جنھیں زندہ رہنا چاھئیے تھا وہ چلے گئے

 

مارکسی راہنما سیتارام یچوری کے  انتقال پر کامریڈ پرویز فتح کا لیڈز برطانیہ سے خصوصی مضمون

  پانچ دھائیوں تک ھندوستان کی قومی سیاست میں نمایاں کردار ادا کرنے والے برِصغیر کے نامور مارکسی مفکر، انقلابی

تحریکوں کے سالار، ھندوستانی بائیں بازو کے نمایاں راہنما اور کیمونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کے جنرل سیکرٹری کامریڈ سیتارام یچوری 72 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ اُنہیں 19 اگست 2024ء کو سانس میں تکلیف کی وجہ سے آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (ایمس) دھلی کے ایمرجنسی وارڈ میں داخل کروایا گیا تھا، اور ستمبر کے شروع میں ہی اُنہیں سانس کی نالی میں شدید انفکشن اور آکسیجن لیول کم ہو جانے کی وجہ سے سانس کی مدد پر رکھا گیا تھا۔ اسی انفکشن اور سانس کی تکلیف سے لڑتے لڑتے وہ جمعرات 12 ستمبر کی صبح اپنے اہلِ خانہ، پیاروں، کامریڈوں اور چاہنے والوں کوچھوڑ کر ہمیشہ کے لیے رخصت ہو گئے۔ اُن کے جسدِ خاکی کو پہلے ملک بھر سے آنے والے  مداحوں اور کامریڈوں کے آخری دیدار کے لیے ان کی پارٹی کے دفتر رکھا گیا تھا، اور بعد ازاں 14 ستمبر کی شام کامریڈ کی وصیت کے مطابق میڈیکل تدریس و تحقیق کے لیے آل

انڈیا انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کو عطیہ کر دیا گیا۔

کامریڈ یچوری کا شمار دُنیا کے بلند پایہ انقلابی، سوشلسٹ و کیمونسٹ راہنماؤں میں ہوتا ہے۔ برطانوی سامراج سے آزادی کے بعد جنم لینے والے سیتارام یچوری، آزادی کی تحریکوں کے تسلسل، اور سامراجی غلامی سے نجات اور استحصال سے پاک معاشرے کے قیام کی ایک توانا آواز تھے۔ اُن کی شخصیت علم و شعور، جدوجہد، ثابت قومی اور انقلابی جذبے کی اعلیٰ امتزاج تھی۔ کامریڈ سیتارام یچوری  1992ء سے اپنی پارٹی کے انٹرنیشنل افیئر سیکرٹری تھے، اور ہر سال دو سال بعد اپنی پارٹی کے برطانیہ چیپٹر کی کانگریس میں شرکت کے لیے تشریف لاتے تھے۔ راقم کا کامریڈ یچوری سے دہایوں پر محیط گہرا رشتہ تھا اور وہ جب بھی برطانیہ تشریف لاتے تو ان سے تفصیلی ملاقاتیں ہوتیں تھیں۔ ہماری آخری ملاقات جولائی 2023ء میں لندن میں ہوئی، جس میں بہت تفصیل کے ساتھ خطے میں بڑہتی ہوئی مذھبی بنیاد پرسی، شدت پسندی، ترقی پسند تحریکوں، بالخصوص مارکسی سیاست اور اس کے مستقبل کا جائزہ لیا گیا۔ ہماری اس ملاقات میں ان کی بیوی سیما چشتی جی، بیٹا دانش، کامریڈ حرسیب اور کامریڈ پریت جی بھی شامل تھے۔ ہم سب کا اس بات پر مکمل اتفاق تھا کہ دُنیا کے پیشتر ممالک میں باوجوہ ایک سے زیادہ مارکسی پارٹیاں بن چکی ہیں، اور آج کے معروضی حالات اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے جدید دور میں ایسے اختلافی موضوعات کی اہمیت نہیں رہی، جن کی بنیاد پر ہماری تحریکیں تقسیم کا سبب بنی تھیں۔ اس لیے ہمیں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے ان پارٹیوں کو قریب لانا اور ملکی و ریجنل سطح پر تسلیم کرنا چاہیے اور متحدہ پارٹیوں کے قیام کے لیے بحث مباحثے کا آغاز کرنا چاہیے۔ ایسے اقدامات مستقبل میں متحدہ پارٹیوں کے قیام اور موثر تحریک پیدا کرنے کی راہیں ہموار کریں گے۔ ہم نے اس سلسلے میں ریجنل پارٹیوں کی پہلی کانفرنس نیپال میں منعقد کرنے کی تجویز پر کام شروع کر دیا تھا، اور کامریڈ سیتارام جی نے اس کی میزبانی کے لیے نیپال کی پارٹی سے رابطہ کرنے کی ذمہ داری لی تھی۔ اس سال جولائی میں کامریڈ یچوری جی دوبارہ برطانیہ تشریف لائے تو 14 جولائی کو ہماری لیسٹر میں ملاقات طے تھی، لیکن اس ملاقات سے 3 روز قبل راقم کو کوویڈ ہو گیا۔ کامریڈ شیڈول کے مطابق 18 جولائی کو انڈیا تشریف لے گئے۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ جب گذشتہ برس ہماری لندن میں ہونے والی ملاقات کے بعد راقم کامریڈ یچوری جی کو لندن کے ایک انڈرگراونڈ ریل اسٹیشن پر ڈراپ کر کے الودع کہہ رہا تھا تو ہم دونوں کی آنکھیں بھر آئی تھیں، ہمیں کیا معلوم تھا کہ یہ ہماری آخری ملاقات ہو گی۔

کامریڈ یچوری 12 اگست 1952 کو مدراس کے ایک لوئر مڈل کلاس تیلگو گھرانے میں میں پیدا ہوئے۔ ان کے خاندان میں تعلیم کو بہت اہمیت  دی جاتی تھی۔ ان کے والد سرویشور سومیاجولا یچوری آندھرا پردیش اسٹیٹ روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن میں انجینئر تھے، اور والدہ کلپکم یچوری ایک سرکاری افسر تھیں۔ اُن کی پرورش حیدرآباد میں ہوئی، جہاں انہوں نے میٹرک کیا تو 1969ء کی تلگانا تحریک نے اُنہیں دھلی منتقل ہونے پر مجبور کر دیا۔ وہ ایک ہونہار طالب علم کے ساتھ ساتھ وہ علم کا جنون رکھنے والے نوجوان تھے۔ انہوں نے پریزیڈنٹ اسٹیٹ اسکول نئی دھلی سے سینٹرل بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن ہائیر سیکنڈری امتحان میں ھندوستان بھر میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ بعد ازان انہوں نے سینٹ اسٹیفن کالج دہلی سے معاشیات میں بی اے (آنرز) اور جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) سے معاشیات میں ایم اے کی تعلیم حاصل کی اور ان دونوں جگہ اپنی فرسٹ پوزیشن حاصل کرنے کی ریت کو برقرار رکھا۔ انہوں نے معاشیات میں پی ایچ ڈی کے لئے جے این یو میں داخلہ لیا۔ اُن کے کورس اساتذہ بھی مقرر ہو چکے تھے، لیکن ملک میں ایمرجنسی کے دوران ان کی گرفتاری اور پھر اسٹوڈنٹس فیڈریشن آف انڈیا کی قیادت نے ان کا وہ سپنہ ادھورا ہی چھوڑ دیا۔

کامریڈ یچوری کی شادی سیما چشتی جی سے ہوئی تھی، جو دی وائر کی ایڈیٹر ہیں اور اس سے قبل بی بی سی ہندی سروس کی دھلی میں ایڈیٹر رہ چکی ہیں۔ وہ انڈین ایکسپریس دھلی کی ریزیڈنٹ ایڈیٹر بھی رہ چکی ہیں۔ کامریڈ کی بیٹی اکھلا یچوری برطانیہ کی ایڈنبرا یونیورسٹی اور سینٹ ایندریوز یونیورسٹی سکاٹ لینڈ میں پڑھاتی ہیں۔ اُن کے بڑے بیٹے آشیش یچوری کا 22 اپریل 2021ء کو کوڈ 19 کی وجہ سے 34 برس کی عمر میں انتقال ہو گیا تھا۔ چھوٹے بیٹے دانش کے ساتھ راقم کی 2023ء میں لندن میں ملاقات ہوئی تھی، جو اُن دنوں لندن میں سائیبر سیکورٹی میں ماسٹرز کر رہے تھے۔

کامریڈ یچوری نے 1974ء میں اسٹوڈنٹس فیڈریشن آف انڈیا (ایس۔ایف۔آئی) میں شمولیت اختیار کی اور نظریاتی و عملی بنیادوں پر اس جانفشانی سے کام کیا کہ ایک سال کی قلیل مدت میں کیمونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کے ممبر بن گئے۔ بعد ازاں 1975ء میں ایمرجنسی لگی تو وہ اس کے خلاف مذاھمت کرتے ہوئے روُپوش ہو گئے، لیکن کچھ عرصہ بعد ہی اُنہیں گرفتار کر لیا گیا۔ ایمرجنسی کے بعد وہ دو برس کے عرصہ میں تین بار جواہرلال یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کے صدر منتخب ہوئے۔ برطانیہ میں میرے دوست ڈاکٹر کلیم صدیقی، جو ہڈرسفیلڈ یونیورسٹی میں اکنامکس پڑھاتے ہیں، کامریڈ سیتارام جی کے اسی دور کے ساتھی اور ایس ایف آئی کے رکن تھے۔ اس زمانے میں نامور کیمونسٹ راہنما پرکاش کرات کے ساتھ سیتارام جی کی جوڑی اس قدر مشہور ہوئی تھی کہ اس نے جواہرلال نہرو یونیورسٹی دھلی میں بائیں بازو کا ناقابلِ تسخیر گڑھ بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ کامریڈ یچوری 1978ء میں اسٹوڈنٹس فیڈریشن آف انڈیا کے ملکی سطح کے جوائنٹ سیکرٹری اور پھر 1984ء سے 1986ء تک مرکزی صدر منتخب ہوے، اور انہوں نے طلبہ تنظیم کو آل انڈیا انقلابی فورس کے طور پر ترقی دینے میں اہم کردار ادا کیا۔

کمیمونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کی 1985ء میں منعقد ہونے والی 12 ویں کانگریس میں اُنہیں پارٹی کی مرکزی کمیٹی کا رکن منتخب کر لیا گیا اور انہوں نے اپنی آخری سانس تک اس اعزاز کو برقرار رکھا۔ اُنہیں 1989ء میں پارٹی کے مرکزی سیکرٹریٹ کا رکن اور 1992ء میں پارٹی کے پولٹ بیورو کے لیے منتخب کیا گیا۔ جب 1992ء میں کامریڈ ھرکشن سنگھ سرجیت کے کیمونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کے جنرل سیکرٹری منتخب ہونے کے بعد کامریڈ یچوری کو پارٹی کا سیکرٹری انٹرنیشنل افیئر منتخب کر لیا گیا۔ پھر 19 اپریل 2015 کو وشاکھاپٹنم میں پارٹی کی 21 ویں کانگریس میں کامریڈ سیتارام یچوری کو پارٹی کے پانچویں جنرل سیکرٹری کے طور پر منتخب کر لیا گیا۔ وہ اپریل 2018ء کو حیدرآباد میں منعقد ہونے والی پارٹی کانگریس میں دوسری بار اور اپریل 2022ء میں کنور، کیرالہ میں منعقد ہونے والی 23 ویں پارٹی کانگریس میں تیسری مدت کے لیے پارٹی کے جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے۔ تین دہائیوں سے زائد عرصے تک پارٹی سینٹر میں قائدانہ ٹیم کا حصہ رہنے کے ناطے انہوں نے پارٹی کے سیاسی موقف کی تشکیل اور پارٹی کی نظریاتی اساس کو وسعت دینے کے لیے منفرد کردار ادا کیا۔  پارٹی نے 14 ویں کانگریس میں بعض نظریاتی مسائل پر ایک قرارداد منظور کی، جس نے سوشلزم کو ملکی اور عالمی سطح پر لگنے والے دھچکے کے نتیجے میں پارٹی کے نظریاتی موقف کی تشکیل نو کی۔ یہ قرارداد کامریڈ سیتا رام نے پارٹی کانگریس کے سامنے پیش کی تھی، اور وہ اس کے بعد اہم رہنما تھے جنہوں نےبدلتے ہوئے حالات کے مطابق 2012ء میں پارٹی کی 20 ویں کانگریس میں منظور کردہ نظریاتی پوزیشن کو اپ ڈیٹ کیا۔

کامریڈ یچوری نے 1996ء میں ھندوستان میں متحدہ محاذ حکومت کے لیے مشترکہ نکات پر مشتمل کم از کم پروگرام مرتب کرنے کا تاریخی کردار ادا کیا اور بعد ازاں 2004ء میں متحدہ ترقی پسند اتحاد کی حکومت کی تشکیل کے دوران اتحاد کی تعمیر اور یکجہتی کے عمل کو لگن اور سرگرمی کے ساتھ آگے بڑھایا۔ موجودہ سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے وہ اپنے سیاسی کیریئر کے آغاز سے ہی ایک سیکولر، جمہوری اور عوام دوست حکومت کے قیام اور ایک روشن خیال سیاسی کلچر کی ترویج و ترقی کے لیے کام کر رہے تھے۔ انہوں نے ہمیشہ عوام کے بنیادی حقوق کے لیے جدوجہد کی۔ وہ مذھب، رنگ، نسل اور ذات پات سے پاک ایک وسیع النظر عوامی اتحاد کے قیام پر یقین رکھتے تھے۔

انہوں نے ہمیشہ ہر قسم کے جبر اور تشدد کے خلاف اپنی بھرپُور آواز بلند کی۔ حالیہ عرصے میں سیتارام یچوری جی نے اپنا بہت سا وقت اور توانائی اپوزیشن میں سیکولر جماعتوں کے وسیع تر اتحاد کو تشکیل دینے کے لئے وقف کی، جس نے بعد ازاں انڈیا کے نام سے بلاک کی شکل اختیار کی۔ قبل ازیں یونائیٹڈ فرنٹ حکومت اور بعد میں یو پی اے حکومت کے ادوار میں بھی سیتارام اپنی پارٹی کے اہم مذاکرات کاروں میں سے ایک تھے، جو ان اتحادوں کی حمایت کر رہی تھی۔  وہ ایک عرصہ تک پارٹی کے انٹرنیشنل افئیر سیکرٹری رہے اور اپنی اسی حیثیت میں وہ زیادہ تر دیگر ممالک کی کیمونسٹ اور ورکرز پارٹیوں کی کانفرنسوں اور مارکسی پارٹیوں کی بین الاقوامی کانفرنسوں میں برادرانہ نمائیندے کے طور پر شرکت کرتے اور پارٹی کی نمائیندگی اور نقطہ نظر پیش کرتے رہے۔ اسی دوران انہوں نے بین الاقوامی سوشلسٹ و کیمونسٹ پارٹیوں اور بیرون ممالک آباد ایشیائی ترقی پسندوں کے ساتھ تبادلہ خیال کا آغاز کیا۔ راقم نے 2008ء میں لندن میں اپنی پارٹی کے ایک وفد کے ساتھ ان سے پہلی ملاقات کی، جب وہ اپنی پارٹی کی برطانیہ شاخ کی کانگریس میں شرکت کے لیے تشریف لائے تھے۔ بریڈفورڈ میں تشکیل دیئے جانے والے پروگریسیو ڈیموکریٹک فورم کا نام بھی ہم نے کامریڈ سیتارام کی تجویز پر ساوتھ ایشین پیپلز فورم رکھا تھا۔

کامریڈ سیتارام ایک عمدہ مصنف بھی تھے اور گذشتہ 20 برس سےاپنی پارٹی کے ہفت روزہ ‘پیپلز ڈیموکریسی’ کے ایڈیٹر تھے۔ انگریزی زبان میں شائع ہونے والا یہ اخبار دُنیا بھر کے ترقی پسندوں میں مقبول ہے اور راقم 80 کی دہائی کے اوائل سے اس کا قاری ہے۔ کامریڈ یچوری ایک عرصہ سے ھندوستان ٹائمز کے لیے پندرہ روزہ کالم ”لیفٹ ہینڈ ڈرائیو” لکھتے رہے ہیں۔ نظریاتی میدان میں ان کا دوسرا اہم کردار ہندوتوا پر ان کی تنقید تھی، جو ان کی کتابوں میں شائع ہوئی تھی۔ سوشلسٹ نظریات کی ترویج و ترقی اور انقلابی سیاست کو بڑھاوا دینے کے لیے انہوں نے بہت سی کتابیں لکھیں، جن میں ‘بدلتی ہوئی دنیا میں سوشلزم؛ بائیں ہاتھ کی ڈرائیو، ٹھوس حالات کا ٹھوس تجزیہ؛ مودی حکومت، فرقہ واریت کا نیا عروج؛ فرقہ واریت بمقابلہ سیکولرازم؛ یہ ہندو راشٹر کیا ہے؟ جعلی ہندو ازم بے نقاب، زعفران بریگیڈ کے افسانے اور حقیقت؛ آج ہندوستانی سیاست، ذات پات اور طبقے؛ تیل کا بحران یا بین القوامی بدعنوانی کا جوہڑ، اور غرینہ کی  جنیتی شامل ہیں۔ اس کے علاؤہ انہوں نے تحریک آزادی کی عوامی ڈائری؛ عظیم بغاوت، بائیں بازو کا نقطہ نظر؛ اور عالمی اقتصادی بحران، ایک مارکسی نقطہ نظر کی تدوین بھی کی ہے۔

کامریڈ سیتارام جولائی 2005ء میں پہلی بار مغربی بنگال سے ھندوستانی پارلیمنٹ کے ایوان بالا ‘راجیہ سبھا’ کے ممبر منتخب ہوئے۔ جلد ہی انہوں نے معاشرے کے گھمبیر مسائل کو پارلیمنٹ میں اُجاگر کرنے اور اہم ملکی امور پر سوالات اُٹھانے والے منفرد پالیمنٹیرین کے طور پر شہرت حاصل کر لی۔ انہیں 2017 میں سال کے بہترین ھندوستانی پارلیمنٹیرین کے ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔

جب ھندوستان اور امریکہ کے درمیان سول ملٹری ایٹمی معاہدے کی بات چیت چل رہی تھی تو ھندوستان بھر میں بائیں بازو کی جماعتیں اس کی مخالفت کر رہی تھیں۔ سیتارام یچوری نے اس معاہدے کو قومی نوعیت کا معاملہ قرار دیتے ہوئے پارلیمنٹ میں اس پر بحث کا آغاز کیا اور تمام تحفظات و شرائط کا ذکر کیا جو کیمونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کو معاہدے بارے درکار تھیں۔ منموہن سنگھ حکومت کی جانب سے تمام شرائط پوری بھی کر دی گئیں، لیکن ان کی پارٹی نے اُنہیں پھر بھی مسترد کر دیا اور پارٹی راہنما پرکاش کرات نے دعویٰ کیا کہ یہ معاہدہ اب بھی ان کی پارٹی (سی پی ایم) کی ‘آزاد خارجہ پالیسی’ کے تصور اور ھندوستان کی آزادی کی خلاف ورزی ہیں۔ سیتارام یچوری جی ہمیشہ سے امریکی خارجہ پالیسی اور ترقی پذیر ممالک پر سامراجی دھونس جمانے کے سخت مخالف رہے ہیں، کیونکہ امریکہ کی سامراجی بالادستی کے کردار کی مخالفت ان کا اور ان کی پارٹی کا بنیادی اصول رہا ہے۔ اسی بنیاد پر انہوں نے 2015ء کے یوم جمہوریہ پریڈ کے موقع پر امریکی صدر براک اوباما کے مہمان خصوصی کی حیثیت سے دورے کی مخالفت کی اور انہیں زبردست تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے خطے میں اسلامی بنیاد پرستی کے عروج کا الزام امریکی سامراج پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ مغربی ایشیا میں امریکی فوجی مداخلت نے خطے میں مکمل طور پر غیر یقینی صورتحال پیدا کر دی ہے۔ فوجی مداخلت نے ہمیشہ بنیاد پرستی کو جنم دیا ہے، جسے آج ہم داعش کی طرف سے پیدا کردہ خطرے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ایسے رحجانات کو امریکی سامراج نے ہی جنم دیا ہے۔ انہوں نے کھل کر امریکی سامراج کو اس کے تسلط پسندانہ رویے کا بھی ذمہ دار ٹھہرایا۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ اب عالمی بالادستی کی اپنی ہوس و جستجو میں توانائی کے عالمی وسائل پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ وہ دُنیا میں توانائی کی منتقلی اور تجارت کے پورے عمل کو ہائی جیک کرتے ہوئے کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ امریکی سامراج کی فوجی مداخلت فلسطینیوں کے قتل عام کو جواز فراہم کرنے اور انہیں وطن کے جائز حق سے محروم کر رہی ہے۔ کامریڈ سیتارام اور اُن کی پارٹی جموں و کشمیر میں دفعہ 370 اور 35 اے کی منسوخی کے بھی سخت مخالف ہیں اور اس عمل کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔

کامریڈ سیتارام کے دوستانہ مزاج کو دیکھتے ہوئے ان کے سیاسی منظر نامے اور زندگی کے تمام شعبوں میں دوستوں کا ایک وسیع حلقہ پایا جات ہے۔  ان کی سیاسی دیانت داری اور نظریاتی و سیاسی کمیٹمنٹ کی وجہ سے سب ان کا احترام کرتے ہیں۔ ھندوستان ہی نہیں بلکہ ساوتھ ایشیاء اور دُنیا بھر کی انقلابی تحریکوں کے لیے کامریڈ سیتارام کا انتقال ایک بہت بڑا دھچکا اور ناقابلِ تلافی نقصان ہے۔ ھندوستان کی قومی سیاست کے اس اہم موڑ پر سیتارام یچوری کی بے وقت موت کیمونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کے لئے ایک بڑا دھچکا اور بائیں بازو، جمہوری اور سیکولر طاقتوں کے لئے ایک بڑا نقصان ہے۔

الودع کامریڈ، آپ کی کمی ہمیشہ محسوس ہو گی اور آپ بہت یاد آئیں گے۔

————————————————————————————————————————————————————————————————————کامرید سیتارام کے انتقال سے قبل اور ان کے انتقال بعد کی تصویری جھلکیاں

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *