پروفیسر امیر حمزہ ورک
عوامی ورکرز پارٹی پاکستان
پاکستانی سیاست میں سانپ اور سیڑھی کا کھیل جاری ہے-انارکی،عدم برداشت،سیاسی انتشار،سیاسی بے یقینی،لڑائی فساد،دہشت گردی،مزہبی انتہا پسندی سمیت ان گنت مسائل پاکستانی سیاست کو گھیرے ہوئے ہیں اوپر سے سوشل میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا نے ویوز اور رینکنگ بڑھانے کے چکر میں وہ ہنگامہ بپا کر رکھا ہے کہ عام ادمی کے لئے سچ تلاش کرنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رھا ہے- عوام کو پتہ ہی نہی چلنے دیا جاتا کہ پی ٹی آئی،مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی سمیت کون عوام دوست ہے؟ کون امریکہ کی سرپرستی چاھتا ہے؟ عوام کے مسائل کا حل توان میں سے کسی کے بس کی بات نہی ہے یہ الگ بات کہ عام آدمی ان کی پاپولر سیاست سے کتنی دیر مزیدبے وقوف بن سکتا ہے ورنہ مسائل کے حل کی چابی تو سرمایہ دارانہ معاشی سسٹم کو حتم کرنے، جاگیرداری سے نجات، اور عوامی امنگوں پر مبنی سوشلسٹ معیشت کے راستے کے انتخاب سے ہی ممکن ہے- جبکہ یہ تینوں سیاسی جماعتیں ایک ہی معاشی و سیاسی نطام سرمایہ داری، امریکہ کی غلامی، ایسٹیبلشمنٹ کی تابعداری،اور جاگیرداری و قبائیلی باقیات قائم رکھنے پر یقین رکھتی ہیں-
جب ہم پاکستان کی حکمران سیاسی جماعتوں کی بات کرتے ہیں تو اس میں پی ٹی آئیٰ،مسلم لیگ نواز،پیپلزپارٹی اور استیبلشمنٹ شام ہیں کیونکہ ایسٹیبلشمنٹ خود ایک سیاسی جماعت بن چکی ہے جو دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح اپنے طبقاتی مفاد کے لئے اقتدار میں حصے دار ہے اسٹیبلشمنٹ افسر شاہی سرمائے کے مفادات کی نمائیندہ قوت ہے- ان چاروں جاگیردار ، سرمایہ دار،مافیاز اور افسر شاہی سرمائے کی نمائیندہ سیاسی جماعتوں میں سے کون عوام کو کامیابی سے زیادہ بے وقوف بنا سکتا ہے اسی بات پر ان کے درمیان ایک دوڑ لگی ہوئی ہے اور اس دوڑ میں تحریک انصاف اس وقت سب سے آ گے ہے-کیونکہ جس طرح عمران خان اور اسکی جماعت نے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکی ہے اس کی تاریخ میں مثال نہی ملتی ہے لیکن اس وقت ہم دو اشوز کی حد تک محدود رہیں گے-
امریکہ کی مخالفت 2- ایسٹیبلشمنٹ کی مخالفت
جب تحریک انصاف کی حکومت ختم ہوئی تو اس نے اپنا سارا بیانیہ اس بات پر بنایا کہ ان کی حکومت امریکہ نے ختم کرائی اور “ایبسلوٹلی ناٹ” کا نعرہ زبان زد عام ہوا-یہ بات درست ہے کہ پاکستان میں ہر حکومت کی تبدیلی میں امریکی سامراج کا کوئی نہ کوئی کردار ضرور ہوتا ہے اور وہ اپنے علاقائی اور پاکستان کے اندر مفادات کے حوالے سے ہی پاکستان کی باگ ڈور کسی سیاسی جماعت یا مارشل لاء کے کے حوالے کرتا ہے- 1947 سے ہی پاکستانی حکمران طبقہ جو مختلف سیاسی جماعتوں اور سول و ملٹری بیوروکریسی کا مجموعہ ہے کے درمیان امریکہ کی خوشنودی حاصل کرنے میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش کرتا چلا آرہا ہے- شروع دن سےہر فوجی و سیاسی حکمران کو امریکہ کی خشنودی بھی حاصل ہوتی ہے اور ان کے مرضی کے تابع نہ رہنے کا انجام بھی بھگتنا پڑتا ہے لیکن پاکستانی حکمران طبقہ اتنا بے غیرت،لالچی،بے ایمان،عوام دشمن اور ڈھیٹ ہے کہ امریکہ ان کے ساتھ جو مرضی کرے یہ نہ صرف امریکہ کی تابعداری جاری رکھتے ہیں بلکہ ایک دوسرے سے بڑھ کر اسے اپنی وفاداری،تابعداری اور ان کے ہر حکم کی بجا آوری کا یقین دلاتے ہیں-
البتہ تحریک انصاف اس معاملے میں پیپلزپارٹی اور نون لیگ پر بازی لے جاتی ہوئی نظر آتی ہے کیونکہ جسے تحریک انصاف اپنی حکومت کے خاتمے کا زمہ دار ٹھہراتی تھی آج اسی امریکہ سے اقتدار کی بھیک مانگ رہی ہے اور اپنی وفاداری کا یقین دلا رہی ہے اور کبھی ساٹھ کانگرس مین خط لکھتے ہیں تو اب ڈونلڈ ٹرمپ کے جیتنے کے بعد تحریک انصاف نے تمام تر امیدیں امریکی صدر سے لگا رکھی ہیں- اس کا مطلب یہ نہی ہے کہ پیپلزپارٹی اور نون لیگ امریکہ کے یا امریکہ ان کے خلاف ہے-امریکہ ہر وقت پاکستان میں ایک سے زیادہ آپشن کی موجودگی پر یقین رکھتا ہے کہ اگر ایک پارٹی،لیڈریا فوجی حکمران امریکی پالیسی سے دور جانے کی کوشش کرے تو اس کی جگہ دوسرا گھوڑا تیار ہونا چاھئے- لیاقت علی خان سے لیکر بھٹو،ضیاء،نواز شریف،مشرف،بے نظییراور عمران خان سب کو امریکہ ہی اقتدار میں لایا اور پھر جوتے مار کراور زلیل و رسوا کر کے اقتدار سے باھر بھی کیا-
بھٹو ،نواز شریف اور بےنظیر کو ایٹمی ٹیکنالوجی،چین کے ساتھ دوستی اور چائینا پاکستان اکنامک کوریڈور شروع کرنے کی سزا دی گئی اور وہ پھر معافی تلافی کر کے واپس آ گئے یہی حال عمران خان اور اس کی پارٹی کےساتھ ہوا-اب وہ معافی تلافی کر کے اقتدار میں واپسی کی راہ ہموار کر رہے ہیں- یہی وجہ ہے کہ جب بھی پاکستان میں کوئی امریکہ مخالف ملک کا وفد دورے پرآتا ہے تو تحریک انصاف کو اسی دن احتجاج کو خیال آ تا ہے اور جب کوئی امریکہ نواز حکمران آتا ہے تب ایسا کیوں نہی ہوتا-؟
اب اگر ایسٹیبلشمنٹ کی بات کریں تو اس میں تینون جماعتوں کا ریکارڈ ایک جیسا ہی ہے سب نے ایسٹیبلشمنٹ سے جوتے بھی کھائے اور پھر معافی تلافی مانگ کر واپس اقتدار میں ا جاتے ہیں- کیونکہ تینوں سیاسی جماعتوں اور ایسٹیبلشمنٹ کاآپسی جھگڑا صرف اقتدار کے حصول پر ہے جبکہ ان کا معاشی و سیاسی نطام اور امریکی سامراج کی تابعداری پر مکمل اتفاق ہے جس کی وجہ سے ان کے درمیان پھر سے تعلقات استوار ہو جاتے ہیں –امریکی سامراج کا پاکستان کی جاگیردارو سرمایہ دار سیاسی جماعتون سے تعلق کسی حد تک سیزنل ہوتا ہے جبکہ ایسٹیبلشمنٹ کے ساتھ امریکہ ،پینٹا گون اور سی آئیٰ اے کا تعلق مستقل – بنیادوں پر ہوتا ہے- کیونکہ وہی پاکستان میں سامراجی مفادات کے نمائیندے اور اصلی محافظ ہیں
لیکن جیسے جیسےدنیا میں یونی پولر نطام کی جگہ ملٹی پولرنطام لے رہا ہے ویسے ویسے امریکی سامراج کو عالمی طور پر چین کی قیادت میں معاشی و فوجی طاقت کے چیلنج کا سامنا ہے اس علامی کشمکش کے اثرات اور ثمرات پاکستان کی سیاست پر بھی پڑ رہے ہیں اور دنیا کے مختلف خطوں میں امریکی مفادات کی کشتی میں سوراخ ہونا شروع ہو گئے ہیں- اس صورتحال میں پاکستان کی سیاسی طاقتوں اور ایسٹیبلشمنٹ میں امریکہ یا چین کے انتخاب پر کشمکش شدت اختیار کرتی جا رہی ہے پاکستان کی ایسٹیبلشمنٹ کے محروم اقتدار دھڑے اورتحریک انصاف کے علاوہ دیگر حکمران طبقات کی سیاسی جماعتوں اور بر سر اقتدار اسٹیبلشمنٹ کے دھڑے کو آہستہ اہستہ اس بات کا دراک ہوتا جا رہا ہے کہ مستقبل میں پاکستان کے معاشی،سیاسی و عسکری مفادات کا اب امریکہ کے ساتھ تضاد بڑھتا چلا جا رہا ہے اس لئے وہ چین کی قیادت میں نئے عالمی اقتصادی و فوجی محور سے جڑنے کی کوشش کر رہے ہیں اور امریکہ،یورپ اور دیگر ریاستوں کے ساتھ برابری کی بنیاد پر تعلقات کے خواہاں ہیں –اور پاکستان کے چین اور امریکہ کے ساتھ تعلقات میں ایک بیلنس پیدا کرنا چاھتے ہیں-امریکہ کوتعلقات کی یہ نوعیت منظور نہی ہے- لیکن تحریک انصاف اور اور اسٹیبلشمنت کے اقلیتی دھڑے کو ابھی اس بات کی گہرائی کا اندازہ نہی ہے وہ اب بھی یہی سمجھتی ہے کہ ٹرمپ سب ٹھیک کر دے گا- موجودہ سیاسی کشمکش، انتشار،سیاسی پولررائیزیشن،فوج و عدلیہ کے اندر دھڑے بندی،سیاسی عدم استحکام،بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں دہشت گردی کی لہر اور مزہبی فرقہ وارانہ لڑائی کواس عالمی نیو گریٹ گیم کے پس منظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے-