پروفیسر امیر حمزہ ورک
پاکستان کا میزائیل پروگرام اور اس پر امریکہ کی جانب سے عائد کی جانے والی پابندیاں ایک پیچیدہ اور حساس موضوع ہے۔ اس موضوع پر بات چیت کرتے ہوئے کئی پہلوؤں کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔
پاکستان نے اپنے میزائیل پروگرام کی بنیاد 1980 کی دہائی میں رکھی تھی۔ اس کا بنیادی مقصد بھارت کے ساتھ اسٹریٹجک توازن قائم کرنا تھا۔ اس پروگرام نے تیزی سے ترقی کی اور آج پاکستان کے پاس مختلف رینج کے بیلسٹک میزائل موجود ہیں۔ پاکستان کے میزائیل پروگرام کے اہم مقاصد میں دفاعی تیاری، خطے میں اسٹریٹجک توازن اور ملک کی خودمختاری کو یقینی بنانا شامل ہیں۔
امریکہ پاکستان کے میزائیل پروگرام پر پابندیاں اس لیے عائد کرتا ہے کہ وہ اسے جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔ امریکہ کا خیال ہے کہ پاکستان کا میزائیل پروگرام اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ پاکستان کے پاس جوہری ہتھیاروں کو کسی بھی دوری پر پہنچانے کی صلاحیت ہے۔
امریکہ کے یہ ریمارکس پاکستان کے میزائل پروگراموں کی دفاعی نوعیت کو نظر انداز کرتے ہیں اوراس کے دہرے معیار کی عکاسی کرتے ہیں پاکستان یا کسی اور ریاست کے ایسے دفاعی پروگرام عالمی طاقت کے توازن کو برقرار رکھنے کے حق میں اور چھوٹی قوموں کی سلامتی کے خدشات کو کم کرتے ہیں-
پاکستان کا میزائل پروگرام جارحیت کی علامت نہیں بلکہ ڈیٹرنس کے ضروری ہتھیار ہیں – اور سامراج کے عالمی غیر منصفانہ نظام کی موجودگی اورایک غیر مساوی دنیا میں بقا کا ایک ذریعہ ہیں- مشرق وسطی ،جنوبی ایشیا اور لاطینی امریکہ سمیت دنیا بھر میں قومی سلامتی کے خطرات کا مسلسل سامنا کرنے والی قوموں کے لیے ایسے ڈیٹرنس ایک کلیدی حکمت عملی ہے۔ پاکستان طاقتور دشمنوں سے گھرا ہوا ہے اور معاشی اور سیاسی دباؤ کا شکار ہے، پاکستان کے جوہری ہتھیار اور بیلسٹک میزائل حطے میں اہم برابری کا کام کرتے ہیں۔ یہ صلاحیتیں ایک بڑے اور اقتصادی طور پر برتر پڑوسی ہندوستان کی طرف سے درپیش وجودی خطرات کو دور کرتی ہیں۔ تاریخی تنازعات اور طاقت کے عدم توازن سے بھرے خطے میں پاکستان کے دفاعی پروگرام عیش و عشرت نہیں بلکہ سلامتی کی ضرورت ہیں۔
پاکستان ایسے حساس خطے میں واقع ہے جہاں پربھارت چین اور پاکستان تین اعلانیہ عالمی ایٹمی طاقتوں کے بارڈ ر ملتے ہیں اور ایران کا ایٹمی پروگرام بھی تکمیل کے مراحل میں ہے اور خطے کی تمام ریاستیں امریکی سامراج کے پیدا کردہ خطرات و خدشات اور عدم تحفظ کا شکار ہیں- پاکستان کی طرح چین کا دفاعی پروگرام بھی ڈیٹرنس پر مرکوز ہے۔ اس نے خطے میں امریکی سامراج کے خطرات و اثر و رسوخ کا مقابلہ کرتے ہوئے ایشیا پیسیفک میں خودمختاری کے تحفظ اور توازن کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی میزائل ٹیکنالوجی کو ترقی دی ہے۔ اسی طرح، روس جو کہ پاکستان کا پڑوسی ہی کہا جا سکتا ہے، نے اپنی اسٹریٹجک برتری کو برقرار رکھنے کے لیے ہائپر سونک میزائل ٹیکنالوجی میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے۔ جب کہ روس اور چین کے میزائل پروگرام سٹریٹجک ضروریات کے طور پر بنائے گئے ہیں، پاکستان اور ایران جیسی چھوٹی قوموں کو ایک جیسی ٹیکنالوجیز کے حصول کے لیے غیر متناسب جانچ اور پابندیوں کا سامنا ہے۔ امریکی سامراج کی پیدا کردہ یہ جغرافیائی سیاسی منافقت ظاہر کرتی ہے کہ کس طرح میزائل ٹیکنالوجی، چاہے عالمی طاقتوں کے لیے یا کمزور ریاستوں کے لیے ہو، موروثی خطرے کے بجائے سیاق و سباق اور محرکات سے تشکیل پاتی ہے-
یہ تاثر کہ پاکستان کا میزائل پروگرام امریکہ کو نشانہ بنانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے نہ صرف گمراہ کن ہے بلکہ جنوبی ایشیا کے حقائق کو بھی نظر انداز کرتا ہے جبکہ پاکستان کی توجہ صرف علاقائی ہے۔ اس کے سیکورٹی خدشات ہندوستان کی روایتی فوجی برتری پر مرکوز ہیں اور اس کی میزائل ڈیولپمنٹ کا مقصد قابل اعتماد ڈیٹرنس کو برقرار رکھنا ہے۔ کیونکہ کوئی مانے یا نہ مانے ہندوستان کے توسیع پسندانہ عزائم کسی سے پوشیدہ نہی ہیں جنوبی ایشیا میں تمام ممالک بھارت کی توسیع پسندی اور اسلحے کی دوڑ سے پریشان ہین کیونکہ پاکستان،بنگلہ دیش،سری لنکا اور نیپال وغیرہ مختلف اوقات میں بھارت کی مداخلت کا شکار ہوتے رہتے ہیں-
علاقائی تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان کے میزائل پروگرام پرامریکی سامراج کا واویلا اور پابندیاں اس کے دوہرے معیار کواور بھی واضح کرتے ہیں ۔ امریکہ صرف پاکستان کے میزائل ڈیولپمنٹ پروگرام کے بارے میں خطرے کی گھنٹی بجاتا ہے،جبکہ وہ ہندوستان کی فوجی جدیدیت بشمول جدید میزائل ڈیفنس سسٹم کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے۔ اور کبھی ہندوستان کے دفاعی اور ایٹمی تیکنالوجی اور ایٹم بم پر امریکہ نے کبھی اعتراض نہی کیا جبکہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو کبھی اسلامی بم اور کبھی کسی اور نام سے نواز کر پابندیاں لگائی جاتی ہیں دریں اثنا، اسرائیل جیسے ممالک اہم جوہری صلاحیتوں کو برقرار رکھتے ہیں، پھر بھی ان کے اسٹریٹجک اتحاد کی وجہ سے بہت کم تنقید یا جانچ پڑتال کی جاتی ہے۔ اسرائیل کی جوہری صلاحیتیں اور میزائل سسٹم بھی ڈیٹرنس اور اسٹریٹجک لیوریج کے دوہرے کردار کی عکاسی کرتے ہیں۔ اسرائیل کا غیر اعلانیہ جوہری ہتھیارامریکہ کو نظر نہی آتا جو کہ مشرق وسطیٰ میں تسلط اور قبضہ گیری کی امریکی پالیسی کے عین مطابق ہے- امریکہ کا یہ دوہرا معیارو استعمال – بطور ڈیٹرنس اور لیوریج – بین الاقوامی تعلقات میں جوہری ہتھیاروں کے پیچیدہ کردار کو واضح کرتا ہے۔ امریکہ کا یہ غیرمتوازن رویہ علاقائی طاقت کی حرکیات کو مزید جھکا دیتی ہے، پاکستان جیسی قوموں کے لیے سیکیورٹی چیلنجز کو بڑھاتی ہے اور انہیں اپنے ڈیٹرنس اقدامات کو بڑھانے پر مجبور کرتی ہے۔
بدقسمتی سے، ایسے نظاموں کو اکثر دفاع کے بجائے جارحیت کے آلات کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ یہ غلط بیانی کمزور قوموں کو سفارتی طور پر الگ تھلگ کر دیتی ہے اور پابندیوں جیسے تعزیری اقدامات کو جائز قرار دیتی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ان کارروائیوں سے علاقائی تناؤ بڑھتا ہے اور اقوام کے درمیان بداعتمادی بڑھ جاتی ہے۔
عراق،لیبیا،شام ،ایران ،افغانستان،یمن اور فلسطین وغیرہ کی حالت زار چھوٹی قوموں کو اپنے دفاع کی صلاحیت سے انکار کے خطرات کے بارے میں ایک سنجیدہ سبق پیش کرتی ہے۔ کئی دہائیوں کے قبضے اور جارحیت نے فلسطینیوں کو مستقل تشدد کا شکار بنا یا ہوا ہے، امریکی سامراج اور اس کے اتحادی نیٹو ممالک اور دیگر ترقی یافتہ سامراجی ملکوں نے جبر کے اس نظام کو دوام بخشا ہے، جو طاقت کے عدم توازن کے سنگین نتائج کو اجاگر کرتا ہے ۔
امریکہ نے پاکستان کی علاقائی مجبوری کو کبھی تسلیم نہی کیا اور نہ ہی کبھی پاکستان کو ایک آزاد اور خود مختار ریاست مانا ہے اور پاکستان کی دفاعی مقاصد کے لئے ایٹمی ٹیکنالوجی کو ہمیشہ سخت نتایج کا سامنا کرنا پڑا ہے اسی پاداشت میں معاشی و اقتصادی پابندیوں کے علاوہ ایک وزیر اعظم کو پھانسی اور کئ وزرائے اعظم کو اقتدار سے ہاتھ دھونے پڑے-
جوہری ہتھیاروں کی تیاری اور میزائل اور اسلحہ تیار کرنا پاکستان کی ایک سٹریٹجک مجبوری ہے- میزئیل پروگرام پاکستان کا انتخاب ہرگز نہی ہے ۔ اس طرح کے دفاعی اقدامات پاکستان کو بڑھتی ہوئی غیر مساوی دنیا میں خود کو محفوظ رکھنے کی اجازت دیتے ہیں۔ اور یہ غیر مساوی دنیا خود امریکہ اور اس کے اتحادی سامراجی ملکوں نے بنائی ہے- درحقیقت، امریکہ کا یہ دعویٰ کہ پاکستان کا میزائیل پروگرام امریکہ کو نشانہ بنا سکتا ہے ایک غلط تاثر ہے اور بے بنیاد پراپیگنڈہ ہے-
ایک عقلی نقطہ نظر کے لیے چھوٹی قوموں کے جائز سیکورٹی خدشات کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے۔ عالمی طاقتوں کو اقتصادی یا سیاسی جبر کا سہارا لیے بغیر علاقائی کشیدگی سے نمٹنے کے لیے باہمی افہام و تفہیم اور تزویراتی استحکام کو ترجیح دینی چاہیے۔
پاکستان میں بہت سے ایسے گروہ موجود ہیں جن میں لبرل،نام نہاد قوم پرست اور نام نہاد ترقی پسند بھی شامل ہیں جو امرکہ کی جنوبی ایشیاء میں غیر متوازن اور سامرجی پالیسیوں کو منصفانہ انداز میں دیکھنے کے حامی نہی ہیں بلکہ ترقی پسندون کے کئی نام نہاد گروہوں کی ہندوستان کے مقابلے میں پاکستان پر زیادہ تنقید رہتی ہے ہندوستان میں اقلیتوں،شمال مشرق کی چھوٹی ریاستوں کے ساتھ غیر منصفانہ کارروائیاں،ہندوستان میں ماوسٹوں کا قتل عام اورکشمیریوں کی نسل کشی پر کبھی انھوں نے لب کشائی نہی کی جبکہ پاکستان کی جاگیردار سرمایہ دار اور مزہبی سیاسی جماعتوں نےتو ہمیشہ امریکی جرائم پر نہ صرف مجرمانہ خاموشی اختیار کی بلکہ 70 سال سے وہ ایسٹیبلشمنٹ سمیت امریکہ کے عوام دشمن اقدامات میں شامل ھال رہے اور اس کے ہم پیالہ و ہم نوالہ رہے- اور اقتدار کے حصول کے لئے امریکی خوشنودی ہی ان کے لئے سند چلی آ رہی ہےہم سمجھتے ہیں کہ اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان کی محب وطن،حقیقی قوم پرست اور ترقی پسند سیاسی قوتیں امریکی سامراج کے غیر منصفانہ عالمی نظام پر آواز بلند کریں اورایک منصفانہ عالمی نظام کےقیام کے لئے ضروری کہ پاکستان میں اینٹی ایمپیرلسٹ فرنٹ (سامراج دشمن محاذ) کی تشکیل کریں-