Pakistan and Peoples Democratic Revolution
صباح الدین صبا ء
آج نہ صرف پاکستان بلکہ خطہ اور پوری دنیا ہنگامہ خیز صورتحال سے دو چار ہے۔ اور کسی بھی ملک میں سیاسی عمل کو آگے بڑھانے کے لئے بین الاقوامی ، علاقائی اور مقامی تضادات کو سمجھنے اور سائنٹفک انداز میں ان کا حل تلاش کرنے کی ضرورت ہمیشہ سے زیادہ ہے۔ آج بھی امریکی سامراج دنیا بھر کے عوام کا دشمن نمبرا ہے۔ صدیوں بعد ایشیاء نے ایک انگڑائی لی ہے اور ایشیاء، افریقہ اور لاطینی امریکہ کے ممالک جدید نو آبادیاتی نظام سے افادیت حاصل کرنے کے لئے کوشاں ہیں ۔ پاکستانی عوام آج بھی جاگیردارانہ باقیات گماشتہ سرمایہ داری ، اور افسر شاہانہ حاکمیت کے ساتھ ساتھ سامراجی مداخلت اور تسلط کا شکار ہیں۔
سوویت یونین کے انہدام پر سوشلزم کے خاتمے سرمایہ داری کی حتمی فتح انسانی تہذیب کی تکمیل اور واحد سپر پاور کی حیثیت سے بالا دستی کے امریکی حکمرانوں کے تمام دعوے ہوا ہو چکے ہیں ۔ 2008 میں جرمنی سے شروع ہونے والے عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے بحران نے پوری سرمایہ دارانہ معیشت کو زوال پذیری کا شکار کر دیا ہے۔ اور امریکی ماہر اقتصادیات والر اسٹین کے مطابق عالمی سرمایہ دارانہ نظام ڈھانچہ جاتی ( نا قابل حل ) بحران سے دوچار ہو گیا ہے۔ خود سرمایہ دارانہ معاشرے کے ماہرین ، دانشور متبادل عالمی نظام کی تلاش میں سرگرداں ہیں ۔ آج کا اہم ترین سوال یہ ہے کہ آیا بایاں باز و عالمی سطح پر متبادل کے طور پر خود کو تسلیم کروا سکتا ہے؟۔
1-اس تناظر میں برتر بین الاقوامی رحجان کا تعین کرنے اور خاص طور سے اپنے ملک میں ایک متحرک ، فعال اور متعلق بائیں بازو کی تشکیل کے لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے بین الاقوامی ، علاقائی اور مقامی سطح پر موجود ٹھوس حقائق سے آگاہی حاصل کی سے پہلے بین اور پر موجود جائے اور اس کی درست تفہیم کو یقینی بنایا جائے خواہ یہ حقائق ہمیں پسند ہوں یا نا پسند، بین الاقوامی سیاست کی تجسیم یک رخی دنیا سے کثیر المراکز دنیا کی طرف پیش قدمی سے عبارت ہے۔ یہی آج کے عہد میں بین الاقوامی معاشرے کا بنیادی تضاد ہے۔ یہی سامراج اور دنیا بھر کے عوام کے درمیان تضاد کی آج کی مخصوص صورت ہے۔ یمن جنگ مشرقی وسطی میں جاری قتل وغارت گری اور بین الاقوامی سطح پرتوزان و قوت میں تبدیلی کے حوالے سے مشرق وسطی کے امور کی ما ہرشر مین زروان کا یہ تجزیہ قابل غور ہے۔
“No it is not a battle between Shia and Sunni, Iranian and Arab or the much, ballyhooed Iran Saudi standoff. Yes these narratives have played a part in defining sides. This is not just a regional fight. It is a global one with ramifications that go well beyond the Middle East. It is a war between a colonial past and post-colonial future, between neo-colonial axis and the post-colonial axis. The former seeks to maintain the status quo, the latter strives to shrug off old orders and carve out new independent directions.”
(Shermine Narwani)
2-دوسری عالمی جنگ کے بعد امر یکی قیادت میں قائم ہونے والا عالمی نظام رو بہ زوال ہے۔ امریکہ اپنے زیادہ
سے زیادہ مفادات کو تحفظ دینے کے لئے انسانیت پر آخری خوں آشام حملے کر رہا ہے امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون نے ایک تحقیقی رپورٹ میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ امریکہ ایک سپر طاقت کے طور پر اپنی برتری کھوتا جارہا ہے۔ تا ہم پینٹا گون اس کا حل فوجی قوت کو وسعت دینے حساس مقامات پر جارحانہ کاروائیوں میں اضافہ کرنے کو ہی ٹھہراتا ہے۔ پینٹاگون کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ
“The US backed international order established after world war II is “fraying” and may even be” collapsing” leading the united states to lose its position of Primacy in world affairs”
3-کثیر المراکز دنیا کے قیام کے لئے نئی اُبھرنے والی قوتیں کوشاں ہیں روس وچین محور کوقائدانہ کردار حاصل ہے۔
4- ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ کے ترقی پذیر ممالک کم از کم دو صدی بعد نی بیداری کا مظاہرہ کر رہے ہیں ۔ ایشیاء بین الاقوامی سامراج کے خلاف نئی کروٹ لے رہا ہے۔
5-سامراج کی کاسہ لیسی میں تباہ شدہ پاکستانی معیشت نئے ماحول سے استفادہ کرنے اور اپنی سانسیں بحال کرنے کی کوششیں کر رہی ہے تاہم رجعتی حکمران طبقہ اب بھی کسی ممکنہ تبدیلی کی مزاحمت کرنے میں پر جوش ہے۔
6- ملکی سطح پر تمام رجعتی اور انتہا پسند قو توں کو امریکی سامراج کی سر پرستی حاصل ہے وہ اپنے تمام پرانے اتحادیوں اور نیو لبرلزم کے دوستوں کو متحد کر کے علاقائی قوتوں کے خلاف ایک بار پھر پاکستان کو میدان کارزار بنانے پر تلا ہوا ہے-
7-ملکی صورتحال 60 اور 70 کی دہائیوں کے مقابلے میں زیادہ خطر ناک زیادہ پیچیدہ ہے۔ اور اس وقت کے مقابلہ میں زیادہ احتیاط اور نظم وضبط کا تقاضہ کرتی ہے۔ آج لیننسٹ طرز کی تنظیم کاری ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ اہمیت اختیار کر گئی ہے۔
8-پچاس،ساٹھ اور ستر(50-60-70) کی دہائی میں ریاست اور اس کے اداروں سے مقابلہ کرنا آسان تھا اب ان کے مقابلے میں کہیں وحشت ناک اور بربریت کی حامل غیر ریاستی قوتوں کا بھی سامنا ہے ۔ اس پیچیدہ صورتحال کو سامنے رکھ کر تنظیم کی ساخت اور حکمت عملی کے بارے میں فیصلے کئے جا سکتے ہیں۔ البتہ عوامی سیاست اور قانونی طریقوں سے استفادہ کرنے کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
9-اس بارے میں دورائے نہیں کہ ریاستی اداروں خاص طور سے عسکری قوتوں کی بالا دستی روز بروز مضبوط تر ہورہی ہے۔ اور پاکستان کی مسلح افواج کو اب زندگی کے ہر شعبے میں بالا دستی حاصل ہو چکی ہے جس کی ذمہ داری روایتی سیاسی جماعتوں خاص طور سے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی ا ور پی ٹی آئی پر عائد ہوتی ہے۔ تاہم اس صورتحال کو نعرہ بازی یا پاپولر سیاسی مہم جوئی کے ذریعے تبدیلی کرنے کا اب کوئی امکان باقی نہیں رہا۔
10- سامراج پر انحصار اور عالمی مالیاتی امداد پر چلنے والی معیشت دیوالیہ ہو چکی ہے۔ انتہا پسندی اور دہشت گردی نے ریاست کی ساکھ کو خاک میں ملا دیا ہے۔ تنہائی کا شکار اس نا کام ریاست کو اب امریکہ بھی سہارا دینے کی پوزیشن میں نہیں ۔
11۔ امریکہ کی قیادت میں سامراجی قو تیں پاکستان کو عدم استحکام اور انتشار کا شکار کرنے کے درپے ہیں ۔ بھارتی توسیع پسند بھی ہمیشہ کی طرح صورتحال کا فائدہ اُٹھا کر اپنی بالا دستی قائم کرنے کے لئے کوشاں ہیں ۔
(Ideological Development) نظریاتی ارتقاء
(12-پاکستان میں بائیں بازو کی تاریخ کا آغاز بھارتی کمیونسٹ پارٹی کے کلکتہ اجلاس میں ہوا۔ بلکہ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کی تشکیل 1948 میں کلکتہ اجلاس مین ہوئی- پارٹی کا سربراہ سی پی آئی کی قیادت نے ہی تعینات کیا -منطقی طور پر روز اول سے پارٹی میں دم چھلہ پین کا رحجان غالب رہا-
13-طبقاتی لائن کی ناپیدی نے تمام معاملات کو عملی حقائق کے بجائے نظری بنیادوں پر دیکھنے کی روش عام کی ۔ تلنگانہ تحریک سے لے کر نکسل سل باڑی تحریک تک ہر تحریک کو طبقاتی عینک کی بجائے سطحی مظاہر اور بورژوا سیاسی مصلحتوں کی نذر کر دیا گیا۔
14-پاکستان میں ریاست کا سوال ہو، جمہوریت کا مسئلہ ہو ، قومی سوال ہو یا عورت کا مسئلہ ہو ۔ ہر ایک مسئلہ کو طبقاتی تقسیم سے بالاتر ہو کر دیکھنے کی روایت عام ہوئی ۔ جدید چین کے بانی کامریڈ ماؤ نے اس بارے میں وضاحت سے کہا ہے کہ
“In the final analysis national struggle is a matter of class struggle. Among the whites in the United States it is only the reactionary ruling circles that oppress the black people. They can in no way represent the workers, farmers, revolutionary intellectuals and other enlightened persons who comprise the overwhelming majority of the white people”
عورت کے سوال پر ماؤ نے تحریر کیا کہ۔
“Genuine equality between the sexes can only be realized in the process of the socialist transformation of society as whole” (ؐMao)
جدید چین کے بانی اور بین الاقوامی پرولتاریہ کے عظیم استاد ماؤزے تنگ کے اس بیان کے بعد کہ
“In class society every one lives as a member of a particular class and every kind of thinking, without exception is stamped with the brand of a class.”
طبقاتی لائن کے حوالے سے کسی غلط فہمی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی
۔15- ملک کے دونوں صوبوں (مشرقی اور مغربی ُپاکستان)میں ایک کمیونسٹ پارٹی کا نہ ہونا بھی بڑا المیہ ثابت ہوا۔ کسی بھی بڑے مسئلے پر مشتر کہ ٹھوسں موقف کبھی اختیار نہیں کیا جاسکا۔
16-اکیسویں صدی انسانی نجات اور ترقی کی راہ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ 20 ویں صدی کے اواخر میں جہاں ٹیکنا لوجی کا انقلاب برپاہور ہا تھا ۔ انسانی مشاہدے تجربے اور مارکسی علم یہ یہ بنی نوع انسان کی اجتماعی دانش اور تاریخی تجربات کا نچوڑ ہے seek truth from fact ترقی کی روشنی میں پرولتاریہ کے عظیم استاد کا مرید ماؤزے تنگ نے کہا تھا کہ
17-اکیسویں صدی مارکسزم میں اعتماد کی تازگی اور نسل انسانی کو ایک نئے اور زیادہ ترقی یافتہ عہد میں لے جانے کی صدی ہے۔ مصنوعی ذہانت اور روبوٹ صنعتی انقلاب انسان کو نئی منزلیں عطا کر رہا ہے۔
بین الاقوامی سطح پر مارکسزم کے ارتقاء کی نوعیت ، وسعت اور رنگارنگی کو جاننے کے لئے کامریڈ لینن کی نئی اقتصادی پالیسی (NEP) 18-
ٹیکنالوجی کی ترقی اور انسانی رویے پر اس کے اثرات ، انسانی تاریخ کے ارتقاء، نئے انسان کی تخلیق ، جدت کاری اور خاص طور سے روبوٹ صنعتی انقلاب کی تیاریوں کا جائزہ لینے اور بنی نوع انسان کی اجتماعی دانش کا حصہ بننے کی ضرورت ہے۔ کامریڈ ماؤ کی یہ بات ذہن میں رکھنی ضروری ہے کہ
“It is dogmatism to approach Marxism from a metaphysical point of view and to regard it as something rigid. It is revisionism to negate the basic principles of Marxism and to negate its universal truth” (Mao)
گمراہ کن پروپیگنڈے کی مزاحمت ضروری ہے
سوویت یونین کا انہدام دنیا بھر کے محنت کش عوام کے لئے ایک المیہ ہے لیکن سوویت انقلاب کا نا کام تجربہ قرار دینے والے یا تو پرلے درجے کے احمق اور حقائق سے نابلد ہیں یا انہی کے ساتھی ہیں جو ہر صورت مارکس اور مارکسزم کو نا کام دیکھنے کی آرزو میں مبتلا ہیں۔ کامریڈ لینن کی قیادت میں بالشویک انقلاب کے نتیجے میں سوویت یونین اور اس کے عوام نے چند دہائیوں میں جو کچھ حاصل کیا دیگر ممالک نے اس کے حصول میں صدیاں لگا ئیں ۔ انقلاب کے بعد پہلا پنچ سالہ منصوبہ کامیابی سے مکمل کیا گیا۔ 1930 کے وسط میں سوویت یونین دنیا کا واحد ملک تھا جہاں بیروزگاری ختم کی جاچکی تھی۔ سوشلسٹ انقلاب کے بعد ہی یہاں صنعت کو فروغ حاصل ہوا۔
کامریڈ اسٹالن کی قیادت میں 1959 میں ناخواندگی مکمل طور پر ختم کر دی گئی ۔ 1961 میں سوویت یونین نے پہلے انسان یوری گیگرین کو خلاء میں بھیجا۔ بالشویک انقلاب کے تسلسل میں ہی چین ، ویت نام ، شمالی کوریا، کیوبا اور لاؤس کے عوام نے اپنے اپنے ملکوں میں انقلاب پر یا کیا۔ اکتوبر انقلاب کے بعد اس کی راہ اختیار کرنے والے ملکوں اور ان کے عوام نے معیشت صحت تعلیم اور دیگر شعبوں میں جو ترقی حاصل کی اس کا کوئی دوسرا ملک یا نظام مقابلہ نہیں کر سکتا۔
کیا کیا جائے؟
ضرورت اس بات کی ہے کہ دنیا کہ مختلف علاقوں میں جاری جد و جہد کا بنظر غائر جائزہ لیا جائے ۔ ماضی کی غلطیوں کی اصلاح کی جائے ۔ عالمی سطح پر طے پا جانے والے ان بنیادی اصولوں پر سختی سے عمل پیرا ہوا جائے کہ کسی بھی ملک میں تبدیلی کی تحریک اس ملک کی تاریخ، ثقافت اور عوام کی جذبات کے ساتھ جڑی ہوئی ہے ۔ پاکستان کے انقلاب کے لئے پاکستانی خصوصیات کا حامل ہونا
اولین شرط ہے۔ بائیں بازو کے اکثر دانشور آج نظریے کے تخلیقی اطلاق کے بارے میں زیادہ سوجھ بوجھ اور شعور رکھتے ہیں جو کسی بھی پارٹی کے اندر یا باہر ہو سکتے ہیں۔ ان دانشور کا ان پٹٰ حاصل کیا جانا ضروری ہے ۔ اس کے بعد ہی کوئی واضح لائحہ عمل تیار کیا جا سکتا ہے۔
پاکستانی معاشرہ
ُبرطانوی سامراج نے 1947 میں برصغیر کے عوام میں تقسیم پیدا کر کے بھی آزادی کا اعلان کیا تو یہاں کے عوام کو امید تھی کہ وہ واقعتا آئندہ ایک آزاد ملک کے شہری کے طور پرزندگی گزاریں گے۔ انکا خیال تھاکہ اب انہی حقیقی آزادی اور جمہوریت نصیب ہوگی اور سامراج و جا گیر دارانہ استحصال ماضی کا قصہ بن جائے گا۔ انہیں توقع تھی کہ نوآبادیاتی دور کے خاتمے کے بعد ان کے معیار زندگی میں بہتری آئے گی لیکن ان کی توقعات پوری نہ ہوسکیں۔
آج بھی ملک میں بے پناہ غربت موجود ہے جس میں ہرگز رنے والے دن کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے۔ پیروزگاری ، بے گھری عام ہے۔ صحت اور تعلیم کی سہولتیں عوام کے لئے نہ ہونے کے برابر ہیں۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد نو آبادیاتی نظام اپنی روایتی شکل میں برقرار نہ رہ سکا لیکن جدید نو آبادیاتی نظام کے تحت نو آبادیاتی جاگیردارانہ معاشرہ، نیم نو آبادیاتی نیم جا گیر دارانہ معاشرے میں تبدیل ہو گیا۔
70سال بعد بھی ملک سامراج ، گماشتہ افسر شاہی سرمایہ دار اور جاگیردار طبقہ کے قبضہ ہے۔ آج بھی پاکستان کے حکمران طبقے خطے میں امریکی سامراج کے مفادات کی چوکیداری کر رہے ہیں اور علاقے میں ہونے والی تبدیلیوں کے نتیجے میں اگر ان سے کوئی چوک ہو جائے تو امریکی سامراج کھلی مداخلت سے بھی گریز نہیں کرتا۔ پاکستانی عوام اور خاص طور سے محنت کش طبقے نے مختلف ادوار میں ظلم اور استحصال کی ہر کاروائی کے خلاف آواز اٹھائی ۔ کسانوں کی متعد تحریکیں ، مزدوروں کی شاندار جد و جہد قومی سیاسی تاریخ کا انمٹ باب ہے۔ نو جوانوں ، خواتین اور متوسط طبقے کی انجمنوں اور تنظیموں نے بھی بنیادی حقوق اور جمہوریت کے لئے تحریکوں میں نمایاں حصہ لیا ہے۔
تاہم عوام کے بنیادی مسائل کا حل مجموعی ساجی اقتصادی انتظام میں بنیادی تبدیلی سے جڑا ہوا ہے۔ لہذا بنیادی اور جمہوری حقوق کے لئے عوام کی کاوشوں کو سماجی تبدیلی کے لئے انقلابی جد و جہد سے مربوط کر کے ہی نتیجہ خیز بنایا جاسکتا ہے۔ روایتی اور بورژ واسیاسی جماعتیں جو بنیادی طور پر جاگیردارانہ افسر شاہی سرمایہ دار اور سامراج کے مفادات کی ہی ترجمان ہیں عوام کو کسی صورت “اسٹیٹس کو “سامراج کیساتھ تضاد میں تبدیلی کی جدوجہد کے لئے منظم کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتیں۔
آج دنیا بھر میں اور خاص طور سے ہمارے ملک میں فرسودہ سماجی اقتصادی نظام سامراج کی بالادستی کے خلاف انقلابی جدو جہد کے لئے سازگار معروضی حالات کی موجودگی سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن عوام کے بہتر مستقبل کو یقینی بنانے کے لئے انقلابی قوتوں کی موضوعی کیفیت افسوسناک حد تک کمزور ہے جو یہ انقلابی قوتوں کی بے بضاعتی کا ہی نتیجہ ہے کہ آج مختلف طبقاتی نقطہ نظر کے حامل مابعد جدیدیت، اسلامی بنیاد پرستی اور تنگ نظر قوم پرست عناصر کسی نہ کسی شکل میں عوامی تحریکوں کی قیادت کر رہے ہیں ۔ سامراج جاگیرداری اور افسر شاہی سرمایہ داری کے خلاف واضح جدو جہد منظم کرنے میں ہماری ناکامی نے ان عناصر کو موقع فراہم کیا ہے-
امریکی سامراج کی قیادت میں عالمی سرمایہ دار قوتیں آج بھی انتہائی رجعت پرست تخریبی اور مذہبی انتہا پسند عناصر کی عرب اور متحدہ عرب امارات میں اسلامی بنیاد پرستی کی حمایت اور سر پرستی بھی امریکی سامراج ہی کر رہا ہے۔ہم آج بھی سامراج کے عہد میں رہ رہے ہیں۔ جدید نو آبادیاتی نظام اور عالمی مالیاتی سرمائے کے بڑھتے ہوئے کردار نے سامراج کے جارحانہ پن میں اضافہ کر دیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ آج امریکی سامراج نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کے عوام کا اولین دشمن ہے اور انسانیت کے مستقبل کے لئے سامراج کے خلاف جدو جہد نا قابل گریز ہے۔ خاص طور پر نائن الیون کے بعد امریکی سامراج نے ترقی پذیرملکوں کے وسائل پر قبضہ کرنے اور عالمی بالادستی کو برقرار رکھنے کے لئے جارحانہ جنگوں کی جو حکمت عملی اختیار کی ہے اس کے خلاف جد و جہد لازم ہے۔ دہشتگردی کے خلاف نام نہاد عالمی جنگ اسی سامراجی حکمت عملی کو آگے بڑھانے کا ایک ذریعہ ہے۔۔
نائن الیون کے بعد دنیا پر بالادستی حاصل کرنے کے رویہ میں جو جارحانہ پن نمایاں ہوا ہے اور عراق ، افغانستان پر جنگ تھوپنے اور قبضہ کرنے کے بعد اس نے مختلف ترقی پذیر ملکوں خاص طور پر پاکستان کے خلاف جس دھونس، دھمکی اور جارحیت کا مظاہرہ کیا ہے وہ قومی سیاست میں سامراج کے تضاد کے نمایاں مظاہر ہیں۔ ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی موجود گی کو جواز بنا کر نیٹو فورسز نے جس طرح تمام بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے ہماری قومی آزادی اور خود مختاری پر صریح حملہ کیا اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ اسی طرح سلالہ چیک پوسٹ پر امریکی حملے کے خلاف پاکستانی عوام کا غم و غصہ اور احتجاج قطعی درست اور قابل ستائش ہے جبکہ اس حوالے سے جہاں حکمران طبقے کا رویہ سامراج کی اطاعت پر پینی ہے۔ و ہیں بائیں بازو میں شامل ان عناصر کی مزاحمت بھی نہایت ضروری ہے جو کسی نہ کسی بہانے سامراج کی کھلی جارحیت پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب کسی طور نہیں نکالا جانا چاہیے کہ ہم دہشت گردی کے مخالف نہیں ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ دہشتگردی کا رحجان سامراج کا پیدا کردہ ہے اور جب تک سامراج موجود ہے دہشتگردی پیدا ہوتی رہیگی ۔ لہذا دہشتگردی کے خلاف اصل جنگ صرف سامراج مخالف جدوجہد کے ذریعہ ہی ممکن ہے۔
ہم امریکی وزیر دفاع کی طرف سے امریکی بحریہ کی ساٹھ فیصد قوت کی ایشیا میں منتقلی کے اعلان کی سختی کیساتھ مذمت کرتے ہیں خلیج فارس میں امریکی بیڑوں کی موجودگی ، قطر میں بی۔ 52 طیاروں کا اجماع اور مشرق وسطی کے دیگر ممالک میں امریکی فوجی اڈوں کی فعالیت پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہیں ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پورے خطے کے عوام کو ایشیاء کو امریکی سامراج سے نجات دلانے کی جدوجہد میں بھرپور اور سرگرم حصہ لینا چاھئے- جس میں ترقی یافتہ ملکوں کے عوام خاص طور پر محنت کش طبقے کی حمائیت انھیں حاصل ہو گی-ہم عوام کے مابین علاقائی اتحاد کو بین القوامی پرولتاری اتحاد کا حصہ اور عالمی مزدور اتحاد کے لئے ضروری سمجھتے ہیں-
بین الاقوامی سطح پر توازن قوت کی موجودہ صورتحال کے متعلق امریکی محکمہ دفاع نے اپنی ایک تحقیقی رپورٹ میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکہ کی سربراہی میں قائم ہونے والا عالمی نظام زوال پذیری کا شکار ہے۔ پنٹاگون کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ
“The US backed international order established after world war II is “fraying” and may even be” collapsing” leading the united states to lose its position of Primacy in world affairs”
لیکن امریکی دانشوروں اور ماہرین کے پاس صورتحال کا کوئی حل موجود نہیں۔ لہذا پینٹاگون کی تجویز ہے کہ امریکی مفادات کے تحفظ کے لئے فوجی قوت میں اضافہ کیا جائے اور مختلف علاقائی لڑائیوں میں مزید تیزی لائی جائے یعنی
میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ کے ممالک نئی بیداری کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ خاص طور سے ایشیا بین الاقوامی سامراج کے خلاف نئی کروٹ لے رہا ہے۔
یہ درست ہے کہ پاکستانی معیشت میں جاگیرداری کا آج وہ حصہ نہیں رہاجو 1947 میں تھا اور ممکن بھی نہیں کہ وقت ایک جگہ ٹھرا ر ہے۔ لیکن مقامی سرمایہ داری جو افسر شاہی کے کنٹرول میں آگے بڑھی ہے اس کی ہے اسی وجہ سے ہی پیداواری قوتوں کی ترقی اور رشتہ پیداوار میں تبدیلی کے حوالے سے کوئی نمایاں پیش رفت نہ ہوسکی۔ اور آج بھی بعض جگہوں پر اپنی روایتی شکل میں اور بعض جگہوں پر ثقافتی ڈھانچے اور اثر ورسوخ کے حوالے سے جاگیردارانہ نظام نہ صرف موجود ہے ۔ بلکہ پاکستانی عوام کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اس وقت پاکستانی معیشت میں( جی ڈی پی) زراعت کا حصہ تقریبا 24 فیصد ہے جبکہ ان میں 19 فیصد حصہ صنعتی شعبے کا ہے۔ سروسز کا شعبہ معیشت میں 50 فیصد کا حامل ہے۔
مختلف شعبوں میں موجود جمود کوتوڑنے اور حقیقی معنوں میں ترقی کے سفر کا آغاز کرنے کے لئے جاگیردارانہ نظام اور اس کی باقیات کو اکھاڑ پھینکنے کے لئے جد و جہد کرنا لازم ہے۔ قیام پاکستان کے بعد سے جو تھوڑی بہت ترقی مختلف ادوار میں ہوئی ہے اس کے ثمرات سے بھی عام ادمی مستفید نہ ہو سکا ۔ اس کی اصل وجہ سرمائے پر افسر شاہی کی گرفت اور اختیارات کا ارتکاز ہے اور اب بین الاقوامی مالیاتی سرمائے کی بالا دستی نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی ہے۔ اختیارات کے ارتکاز اور ترقی کی ناہموار راہ کی وجہ سے روز اول سے موجود قو می سوال شدید سے شدید تر ہوتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ 1971 میں ملک دولخت ہو گیا ۔ سابق مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں سامراجی اور توسیع پسند قوتوں کے علاوہ خود پاکستان کے حکمران اشرافیہ کا کردار بھی مختلف نہیں جو فرسودہ استحصالی نظام کے خلاف مشرقی پاکستان میں موجود بائیں بازو کی سیاست کو اپنے لئے مسلسل خطرہ محسوس کرتا تھا اور بقیہ ملک کو اس کے اثرات سے محفوظ رکھنے کے لئے مشرقی حصہ کو علیحدہ کرنے پر بہ آسانی سےراضی ہو گیا ۔ آج ایک بار پھر بلو چستان میں آگ اور خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے ۔ بائیں بازو کی سیاسی قوتوں کو اب 1971 والی غلطی نہیں دہرانی چاہیے ۔ ہمیں قومی مسئلے کا سائنسی حل جرات کے ساتھ پیش کرنا چاہیے۔ اور بلوچستان میں طبقاتی جد و جہد کو اولیت دینے والی قوتوں کے ساتھ اتحاد ویکجہتی کو مستحکم کرنا چاہیے۔
یہ درست ہے کہ پاکستانی معاشرے کو آج شدید ترین مسائل در پیش ہیں ان میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ انتہا پسندی اور دہشت گردی جاگیردارانہ نظام اور سامراج کی پیداوار ہیں اور ان لعنتوں سے نجات حاصل کئے بغیر انتہا پسندی اور دہشت گردی سے مستقل چھٹکارا حاصل کرنا ممکن نہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ آج جاگیرداری ،افسر شاہی ،سر مایہ داری اور سامراج پاکستانی عوام کے اصل دشمن ہیں اور ان کے خلاف غیر مصالحانہ جد و جہد ہی استحصال سے پاک حقیقی معنوں میں آزاد اور خودمختار معاشرہ کے قیام پر بیج ہوسکتی ہے۔ یہ درست ہے کہ سوویت یونین کے انہدام اور بین الاقوامی سوشلسٹ تحریک میں عمومی پسپائی کے رحجان نے بین الاقوامی مزدور تحریک میں مایوسی اور بدامنی کی فضا کو جنم دیا تھا۔ لیکن یہ بھی ایک روشن حقیقت ہے کہ خود عالمی سرمایہ دارانہ نظام میں سامنےآنے والے شدید بحران نے ایک جانب سرمایہ داروں کے فتح کے دعوے کی پول کھول دی ہے اور دوسری طرف سوشلزم کے مستقبل پر دنیا بھر کے عوام کے اعتماد کی بحالی کی راہ ہموار ہوئی ہے۔پاکستان میں بائیں بازو کی فکر نو زائیدہ نہی ہے بلکہ آج کا بائیں بازو در اصل اسی تحریک کا تسلسل ہے جس کا آغاذ 1917 کے بالشویک انقلاب کے فورا” بعد غیر منقسم ہندوستان میں کیمونسٹ پارٹی آف انڈیا کے قیام سے ہوا تھا-
ہم سجھتے ہیں کہ یہ تحریک ارتقاء کے مختلف مدارج سے گزرتے ہوئے نیشنل عوامی پارٹی (مزدور کسان)میں موجود تھی۔ اور طبقاتی جدو جہد کو آگے بڑھانے میں متحرک کرد ار ادا کر رہی تھی اپنی تمام غلطییوں اور کوتاہیوں کے باوجود یہ تنظیم محنت کش طبقہ کے مفاد کی حامل سیاست کی علمبردار رہی اور آج ایک بار پھر اسی سیاسی فکر کو نئے معروضی حالات ،بین القوامی،علاقائی اور ملکی محازوں پر ٹھوس حقائق کی روشنی میں آگے بڑھنے کی ضرورت ہے-ہم مارکس، اینگلز،لینن،اسٹالن اور ماو کی تعلیمات اور فلپائین،بھارت اور نیپال کے تجربات کو بین الاقوامی،علاقائی،علاقائی اور ملکی صورتحال کے تجزیہ اور پاکستانی انقلاب کی تشکیل میں ممد و معاون سمجھتے ہیں-
ہم امریکی سامراج کے خلاف مذاحمت میں شریک ہو کر بین الاقوامی مزدور تحریک میں فعال کردار ادا کرنا چاھتے ہیں-بھارتی توسیع پسندی کی مخالفت کر کے خطے کے دیگر ملکوں کے عوام اور خود بھارت میں استحصال زدہ عوام کے ساتھ اپنے اتحاد کو مستحکم کرنا اور جاگیردارانہ نظام اور افسر شاہی سرمایہداری کے کلاف فیصلہ کن جدوجہد کر کے ملک میں عومی جمہوری انقلاب برپا کرنا چاھتے ہیں-
اس مقصد کے لئے جدوجہد کی ہر شکل کو ہم جائیز سمجھتے ہیں تاہم اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ کہ سرمایہ دارانہ جمہوریت ہماری منزل نہ پہلے تھی نہ اب ہے-ہم سمجھتے ہیں کی پاکستانی معاشرے میں اصلاح کی نہی انقلاب کی ضرورت ہے-لیہذا تمام تمام جمہوری ذرائع اور طریقوں سے استفادہ کرتے ہوئے ہم انقلاابی عمل کو اولیت دیتے ہیں- اور ایک انقلابی تنظیم کے ذرایعے عوامی جمہوری انقلاب کو اپنا اہم اور بنیادی مقصد جانتے ہیں-صرف اس مقصد کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہم عوامی اور جمہعری سرگرمیوں میں حصہ لینے کو درست سمجھتے ہیں-
ترمیم پسندی اور موقع پرستی کے بار بار حملوں نے بائیں بازو میں غلط خیالات کو فروغ دیا ہے ان کی اصلاح تحریکی وتنظیمی پیش رفت کے لئے لازمی ہے۔ کہ عوامی سطح پر ساینسی خیالات کے بارے میں منفی رویے کی تختی سے حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے۔ ہم مذہبی عقائد پر غیر ضروری بحث میں الجھ کر عوام سے کٹ جانے کے رحجان کی یہ صرف مذمت کرتے ہیں بلکہ سمجھتے ہیں کے بائیں بازوکی تحر یک اس متحمل نہیں ہو سکتی –
چند گذارشات
-پاکستان ایک جدید نو آبادیاتی ریاست ہے اور آج بھی اس کے تمام فیصلے امریکی سامراج کی مرضی و منشاء سے ہوتے ہیں-
– پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے اور جاگیردارانہ باقیات کی پسماندگی ترقی کے عمل کو آگے بڑھانے میں سب سے بڑی روکاوٹ ہے
– روز اول سے جاگیردار، گماشتہ سرمایہدار اور سول و عسکری افسر شاہی کی ایک تکون حکمران ہے اور عوام کی حیثیت صرف اور صرف رعایا کی ہے
– پاکستان میں کسی بھی عوامی جمہوری تحریک کا بنیادی ہدف امریکی سامراج، ملک میں حکمران تکون یعنی نو ابادیاتی نطام اور جاگیردارانہ باقیات ہیں اور مقاصدکے حصول کے لئے ریاست کا سوال کلیدی اہمیت کا حامل ہے-
– عوامی جمہوریت کے قیام کے لئے ریاست کی قلب ماہیئت بہت ضروری ہے- لیکن اس مقصد کے لئے سامنے آنے والی کسی بھی تحریک کو منظم کرنے کی ضرورت ہے-ہمیں اپنے ااہداف کے حصول کے لئے ریاستی جبر کا مقابلہ کرنے کے لئے مناسب تیاری بھی ضروری ہے-اس ضمن میں قانونی،جمہوری اور انقلابی جدوجہد مین ربط اور توازن پیدا کرنے پر توجہ دینی ہوگی-
یاد رہے۔۔۔۔ریاست کی قلب ماہیت کے لئے انقلابی تنظیم کا قیام لازمی ہے لیننی طرز کی اس تنظیم کو تمام تنطیمی ڈھانچوں پر برتری حاصل ہونی چاھئے–
سٹالن ازم اور پھر ماؤ ازم ہی لینن ازم ، مارکسی بین الاقومیت سے انحراف تھا۔ سٹالن ازم کے زوال کا تجزیہ کئے بغیر ہر تجزیہ ادھورا رہے گا۔ پاکستان میں نظام کا تجزیہ بھی کافی کمزور ہے۔ پاکستان میں جاگیر داری بطور نظام رائج نہیں ہے۔ سامراجی نظام معیشت، عالمی مالیاتی اداروں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے اشتراک سے پاکستان کی گماشتہ سرمایہ داری اور تیسری دنیا کے ایسے ہی ممالک کے ان ممالک ‘ پاکستانی ریاست، سیاست اور سماج پر اثرات کے تجزیے کے بغیر اس نظام کے خاتمے کا تجزیہ ممکن ہی نہیں ہے۔ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ امریکی سامراج اور چینی بیوروکریسی کی کٹھ پتلی ہے جس کی اپنی حیثیت طفیلی ہے۔ مارکیٹ اکانومی کے بین الاقوامی سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے
خاتمے کے بغیر کوئی راستہ نہیں ہے۔
خطے کے کسی ملک سے شروع ہونے والا سوشلسٹ انقلاب آج کی بین الاقوامیت کی وجہ سے الگ تھلگ نہیں رہ سکتا۔
یوں
برصغیر کا انقلاب ایک ساتھ مکمل ہوگا
شکریہ کامریڈ قمر،، مجھے آپ سے ایسے ہی کمنٹس کی امید تھی ہم جانتے ہیں کہ ٹراتسکائیٹ نے آج تک نہ کسی مارکسسٹ لیننسٹ پارٹی کو مانا ہے اور نہ ہی کسی انقلاب کو۔۔۔۔لینن اور تراتسکی کا کیا اکتلاف تھا اس پر عنقریب ایک مضمون لکوں گا اور تراتسکائیٹ خود آج تک کسی ملک کی سیاست میں بنیادی کردار اور سماجی تبدیلی کیوں نہ لا سکے اس کا بھی ہم تجزیہ کریں گے بحرحال آپ کو اپنی رائے رکھنے کا مکمل حق حاص؛ل ہے شکریہ
بہت خوب صبا صاحب
شکریہ عاصمی صاھب