پروفیسر امیر حمزہ ورک
پاکستان کا معاشی اور سیاسی بحران شدید سے شدید تر ہوتا جا رہا ہےشدید معاشی چیلنجز کے سبب بجلی، گیس ،تیل اور روز مرہ خوراک کی اشیاء کی قیمتوں مین مسلسل اضافہ نے عوام کی زندگیوں کو اجیرن بنا رہا ہے-دوسری طرف سیاسی بحران مسلسل گہرا ہوتا جا رہا ہے-پارلیمنٹ(جو جاگیرداروںسرمایہ داروں اور ارب پتیوں کا ادارہ ہے)،فوجی و سول افسرشاہی اور ججز بیوروکریسی کے درمیاں اپنے اپنے اختیارات سے تجاوز اور آپسی مفادات کے ٹکراؤ کا سلسلہ جاری ہے۔
موجودہ سیاسی بحران جو 2014 سے شروع ہوا-پچھلی حکومت کی برطرفی نے سیاسی ماحول کومزید بگاڑا ہے، اس کے ساتھ ساتھ موجودہ حکومت کا بنیادی محور سیاسی بقا ء ہے-یوکرین کی جنگ کے باعث دنیا بھر میں ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ گذشتہ برسوں میں ملک کی طرف سے ضرورت سے زیادہ بیرونی قرضوں نے ڈیفالٹ کا خدشہ بڑھایا، جس کی وجہ سے کرنسی گر گئی اور درآمدات نسبتاً زیادہ مہنگی ہو گئیں
ناقص حکمرانی کی وجہ سے، دیگر کم سےکم آمدنی والے ترقی پزیر ممالک کے مقابلے میں کم پیداواراور فی کس آمدنی کے نتیجے میں ادائیگیوں کے توازن کا بحران پیدا ہوا ہے، جس کی وجہ سے ملک اتنا زر مبادلہ کمانے سے قاصر ہے کہ وہ درآمدات کے لیے فنڈز مہیا کر سکے پاکستان کی حکومت ملک کو درپیش سنگین مالیاتی بحران کے حل میں مدد کے لیے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) سے ایسے وقت میں مزاکرات میں مصروف ہے جب ملک کے زر مبادلہ کے ذخائر بہت کم ہیں۔
ایک ایسے وقت میں جب کہ پاکستان اپنے بگڑتےہوئے معاشی بحران سے نمٹنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے، امریکہ اور چین کے درمیان طاقت کا زبردست مقابلہ، اسلام آباد کی بدلتی ہوئی سنگین معاشی صورت حال کو جغرافیائی و سیاسی نہج دیتا ہے۔ اگرچہ امریکہ اور چین کے مابین مسابقت پاکستان کے لئے ایک پیچیدہ چیلنج رہا ہے ، تاہم حالیہ معاشی بحران کا جغرافیائی وسیاسی استعمال اسلام آباد پر اثر انداز ہونے کی ان کی مسابقتی کوششوں کو بڑھاتا ہے۔جب بیجنگ اور واشنگٹن اس بحران کے لیے ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں تو پاکستان اپنے آپ کو ان کے جغرافیائی سیاسی مسابقت کے شکنجے میں دیکھتا ہے، جس سے بگڑتے ہوئے معاشی بحران کو مزید نقصان پہنچتا ہے-
پاکستان: امریکہ چین کی کشمکش کی زد میں
چین نے 1979 کے بعد حیرت انگیز معاشی ترقی کی، جس میں اس کی معیشت میں 1978 اور 1998 کے درمیان پانچ گنا اضافہ ہوا۔ امریکہ اس ترقی کو اپنی عالمی برتری کے لیے ایک بڑا خطرہ سمجھتا ہے۔ اکیسویں صدی کے آغاز سے امریکہ نے چین کی بڑھتی ہوئی معاشی اور دفاعی طاقت کا مقابلہ کرنے کے لیے حکمت عملی بنانی شروع کی۔اپنی سرد جنگ کی پالیسی کی طرح امریکہ نے جاپان، جنوبی کوریا اور آسٹریلیا کے ساتھ دفاعی اتحادوں کے لیے کام شروع کیا۔ اس کے ساتھ امریکہ نے بھارت کو بھی اس حکمت عملی میں شراکت دار بنانے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ بھارت کو چین کے علاقے میں بڑھتے ہوئے اثرورسوخ سے علاقے میں اپنا استبدانہ منصوبہ خطرے میں نظر آیا، اس لیے امریکہ کے ساتھ نتھی ہوگیا۔
پچھلی چار امریکی انتظامیہ، جن میں دونوں رپبلکن اور ڈیموکریٹ شامل ہیں، بھارت کے ساتھ مل کر اس امید پر اس کثیر الجہتی منصوبے پر کام کرتے رہے کہ بھارت چین کے بحر ہند اور جنوبی ایشیا میں بڑھتے ہوئے اثر رسوخ کے آگے ایک فصیل بن کر کھڑا ہوگا۔ اس لیے امریکی خیال میں اگر پاکستان بھارت کی برتری کو قبول کر لے تو یہ اس امریکی حکمت عملی کو، جس میں بھارت کو ایک بڑی ایشیائی طاقت بنانا ہے، آگے بڑھانے میں مدد ملے گی۔ سی پیک منصوبے کے تحت چین نے 2015 اور 2030 کے درمیان پاکستان میں مختلف شعبوں میں 62 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کرنی ہے، جس میں پاکستان کے فرسودہ بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے کے علاوہ اس منصوبے کے تحت سڑکوں کے جال بچھانے، ریلوے میں انقلابی تبدیلی لانا، شمالی اور جنوبی معاشی کوریڈور قائم کرنا اور بیجنگ کو گوادر کی بندرگاہ سے ملانا شامل ہے۔
اس کے علاوہ اس منصوبے کے تحت پاکستان میں توانائی کی کمی کو پورا کرنا بھی شامل ہے اور مختلف صعنتی زون بھی قائم کرنا ہے۔ اس منصوبے کے تحت 2015 سے 2018 تک تقریباً 20 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کی گئی اور 2018 سے 2020 کے درمیان پانچ ارب ڈالرز کی اضافی سرمایہ کاری بھی کی گئی۔
اس لئے موجودہ حکومت کے لئے معاشی چیلنج، اور اندرونی سیاسی کشمکش کے ساتھ ساتھ عالمی مھاذ پر بھی چین کے ساتھ تعلقات کا خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے اور امریکہ کی سخت ناراضگی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔۔اور امریکہ جس حکومت سے یا ملک سے ناراض ہو تو وہاں کیا ہوتا ہے،،،وہ کیا کر سکتا ہے اور کیا کر رہا ہے یہ سب کچھ ہر پاکستانی بخوبی سمجھتا ہے وہ حکومت کو اندرونی و بیرونی شدید دباؤ میں لا کر اپنی مرضی مسلط کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے-
اداروں کی باہمی لڑائی
سپریم کورٹ کے اندر کی لڑائی،سول اور ملٹری بیوروکریسی کے دھڑوں کی اندر کی لڑائی اور مختلف سیاسی جماعتوں کی اپس کی سیاسی پولرائیزیشن اور شدید لڑائی نے حکومت کی ناک میں دم کر رکھا ہے اور یہ ڑرائی ختم ہونے والی نہی ہے کیونکہ اس کے ڈانڈے عالمی سیاست سے ملتے ہیں اور جب تک پاکستان سی پیک سے دستبردار ہو کر ناک سے لکیریں نہی نکالے گا یہ سیاسی دھماچوکڑی۔۔سپریم کورٹ کی آپسی اور حکومت کے ساتھ لڑائی،،سول و ملتری بیوروکریسی کی آپسی اور مخالف فریق کے ساتھ کشمکش ختم نہی ہو گی-کیونکہ حکومت کے پاس کوئی آپشن نہی ہے اس ساری صورتحال کو ختم کرنے یا اس کا مقابلہ کرنے کے لئے۔۔۔کیونکہ سب سے بڑی سپورٹ جو اندرونی طور پر کسی ھکومت کو مل سکتی ہے وہ عوام کی ہے لیکن عوام کا جو حال ہو رہا ہے وہ حکومت سے ناخوش ہی رہین گے-اور عوام کو اس بات سے غرض نہی کی عالمی سامراجی طاقتیں اور امریکی سامراج آئی ایم ایف اور دیگر اپنے ادارہ جاتی ہتھیاروں اور اپنے خفیہ ہاتھوں کے ذریعے پاکستانی حکومت کو سی پیک سے دستبردار کروانے اور اپنے عالمی ،علاقائی اور مقامی ایجندے کی تکمیل کے لئے حکومت کی گردن پر انگوٹھا رکھے ہوئے ہے-
دہشت گردی کا چیلنج
موجودہ حکومت کا اچانک سے تیز ہو جانے والی دہشت گردی کی لہر کا بھی سامنا ہے یہ ساری دنیا جانتی ہے کہ دہشت گرد کون پیدا کرتا ہے اور وہ کس کے مفاد کے لئے کام کرتے ہیں خیبر پختون خواہ اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں جو دہشت گردی ہو رہی ہے جس سے معصوم پاکستانی اور فورسز کے لوگ جاں بحق ہو رہے ہیں وہ بھی مکمل طور پر امریکہ ،ہندوستان اور دیگر سی پیک مخالف قوتوں کی حمائیت یافتہ ہے-کیونکہ چین اور پاکستان کے مابین اس بڑھتے ہوئے تعاون کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ سی پیک کے ذریعے چین کو خلیجی اور مشرقی افریقہ کے ممالک تک پہنچنے کے لیے انتہائی کم مسافت والا راستہ مل گیا ہے۔ پاکستان کے لیے گوادر خطے کی ایک بڑی تجارتی بندرگاہ بن رہی تھی اور پاکستان شمال اور جنوب کے لیے تجارت اور توانائی کا ایک اہم کوریڈور بننے جا رہا تھا۔اس لئے دہشت گردی کا یہ عفریت اور پاکستان کے اندر سیاسی انارکی اور عدم استحکام انھیں اندرونی اور بیرونی قوتوں کا کام ہے جو پاکستان اور چین کے بڑھتے ہوے تعاون کو روکنا چاھتے ہیں-
دوسری طرف اس دہشت گردی کے موجد خود پاکستانی حکمران اور ان کا سیاسی آقا امریکہ ہے۔۔بلوچستان کا مسلہ کئی دہائیوں سے جوں کا توں ہے سینکڑوں لاپتہ نوجوان کے والدین ابھی بھی اس امیدپر زندہ ہین کہ شاید ان کے پیارے کسی دن گھروں کو لوٹ آئیں-حکمرانوں نے جن میں بلوچستان کت سردار بھی شامل ہیں صرف بلوچستان کو لوٹا ہے وہ معدنی دولت سے مالا مال صوبے کے عوام کو تعلیم۔روزگار کی فراہمی۔مہنگائی ،بےروزگاری کا حاتمہ تو کجا وہ ان کو جینے کا حق بھی نہی دے سکے اور پاکستانی حکمرانون نے بلوچستان کے غریب ،مجبور عوام اور نوجوانوں کو جیتنے کی ہرگز کوشش نہی کی بلکہ وہاں پر مسلط سرداری نظام اور سرداروں کو اور مظبوط کیا-
چین امن کیوں چاھتا ہے؟
ماؤزے تنگ نے کہا تھا “کہ چین جتنا بھی طاقتور اور ترقی یا فتہ ہو جائے وہ کبھی بھی سپر طاقت کا منفی کردار ادا نہی کرے گا”یعنی دوسری ریاستوں،قوموں اور عوام کے داخلی معاملات میں مداخلت نہی کرے گا اور جنگوں اور دہشت گردی کی حمائیت نہی کرے گا۔۔ اور چین آج تک اس بات پر کاربند ہے وہ پاکستان کی کسی ایک یا دوسری سیاسی جماعت کی حمائیت نہی کرتا۔۔سرمایہ داری اور سامراجیت منافع کے لئے جنگیں چھیڑتے ہین جبکہ سوشلزم امن کے ماحول میں اپنی کارکردگی دکھا سکتا ہے-چین نے آج تک کسی ملک میں مداخلت نہی کی جبکہ امریکہ کے لیے اس طرح کی منصوبہ بندیاں کوئی نئی بات نہیں ہے۔
ماضی میں بھی امریکہ اور مغربی سامراجی ممالک بہت ساری حکومتوں کو کمزور یا گرانے کا کام کرتا رہا ہے۔ 1904 اور 1934 کے درمیان امریکہ نے لاطینی امریکہ میں 21 دفعہ فوجی مداخلت کی۔کیوبا انقلاب کی مخالفت اور فیڈل کاسٹرو کے خلاف مختلف فوجی اقدامات، امریکہ کی اس طرح کی مداخلت کی ایک بڑی مثال ہیں۔ چلی میں ایک جمہوری حکومت کا خفیہ کارروائیوں کے ذریعے تختہ الٹنا ساری دنیا پر پوری طرح عیاں ہے۔ ہمارے اپنے علاقے میں سی آئی اے کی مدد سے ایرانی وزیر اعظم محمد مصدق کی 1953 میں حکومت کا خاتمہ کس سے چھپا ہوا ہے۔ اور گزشتہ چند سالوں میں امریکی سامراج اور اس کے اتحادیوں نے ایران،عراق،لبیا،شام،لبنان،فلسطین اور یمن وغیرہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ہے اور اس کے برعکس چین مسلما ن ممالک اور خاص کر ایران اور سعودی عرب کی صدیوں کی دشمنی ختم کرواتا ہے تاک امن کا نطام قائم ہو اور عوام کے بنیادی مسائیل حل ہوں۔
دوسری بات یہ ہے کی جو ملک کسی بھی علاقے ،ملک یا خطے میں اپنا سرمایہ لگاتا ہے تو وہ نہی چاھتا کہ وہاں پر بد امنی،سیاسی عدم استھکام،دہشت گردی یا جنگ ہو تا کہ اس کا سرمایہ محفوظ رہے اور چین پاکستان میں صرف سی پیک کی مد میں 62 ارب دالر کی سرمایہ کاری کر چکا ہے اور اب سی پیک پارٹ 2 میں مزید سرمایہ کاری کے لئے تیار ہے اور افغانستان جسے امریکہ تباہ و برباد کر کے بھاگ گیا تھا اسے اب چین اباد کر رہا ہے اور نیل باغ، کابل میں 1,400 رہائشی یونٹ تعمیر چین کی مدد سے تعمیر کیے جا رہے ہیں اور بقیہ 10,000 رہائشی یونٹ نئے کابل شہر کے منصوبے میں بنائے جائیں گے اور یہ منصوبہ مکمل کیا جائے گا۔
چین نے افغان ھکومت کے ساتھ دریائے آمو سے تیل نکالنے، اور کاپر کی کان کنی کے اربون ڈالر کے منصوبے شروع کر رکھے ہیں-صرف تیل کی مد میں چین نے 49 ملین دالر کی سرمایہ کاری کی ہے-چین افغانستان میں ریلوے لائین بچھا رہا ہے جو ازبکستان سے شروع ہو گی اور گوادر تک آئے گی- اس کے علاوہ اربون ڈالر کے پروجیکٹ افغانستان میں شروع کر رکھے ہیں- اس لئے اس خطے میں امن اور صرف امن اور ترقی چین کی پالیسی ہے-
قومی حکومت یا مارشل لاء؟
پاکستانی سیاست اور معیشت کے سارے تضادات،سیاسی پولر رائیزیشن، اداروں کی لڑائی اور بیرونی مداخلت کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ کیا یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا یا کہیں رکے گا بھی؟
یہی وہ بنیادی سوال ہے جس کا ہمیں سامنا ہے۔۔ ہر ریاست،سیاست اور معیشت میں بنیادی تضادات اندرونی ہوتے ہیں جن کی بنیاد پر بیرونی عوامل کو مداخلت کا موقع ملتا ہے-اداروں کی باہمی لڑائی اور سیاسی کشمکش ایک ممکنہ حل جو ہو سکتا ہے وہ پاکستان میں پارلیمنٹ میں شامل سیاسی جماعتوں پر مشتمل ایک قومی حکومت ہے جو کہ نئے انتخابات سے بہتر اور آسان حل ہے،،اگر یہ تضادات اس طرح پرامن اور باہمی رضامندی سے حل نہ ہوئے تو پھر اس ملک کا مقدر ایک اور مارشل لاء ہو سکتا ہے