“ٹرمپ نے سرمایہ دار دنیا کو اتھل پتھل کر دیا”

                                    اداریہ فروری 2025 “سنگت کوئیٹۃ

ٹرمپ نے سرمایہ دار دنیا کو اتھل پتھل کر دیا

ڈاکٹر شاہ محمد مری
کا شاندار تجزیہ

امریکہ کے انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ ایک لبرل نظر آنے والی ، رنگدار، اور عورت ،کو شکست دیکر صدر بنا۔ اس سے قبل بھی وہ ایک جمہوری نظر آنے والی 

سفید فام ، اور عورت ،یعنی مقبول کلنٹن کی بیوی کو شکست دے کر صدر بنا تھا۔ یہ دلچسپ ہے کہ ڈھائی سو سالوں میں ”جمہوری“ امریکہ میں ایک بار بھی  عورت صدر نہ بن سکی ۔ لوگ وہاں عورت کو صدر بنانا نہیں چاہتے ۔ 

لیکن ہم ایک اور پہلو سے اِن الیکشنوں کو دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس بار امریکہ خود کو ، مغربی ممالک کو ،اور پوری سرمایہ داردنیا کو بدلنے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا ہے ۔ اس بار اقتدار محض ”فرام اسرائیل ٹو اسرائیل “،” فرام رائٹ ٹو رائٹ “،” فرام کارپوریٹ ٹو کارپوریٹ“، اور ”فرام فاشزم ٹو فاشزم“ نہیں ہے ۔ اس بار تو امریکہ وہی کچھ کر رہا ہے جو 1991میں سوویت یونین نے اپنے خاتمے پر کیا تھا۔

سوویت مرگ کے 40برس گزر جانے کے بعد امریکہ اب سامراجیت کی اکیلی چودھراہٹ سے ہٹنے کی کوشش کر رہا ہے ۔ اس نے پون صدی سے نیٹو نامی سفید ہاتھی کو پال رکھا ہے ۔ اس کے علاوہ اس نے دنیا میں آمریتوں ، مارشل لاﺅں اور خلیجی بادشاہتوں کو ان کے عوام سے بچائے رکھا ہے ۔ اب وہ مفت میں ایسا کرنے کو تیار نہیں ۔ ”پیسہ دیو تمہاری بادشاہی سلامت“ ،”امریکہ میں پیسہ لگاﺅ اور رعایتیں لے لو“۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ کپٹلزم کے مزے تو سب لیں مگر اسے برقرار رکھنے کا سارا خرچہ اور بوجھ امریکہ اٹھالے۔

ٹرمپ امیر ترین افراد کی مدد و حمایت کے ساتھ امریکہ کا صدر بنا۔ ان میں کھرب پتی ایکس کا مالک ، کھرب پتی فیس بک کا مالک بھی شامل ہیں جو کہ دنیا بھر کی اکثریت لوگوں کے سارے رازوں سے واقف ہیں۔سب آدم زاد کا ڈیٹا اُن کے پاس موجود ہے ۔اور جس کے پاس ڈیٹا ہے، وہی تو دنیا کا بادشاہ ہے۔ اور یہ بادشاہ لوگ پیسہ کے معاملے میں خوب حساب کتاب رکھتے ہیں۔ اس لیے امریکہ کی کسی پالیسی سے انحراف ممکن ہی نہیں۔

اب تک تو امریکہ اور دنیا کے دیگر ممالک میں الیکشن امید واروں کے بیچ برسوں سے جاری سطحی باتوں والا تقابل جاری رہا ہے۔ فلاں امیدوار اچھا ہے فلاں خراب ، ڈیموکریٹک اچھے ہیں یا ری پبلکن والے۔ ہر چار سال بعد امریکہ یہ نمائش سجاتا رہا ہے اور پوری دنیا کو اپنے نشریاتی اداروں کے ذریعے اس بحث میں مبتلا کر تا رہا ہے ۔ اور دنیا کے لوگ بھی احمق ترین مخلوق بنتے رہے ہیں ۔ اور” کون اچھا ہے“ کے بحث میں گوڈے گوڈے غرق ہوجاتے ہیں۔ چونکہ دنیا کے لوگ اُس وقت طاقتور عالمی میڈیا کے سامنے اپنے شعور کو گروی رکھ چکے ہوتے ہیں اس لیے وہ بنیادی باتوں کی طرف نہیں جاتے ۔ بلکہ موازنہ یہ ہوتا ہے کہ کس کے کان لمبے ہیں ،کس کا قد لمبا ہے۔ کون اچھی تقریر کرتا ہے۔ کون گورا ہے ۔۔۔اور کون نر یا مادہ ہے۔

مگر اس بار کملا ہیرس کی چکا چوندی کے مرجانے اور ٹرمپ کے زلزلے کی آمد نے دنیا کو بہت تبدیل کردینا ہے ۔ ایسی تبدیلی جو کولڈ وار کے بعد سب سے بڑی تبدیلی ہے۔
یہ درست ہے کہ کپٹلزم ایک پرتشدد نظام ہے ، ایسا نظام جو غیر مساوات پیدا کرتا ہے۔ اور ورکنگ کلاس ، عورتوں ،قوموں، اور ممالک کی بہبود کا مخالف ہے ۔ روایت تو یہ ہے کہ امریکی الیکشن میں یہی دیکھا جائے کہ اگلے چار سال تک پوری دنیا کی متشدد چرواہا گیری کون سا فرد کرتا ہے۔ مگر اس بار کچھ اور ہوا ہے ۔ اس بار انہی روایتی مباحث میں غرق دنیا کو بھیڑیں بنے رہنے پر بغلیں بجاتے رہنے کی سہولت سے محروم ہونا پڑ رہا ہے ۔ اس بارامریکہ نے اپنے متکبرو بدمست ٹرمپ کے ذریعے شرافت کے ، جمہوریت کے ، بنیادی انسانی حقوق کے ،اور دکھاوے کے ،سارے حجاب نقاب اتار پھینکے۔کپٹلزم کا استحصال ننگا، لہذا ٹرمپ کا رویہ بھی بے لباس۔

* چنانچہ امریکہ نے کلائمیٹ معاہدے سے نکلنے کا اعلان کردیا ۔ یہ کہہ کر کہ کلائمیٹ چینج یعنی ماحولیاتی تبدیلیوں کا کوئی وجود نہیں، یہ نرادھوکہ ہے ۔ حالانکہ دنیا جانتی ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی ایک تاریک حقیقت ہے ۔ کلائمیٹ چینج کا معاملہ تو کوئی سندھ، سبی اور نصیر آباد والوں سے پوچھے جہاں سیلاب خس کو بھی لے جاتا ہے اور خاشاک کو بھی ۔
* امریکہ نے اسی ڈھٹائی کے ساتھ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن سے بھی نکلنے کا اعلان کیا ہے ۔ حالانکہ ڈبلیو ایچ او تو امریکہ سمیت دنیا بھر کے عوام کی صحت اور سلامتی کی حفاظت کرتا ہے ۔ وہ یہ کام بیماری کے اسباب سے نمٹنے ، ہیلتھ سسٹمز کی مضبوطی اور ہیلتھ ایمرجنسیوں سے بچانے اور ان کا مقابلہ کرنے سے کرتا ہے ۔ اسی ادارے نے سمال پاکس کو ختم کردیا، قدامت پرست افغانستان اور پاکستان کو چھوڑ کر باقی دنیا سے پولیو کا بھی خاتمہ کردیا۔مگر چونکہ اس میں پیسہ زیادہ تر امریکہ دیتا ہے اس لیے ٹرمپ نے مزید اس معاشی بوجھ کے سہنے سے انکار کردیا۔

* چنانچہ امریکہ اب یونائٹڈ نیشنز کے کسی بھی ادارے کو اپنے لیے مفید نہیں سمجھتا ۔ جہاں امریکہ پیسہ سب سے زیادہ لگاتا ہے مگر بہ حیثیت ملک اسے اس * امریکی صدر نے طالبان سے اس اسلحہ کی واپسی کا عزم بھی کیا جو امریکہ وہاں سے بھاگتے وقت وہاں چھوڑ گیا تھا۔ یا سامان واپس کرو،یا پیسہ دو۔کا کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔* سعودی! تم ایک ہزار ارب ڈالر کا اسلحہ خریدو گے۔ تم یہ اسلحہ کس کے خلاف استعمال کرو گے ، یہ امریکہ کا سردرد نہیں ہے ۔ بس ایک ہزار ارب ڈالر دے دو۔* نیٹو ممالک ! تم اپنی دفاع اب خود سنبھالو، امریکہ اب تمہارا دفاع کیوں کرے ؟ اپنا پیسہ خرچ کرو، ہم سے اسلحہ خریدو!۔

* کینیڈا اور چین کی چیزوں پر بہت ٹیکس لگایا جائے گا تاکہ اُن کی مصنوعات امریکہ میں کم فروخت ہوں اور وہاں لوگ امریکی مصنوعات ہی خریدیں۔

سرد جنگ کے خاتمے کے بعد کپٹلزم میں باہمی ایڈجسٹ منٹ بہت ضروری ہوگئی تھی ۔ جب مشترک دشمن سپرپاور نہ رہا تو پھر خامخا اٹنشن ہو کر کھڑا رہنے کا کیا فائدہ ؟۔ جب سوویت یونین باقی نہ رہا تو پھر سرمایہ دارانہ ممالک ظاہر ہے کہ آپس میں مقابلے کریں گے ۔ اپنے اپنے معاشی مفادات کی حفاظت کریں گے۔ ایک دوسرے سے لڑیں گے ، ایک دوسرے سے مقابلہ کریں گے ۔ اور ایک دوسرے کا بھٹہ بٹھا دیں گے ۔ جب سوویت یونین نہ رہا تو سرمایہ دار ممالک میں جمہوریت بھی نیچے سماج اور عوام تک نہیں جارہی۔ جمہوریت تو برقرار رکھنے کے لیے نہیں ہوتی ہے بلکہ یہ تو وسیع کرنے کے لیے ہوتی ہے۔ایک اور بات بھی طے ہے کہ اب کم از کم ویسٹ کی ڈیموکریسیوں میں کرشماتی لیڈرز کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ خوبصورت چہرے ، ڈائنامزم ، فوٹو جینک شخصیت وغیرہ ۔۔۔ کا وقت ختم ہوگیا ۔

المختصر ،اب امریکہ ساری امیر دنیا کو امریکہ میں پیسہ لگانے کی ”ہدایات“ جاری کرچکا ہے۔اور سرمایہ دار دنیا اُن ہدایت کی روشنی میں اتھل پتھل ہونا شروع ہوچکی ہے ۔
یہ اس طرح ہوگا کہ امریکہ، سامراجیت کا سر تو اپنے پاس رکھے گا لیکن اب وہ اس کے پیر اور دھڑ دیگر اتحادیوں میں بانٹ دینے کا فیصلہ کر چکا ہے ۔ اسے سوویت یونین کی موت کے 40برس بعد احساس ہوگیا کہ وہ کپٹلزم کو برقرار رکھنے کا سارا مالی، مادی، فوجی، اور جانی بوجھ اکیلا نہیں اٹھائے گا۔ اس نے سارے اتحادیوں کو سامراجیت کی سانجھی ملکیت سنبھالنے کے لیے کہا ہے ۔ اور اس میں وہ بحث مباحثہ، دلیل بازی نہیں کر رہا ۔ بلکہ اس نے اپنا فیصلہ صادر کردیا ۔ اس نے نیٹو ممالک کو سامراجیت کی برقراری کے لیے ضروری خرچ میں اپنا حصہ بڑھانے کا حکم دیا ۔ آمریتوں ، بادشاہتوں اور امریکہ پہ دیگر محتاج و منحصر ہم جیسے ممالک پہ اپنی حمایت کے عوض فیس بڑھادی۔ اس نے یک طرفہ طور پر یوکرین جنگ کی مدد و حمایت سے ہٹ جانے کا فیصلہ کرلیا۔ اس نے منت سماجت کی بجائے فلسطین کو بزور قوت اردن و مصر میں بکھیر دینے کا حکم جاری کردیا۔

کپٹلزم برقرار مگر اس میں ایک ایسا زلزلہ برپا ہوگیا کہ کپٹل امریکہ جائے گا، اور زور زبردستی جائے گا۔ اور کپٹلزم سے بندھے باقی سارے ممالک خود کو نئے سرے سے ایڈجیسٹ کرنے کی تگ و دو میں پاگلوں کی طرح لگ گئے ہیں۔ اس کے لیے انہیں اپنے عوام پہ ٹیکس لگانے پڑیں گے، ان کی شہری سہولتیں کم کرنی ہوں گی، مہنگائی کرنی پڑے گی اور بےروزگاری بڑھانی ہوگی۔ نتیجے میں وہاں کے عوام جلسہ جلوس کریں گے۔ ہڑتال دھرنے دیں گے۔۔۔ مگر یورپی ” جمہوری ” ممالک انہیں ایسا کرنے نہیں دیں گے۔ یعنی مغربی ممالک پنے عوام کی شہری آزادیاں سلب کرتے جائیں گے ۔

چنانچہ امریکی الیکشنوں کے نتیجے میں مزدور تحریک کے لیے تو”خراب“ آیا ہی ہے مگر بورژوا دنیا کے لیے بہت ”خراب آیا“

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *