برا ۓ بحث) جس میں آپ بھی اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں –یہ مضمون نگار کے اپنے خیالات ہیں جس سے
( کا متفق ہونا ضروری نہیhttps://redsite.pk/
رانا اعظم عوامی ورکرز پارٹی
یہ بات درست ہے کہ ثور انقلاب ( افغانستان میں سوشلسٹ انقلاب ) کے بعد پاکستان اور افغانستان حالت جنگ میں ہیں۔ اور خاص طور پر پشتون خطہ ۔ یہ جنگ افغانستان میں سوویٹ یونین کی فوج کی آمد سے قبل ہی شروع ہو چکی تھی ۔ یہ جنگ امریکی سامراج کا پراجیکٹ تھا اور ہم اس میں سینیئر پارٹنر تھے ۔ جو لوگ اسے سوویٹ فوج کی آمد سے جوڑتے ہیں ۔ ہمارے نزدیک وہ غلطی پر ہیں ۔ اس وقت کی جنگ میں چین کا کردار غلط تھا ۔ یہ بات ہم نے ہمیشہ کہی ہے اس وقت اس لیئے دہرا رہے ہیں کہ آگے جاکر چین کا کردار ایک سٹیک ہولڈر کے طور پر زیر گفتگو آئے گا ۔
اس جنگ کا دوسرا مرحلہ طالبان منصوبہ سے شروع ہوتا ہے ، اس وقت کی پیپلزپارٹی کی حکومت جس کی سربراہی بینظیر بھٹو کے پاس تھی ، وہ بھی ریاست پاکستان اور امریکی سامراج کے مشترکہ پراجیکٹ کا حصہ تھی ۔ ویسے تو پاکستان بننے سے لے کر آج تک کی ہماری تمام سول حکومتیں بیچاری ایسی ہی رہی ہیں ۔ پیپلزپارٹی اور خاص طور پر بینظیر کی پیپلزپارٹی بارے میں ذکر اس لیئے کرنا پڑا کہ ہمارے کچھ سیکولر، سوشل ڈیموکریٹ اور لمپن لیفٹ کے بچے بچونگڑے بہت سی غلط فہمیوں کا اب تک شکار ہیں ۔ طالبان تحریک کو بنانے سے لے کر خاص طور پر9/11 تک پاکستان ، امریکہ اور اس کے Ally نیٹو مالک ایک پیج پر تھے ۔ بعد ازاں ہم بظاہر امریکہ کے حلیف تو رہے لیکن گڑبڑ بھی کرتے رہے۔
اس جنگ کا تیسرا مرحلہ امریکہ اور طالبان کے درمیان جنگ سے شروع ہوتا ہے ۔ ہمارے اور امریکہ کے درمیان زیادہ دوری افغان طالبان کی امریکہ مخالف جنگ سے شروع ہوئی ۔ اس تمام عرصہ میں ہم درپردہ طالبان کی حمایت کرتے رہے ۔ ہم نے طالبان کو پاکستان میں safe havens فراہم کیے ، تاکہ کل کو یہ ہمارے assets ہوں گے ۔ اسی دوران تحریک طالبان پاکستان کی پیدائش ہوتی ہے ۔ ہماری یہ تمام پالیسیاں سیکیورٹی سٹیٹ اور انڈیا Centric رہی ہیں ۔ خاص طورپر ثور انقلاب کے بعد ہماری اور امریکی سامراج کی میرج سے اس بچے کا پیدا ہونا لازمی امر تھا ۔ افغان اور پاکستانی طالبان اپنے نظریاتی و دیگر مفادات کی بنا پر ایک ہو جاتے ہیں ۔ افغان طالبان جنگ جیت جاتے ہیں ۔ اس مرحلہ پر ہمارے کوتاہ اندیش سول حکمران عمران خان بیان داغ دیتے ہیں کہ طالبان نے غلامی کی زنجیریں توڑ دیں ۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کہتے ہیں کہ “سادہ اور ذہین لوگ آگئے”۔ جس رات طالبان کابل پر قابض ہوتے ہیں۔ اس سے اگلے ہی روز ہم نے اسی عنوان سے کہ ” سادہ اور ذہین لوگ آگئے” کالم لکھا ۔ وہ اب بھی نیٹ پر موجود ہے ۔ کتنا درست یا غلط ہے ۔ فیصلہ آپ نے یا وقت نے کرنا ہے ۔ افغان طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد ہمارے ہاں دوسری کولڈ وار کی بحث شروع ہو جاتی ہے ۔
اس وقت ہمارے نزدیک سوال نمبر1 تو یہ ہے کہ ہمارا ( ترقی پسندوں) کا موقف کیا ہونا چاہیے۔ ہمارے نزدیک مختلف نقطہ نظر مارکیٹ میں موجود ہیں، اگر ہم قوم پرست کے طور پر افغان مسئلہ کو دیکھیں گے تو جواب ایک ہوگا ، ترقی پسندی کے عدسہ سے لیں گے تو جواب دوسرا ہوگا ۔ ہمارا سامراج بارے تصور شفاف ہونا چاہیے اگر ہم امریکہ کو سامراج سمجھتے ہیں تو پچھلے تقریبا 50 سال کا افغانستان کے حالات پرتجزیہ ایک ہوگا اگر ہم “اگر مگر” میں پڑتے ہیں تو جواب مختلف آئے گا ۔ بات کو اور صاف کر لیتے ہیں کہ اگر ہم نے آج کے چین کو بھی سامراج کہنا ہے اور شرماتے ہوئے امریکی سامراج کا نام لینا ہے ، تو جواب اگر مگر والا ملے گا ۔
ابھی ہم اس بات کو کہ کیا واقعی پشتون خطہ دوسری سرد جنگ کا میدان بننے جا رہا ہے؟، یا صرف پشتون قوم پرست اپنی بقا کی جنگ کو بڑھا چڑھا ( out of size ) کر بیان کر رہے ہیں ۔ پشتون قوم پرستی کی بقا کے سوال پر آگے جا کر بات کریں گے ۔ یہاں تک سرد جنگ کا سوال ہے ، یہ تو کبھی تیز اور کبھی سست روی سے اس وقت تک جاری رہے گی ، جب تک گلوب پر دو متحارب نظام سامراجی( اجارہ دار سرمایہ داری ) اور سوشلزم موجود رہیں گے ۔ ہاں کبھی ایک خطہ میں اور تو کبھی دوسرے میں تیز اور سست روی سے جاری رہے گی ۔ جب تک سوویٹ یونین قائم رہا ، سرد و گرم جنگ پوری قوت سے جاری رہی ۔ سوویٹ یونین کے انہدام کے ساتھ ہی امریکی سامراج کے پالتو دانشوروں نے” تاریخ کے خاتمہ ” کا اعلان کر دیا ، لیکن” تاریخ کے خاتمہ “کا تصور زیادہ دیر تک زندہ نہ رہ سکا۔ رہ بھی نہیں سکتا تھا۔ فوکویاما تاریخ کے مارکسی تصور سے آگاہ ہی نہیں تھا ۔
سوویٹ یونین خاص طور پر دوسری عالمی کے بعد جب پوری طاقت سے ابھرا تو سرد جنگ بھی گرم ہوگئی ۔ کچھ اور باتیں بھی ذہن نشین کرنے کی ہیں نمبر 1 کہ سوویٹ یونین سامراج کے طاقت ور پارٹنرز (مغربی سرمایہ داری ) کے درمیان گھرا ہوا تھا ۔ 2 سوویٹ یونین کو اپنے عوام کی تعمیر وترقی کے ساتھ ساتھ سامراج کے خلاف ، قومی آزادی اور محنت کشوں کی تحریکوں کا سہارا بھی بننا تھا ۔ 3 سب سے زیادہ ذہن میں رکھنے والی بات دنیا بھر میں سامراج کا کردار ہے جو اس نے اپنے جنم سے لے کر آج تک ادا کیا ہے اور کر رہا ہے۔ کہ جہاں بھی قومی آزادی یا محنت کشوں نے طبقاتی نظام کا طوق گلے سے اتارنے کی کوشش کی ، ناکام کرنے کے لیے ان کا سر کچلنےکی کوشش میں سامراج نے دیر نہیں کی ۔ ایسے واقعات دو سو کے قریب ہیں ۔ دہرانے سے وقت کا ضیاع ہوگا ۔ سب تاریخ کا حصہ ہیں ۔
اب آتے ہیں آج کے سوال کی طرف ۔ اس پر موثر گفتگو کرنے میں پہلی مشکل تو یہ ہے کہ ہمارے پشتون قوم پرست دوست صرف بیان داغ رہے ہیں۔ اس کی کوئی تفصیلات انہوں نے شیئر نہیں کیں۔ ہم نے ایک پارٹی دوست سے جو پشتون قوم پرستی کے موقف کو زور وشور سے بیان کر رہے ہیں ۔ ذاتی طور پر درج ذیل سوال رکھا “کہ مان لیا کہ اس عفریت نے آنا ہے ۔( یہ فقرہ انہی کا ہی ہے) ۔ “پہلا سوال ہے کہ اس عفریت کو لانے میں کون سرگرم ہے ؟ ۔ دوسرا سوال کہ ہمارا بطور ترقی پسند، سوشلسٹ اس وقت کیا رول بنتا ہے ” ؟
اب ہم ان کا جواب نقل کر رہے ہیں۔ ” بس ساتھی کیا بتاؤں ہمارا مسلہ ہے ہم برداشت کر لیں گے ، جہاں تک لانے والے کی بات ہے ۔ اس میں شک و شبہ اب بلکل نہیں رہا کہ یہ جنگ امریکہ اور چین کے درمیان ہے ۔ جس میں روس ، ایران ، پاکستان، افغانستان بھی فریق ہوں گے ۔ سب اپنی اپنی پراکسی کے ذریعے لڑیں گے۔ پاکستانی فوج حسب معمول دونوں طرف سے ڈالر اور ین بٹورے گی ۔ اس جنگ میں صرف ایک فریق لوزر ہوگا وہ پختون قوم کیونکہ میدان جنگ یہاں ہوگا ۔ باقی ملک تماش بین ہوگا اور منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے کبھی کبھی ایک آدھ نیم بیان بھی داغتے رہیں گے۔
جہاں تک سوشلسٹوں کی بات ہے وہ رول ادا کرنے سے قاصر ہیں ۔ایک آفیشل بیان کے لیے ہفتوں انتظار کرنا پڑتا ہے ۔ خدا خدا کرکے کوئی سٹیٹمنٹ آ بھی جائے تو اس پر بحث شروع ہو جاتی ہے ۔سوشلسٹ اپنے اپنے کمرے زون میں رہنا چاہتے ہیں مجھ سمیت ۔
-جاری ہے
Good work and very informative work
Thanks saleem sahab
So informative
Thanks.