بحران کو ٹالنے، ہتھیاروں کی تجارت کو فروغ دینے، اور سماجی بغاوتوں کو دبانے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ مارکسسٹ نقطہ نظر کے مطابق، یہ نظام “سوشلزم یا بربریت” یعنی سوشلزم یا سرمایہ داری کے درمیان انتخاب پر مجبور کرتا ہے ۔ کیونکہ سرمایہ داری کا دوسرا نام بربریت ہی ہے- مستقبل میں اس چکر کو توڑنے کے لیے عالمی سطح پر انقلابی تبدیلی کی ضرورت ہے۔