پروفیسر امیر حمزہ ورک
بہت سے سیاسی اسکالرز اس بات پر متفق ہیں کہ نوآبادیاتی دور کے بعد کی زیادہ تر قومیں مکمل آزادی حاصل کرنے میں ناکام رہی ہیں، کیونکہ سامراجی طاقتیں اپنے ماتحت حکمران اشرافیہ کو پالیسی ہدایات جاری کرتی رہیں۔ جسے ہم سیاسی زبان میں جدید نو آبادیاتی نطام بھی کہتے ہیں-تیسری دنیا کے ملکوں میں جب بھی کسی پاپولر سیاسی لیڈر نے جدید نوآبدیاتی طاقتوں،ایسٹیبلشمنٹ یا استحصالی قوتوں کے خلاف اواز بلند کی تو اسے بہت پزیرائی میسر آئی-
پولرائزیشن اس وقت ہوتی ہے جب کوئی معاشرہ متصل درمیانی زمین کے بغیر، انتہائی سرے پر مختلف دھڑوں میں بٹ جاتا ہے۔ پولرائزیشن دنیا بھر کے معاشروں کو ہلا رہی ہے، نئی جمہوریتوں سے لے کر طویل عرصے سے قائم ہونے والی جمہوریتوں تک۔ حالیہ برسوں میں، ہم نے ریاستہائے متحدہ کو ریڈ اور بلیو کے درمیان تقسیم ہوتے دیکھا ہے جو کہ ریپبلکن اور ڈیموکریٹس کی تقسیم کے مطابق ہے۔ پولرائزیشن ترکی سے ہندوستان، برازیل سے امریکہ تک دنیا کو متاثر کر رہی ہے۔ یہ نہ صرف ترقی پذیر دنیا کا مسئلہ ہے بلکہ ترقی یافتہ دنیا کا بھی مسئلہ ہے۔ پاکستان میں بھی ایسا ہی ہو رہا ہے-ہاں اس بات سے کوئی اتفاق کرے ےیا نہ کرے کہ سرمایہ دارانہ نظام سے ہٹ کر اب بھی صرف سوشلسٹ ملک(چین،کیوبا،ویتنام،شمالی کوریا اور لاوس وغیرہ) ہی ہیں جو اس سیاسی پولرائیزیشن،بدامنی،بد اخلاقی کی سیاست سے پاک ہیں-اگر اسے ایک بڑے فریم ورک مین دیکھا جاے تو یہ سرمایہ داری کے عالمی،علاقائی اور مقامی بحران ہی ہیں-
مارکس کہتا ہے کہ ’’ہر طبقاتی جدوجہد ایک سیاسی جدوجہد ہے۔‘، تو کیا ہر سیاسی جدوجہد لازمی طبقاتی جدوجہد بھی ہوتی ہے؟میرے خیال میں یہ ہر سیاسی جدوجہد ہروقت طبقاتی جدوجہد نہی ہوتی- کیونکہ مارکس کے نزدیک طبقاتی جدوجہد ہر عہد کے ظالم و مظلوم یا بالادست اور زیردست طبقات کے مابین ہوتی ہے-
سرمایہ داری نظام کی منفی خاصیتیں کیا ہیں؟ کہ سرمایہ داری فطری طور پر استحصالی، اجنبی، غیر مستحکم، غیر پائیدار، اور بڑے پیمانے پر معاشی عدم مساوات پیدا کرتی ہے، لوگوں کو اجناس بناتی ہے، اور جمہوریت مخالف ہے اور انسانی حقوق اور قومی خودمختاری کے خاتمے کا باعث بنتی ہے جبکہ یہ سامراج کی شکل اختیار کرتی ہے۔سرمایہ دارانہ نظام سرمائے اور محنت کے درمیان موروثی طبقاتی کشمکش پیدا کرتا ہے۔دولت میں بے پناہ تفاوت اور سماجی عدم مساوات پیدا کرتا ہے۔غیر مساوی حالات کچھ لوگوں کے لیے غربت اور بے روزگاری کا باعث بنتے ہیں۔ اور سب سے اہم بات یہ کہ سرمایہ داری ،منافع اور دولت کے حصول میں بدعنوانی اور کرپشن پیدا کرتی ہے-
انسانی سماج کی تخلیق کے بعد جب سے معاشرے نے طبقاتی سماج کی شکل اختیار کی ہے تب سے ہی سماج کو تین بڑے طبقات (امییر، درمیانہ اور غریب )میں ہی تقسیم کیا جاتا تھا-انسانی سماج کے ڈھانچے کو کسی ایک طبقے میں تبدیل نہی کیا جا سکتا-لیکن سرمایہ دارانہ نظام کی آمد کے بعد کرپشن کا آغاز بڑے پیمانے پر ہوا ۔ سرمایہ دارانہ سماج میں سماجی طبقات کی تعداد میں اضافہ بدعنوانی کی حد پر منحصر ہے۔ جتنی زیادہ کرپشن ہوگی، اتنے ہی زیادہ سماجی طبقات پیدا ہوں گے۔جب کرپشن پروان چڑھتی ہے تو معاشرے کی یہ ایک غیر معمولی صورتحال ہوتی ہے- جیسے جیسے معاشرے میں بدعنوانی بڑھتی ہے، کرپٹ کمیونٹیز منظم ہوتی ہیں اور غیر ضروری سماجی طبقات پیدا ہوتے ہیں۔ اور متوسط طبقہ اس ملک میں سب سے زیادہ تقسیم نظر آتا ہے جہاں بدعنوانی کا تناسب بہت زیادہ ہے۔اسی کرپشن کے نتیجے میں بہت سی نئی طبقاتی شکلیں اور خصوصیات نے جنم لیا۔
کرپشن جیسے اضافی سماجی طبقات پیدا کرتی ہے ویسے ہی غنڈے اور مافیا ز پیدا کرتی ہے ۔ شہر اور سرحدی علاقوں میں غنڈوں اور مافیاز کا سب سے زیادہ اثر و رسوخ ہوتاہے۔ اگر غنڈے سرگرم ہوں تو اس ملک کا قانونی نظام غیر فعال ہو جاتا ہے۔ یہ مافیا نظام یورپ میں تیار ہوا۔ یورپی ممالک سے یہ دنیا کے تمام ترقی پذیر ممالک میں پھیل گیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ معاشرے کے ڈھانچے میں غنڈہ طبقہ بھی شامل ہو گیا ہے۔ یہ طبقہ انارکیسٹ لیڈروں کا ایک گروپ بناتا ہے اور ایسے لیڈر غنڈوں کا دفاع کرتے ہیں۔
اس وقت ترقی پذیر ممالک میں پرانا سماجی ڈھانچہ تباہ ہو رہا ہے اور نیا وجود میں آ رہا ہے۔ اس لیے ان ممالک کو مختلف سماجی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سماجی طبقے کی تقسیم اور نئے ذیلی طبقات کی تخلیق سماجی ترقی میں رکاوٹ ہے۔ اس لیے، سماجی طبقات کو مزید زیلی طبقات میں تبدیل کرنے پر قابو پانا چاہیے۔ اگر ہم کسی بھی معاشرے میں روایتی طبقاتی نظام کو برقرار رکھیں گے یا غیر طبقاتی سماج کی طرف بڑھیں گے تو ہم معاشرے کی ہمہ گیر ترقی حاصل کریں گے۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ مزید تقسیم اور نئے طبقے کی تخلیق کے مسئلے کو انسداد بدعنوانی کے ذریعے کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔
. ساری دنیا کے سرمایہ دار ممالک کی طرح پاکستانی معاشرے میں بھی فطری ڈھانچے سے باہر اضافی طبقات کی تخلیق ہوتی نظر آتی ہے۔ اس غیر فطری طور پر بنائے گئے عضو کو طبی سائنس میں ٹیومر کہتے ہیں۔اگر اس کو تجزیاتی ن قطہ نگاہ سے دیکھیں تو پاکستان میں تمام قسم کے مافیاز، استیبلشمنٹ کے عناصر،الٹرا اپر کلاس ،اور اپر کلاس کی بڑی تعداد اسی زمرے میں آتی ہے-پاکستانی معاشرے کی طبقاتی بنتر کو سامنے رکھے بغیر موجودہ طوائف الملوکی کی سورتحال کا تجزیہ ممکن نہی ہے-یہ افراتفری صرف پاکستان کے اندرونی سماجی اور سرمایہ دارانہ تضادات کے ساتھ ساتھ عالمی قوتوں کے باہمی تضادات اور امریکی سامراج کی جنوب مغربی ایشیا اور مشرق وسطی میں کمزور ہوتی ہوئی پوزیشن کا شاخسانہ بھی ہے- سیاسی جماعتیں تقریباً ہمیشہ اپنے بنیادی سپورٹ بیس کے مجموعی مفادات کو بیان کرتی ہیں اور ایک جمہوری سیاست میں وہ ووٹروں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے کچھ نظریہ تیار کرتی ہیں، تاکہ وہ اقتدار پر قبضہ کر سکیں۔ مثال کے طور پر، یہ سمجھا جاتا ہے کہ پی پی پی بنیادی طور پر زمیندار اشرافیہ کی نمائندگی کرتی ہے، جب کہ مسلم لیگ (ن) کی بنیادی حمایت بڑے اور درمیانے درجے کے تاجر تھے۔ پاکستان میں مزدوروں اور کسانوں کی اپنی کوئی پارٹی نہیں ہے۔ لہٰذا انہیں ’’زبردستی‘‘ یا بڑے جاگیرداروں یا تاجروں کی حمایت اور ووٹ دینے پر آمادہ کیا جاتا تھا-
تیسری قوت جو پاکستانی سیاست میں وارد ہوئی تحریک انصاف کی شکل میں،یہ اسی عالمی سرمایہ دارانہ نظام میں کئی دہائیوں سے جاری کرپشن کے نتیجے میں جو سماجی مافیاز اور ٹیومر پیدا ہوئے ان کی نمائیندہ قوت ہے-اسی لئے اس قوت کی پیدائیش میں سول افسر شاہی،ملٹری بیوروکریسی،عدالتی اسٹیبلشمنت سمیت ان تمام مافیاز کی حمائیت ھاصل تھی جو کرپشن کے نتیجے میں ہمارے معاشرے میں اضافی طبقات کے طور پر پیدا ہو چکے تھے-لیکن یہ تجربہ مکمل طور پر ناکام ہو گیا-یہ بات بھی زہن نشین رہے کہ اس طرح کے ناکام تجربات کئی ایک ملکوں میں ہو چکے ہیں اور اس کی تازہ ترین مثال خود امریکہ میں ٹرمپ صاحب کی ہے- اس تجربے کی ناکامی کی مندرجہ زیل وجوہات ہو سکتی ہیں-
پاکستانی معاشرے میں اضافی طبقات کی اس نمائیندہ قوت کا کردار ایک غیر متوقع اور ناقابل یقین عنصر کے طور پر سامنے آیا
پاکستانی معاشرے کی روائیتی سماجی قوتوں کی نمائیندہ سیاسی جماعتوں نےُپی ڈی ایم کی شکل میں ایک موثر اور جاندار پلیٹ فارم بنا لیا-
اضافی طبقات کی نمائیندہ تحریک انصاف اپنے طبقاتی کردار کے حوالے سے ایک انارکست قوت ثابت ہوئی-جس سے تمام علاقائی ریاستں اور پاکستان کے عالمی اتحادی فورم تحریک انصساف کے ساتھ ساتھ اس کے خالق مافیاز اور خاص کر استیبلشمنٹ سے بھی کنارہ کش ہونے لگے-
یہ بات بھی طے ہے کہ عالمی پدھر پر پاکستان کی ایک اہمیت ہے اور امریکی سامراج کا پاکستان کی داخلی سیاست میں بہت اثرو رسوخ ہے-جیسے جیسے عالمی طور پر امریکی سامراج پسپائی اختیار کر رہا ہے ویسے ویسے پاکستان کے اندرونی معاملات میں اس کی پوزیشن کمزور ہوتی جا رہی ہے-پاکستان کی موجودہ رجیم کا چین،روس،ایران وغیرہ کی طرف واضح جھکاؤ کے بعد ہی انکل سام نے پاکستانی اسٹیبلشمنت میں اپنے کمزور ہوتے ہوئے دھڑے،عدالتی اسٹیبلشمنٹ اور دیگر مافیاز کو عمران خان کی حمائیت میں صف آراء کیا لیکن تب تک دیر ہو چکی تھی-چین نے مشرق وسطی میں سعودی عرب اور ایران اور دیگر فریقین کی صلح کروا اکر پاکستانی اسٹعبلشمنٹ کی عمران خان کے خلاف فیصلہ کرنے میں اسانی پیدا کر دی-کیونکہ پہلے پاکستانی استیبلشمنت کو امریکہ اور سعودی عرب سے دو طرفہ معاملات طے کرنے پڑتے تھے اب کے سعودی عرب کے چین روس بلاک کے ساتھ ملنے سے پاکستانی استیبلشمنٹ کو ویسا ہی سہارا ملا ہے جیسے کسی زمانے میں امریکہ کے خلاف جمال ناصر یا قزافی غیرہ کو سوویٹ یونین کا آسرا ہوتا تھا-لیکن پاکستانی ایسٹیبلشمنٹ بہت تجربہ کار ہے-وہ اپنے ہی لگائے ہوئے پودے کو جڑوں سے اکھیڑنے کے بعد بھی امریکہ اور چین کے مابین توازن قائم رکھنے کی بھرپور کوشش کرے گی-