پاکستان میں ایک بار پھر مہنگائی کے طوفان نے عوام کا کچومر نکال دیا ہے-پترول کی قیمتیں بڑھا دی گئیں ہیں۔یوں سمجھئے کہ ہر چیز کی قیمت بڑھا دی گائی ہے-انسان کی زندگی ریاست کے معرض وجود میں انے سے پہلے ازاد خودمختار تھی اور پیداوار انسانی ضروریات کے مطابق ہوتی تھی اور تجارت مال کے بدلے مال یعنی بارٹر سسٹم پر تھی-جب ریاست کا ادراہ وجود میں ایا تو انسان کی آزادی،خود مختاری محدود ہوتی چلی گئی-پھر ریاست نے اپنے اخراجات کے لئے عوام پر ٹیکسوں کا نظام لاگو کیا۔۔۔جیسے جیسے ریاست
جدید سے جدید تر ہوتی گئی عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ بڑھتا چلا گیا اپنے ارتقائی عمل میں پھر ریاست نے قومی ریاست (نیشن سٹیٹ) کا درجہ حاصل کیا تو عوام پر ریاست کے بھاری بھرکم بوجھ کا ملبہ گرا دیا گیا ور ٹیکسوں کی بھرمار سے عوام کی جیبوں سے پیسہ نکال کر ریاست نے اپنے غیر ترقیاتی اخراجات،جیسے افواج،اسلحہ،بیوروکریسی،سرکاری مشینری، تباہ کن جنگیوں وغیرہ کے اخراجات پورے کرنے کے لئے عوام کی جیبوں پر ڈاکہ مارا تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جائیز اور ناجائیز ٹیکسوں کی بھرمار مہنگائی کا ایک بڑا سبب بن گئ- پھر جاگیرداری نطام کے دور میں وسائیل پیداوار پر چند لوگوں اور طبقات نے قبضہ جما لیا اور مخلوق خدا کی 90 فیصد تعداد کو وسائیل سے محروم کر دیا گیا تو یہ مہنگائی کو دوسرا برا سبب بن گیا-
جاگیرداری نظام کی کوکھ سے سرمایہ داری نطام برآمد ہواتو یہ نظام اپنی سرشت میں منافع کی خاصیت لئے ہوا تھا- قدیم اشتراکی نظام کے برعکس سرمایہ دارانہ نظام میں اجناس کی پیداوار کا مقصد انسانی ضروریات کی تکمیل نہیں بلکہ ذرائع پیداوار کے مالکان کا منافع ہوتا ہے۔ پیداواری عمل میں دو طرح کا ‘سرمایہ‘ شامل ہوتا ہے۔ پہلا ‘متغیر سرمایہ‘ جس سے مراد قوت، محنت یا آسان الفاظ میں مزدوروں کی مجموعی اجرت ہے۔ دوسرا ‘مستقل سرمایہ‘ جس سے مراد مشینیں، عمارت اور ٹیکنالوجی وغیرہ ہیں۔ سرمایہ دار، سرمایہ کاری کے لیے پیسہ عام طور پر بینک سے ادھار لیتا ہے جو مجموعی طور پر پورے معاشرے کی ملکیت ہوتا ہے۔ سرمایہ داری کی قوت محرکہ منافع نہیں بلکہ ”شرح منافع‘‘ ہے۔ اگر کوئی سرمایہ دار اپنی شرح منافع میں مسلسل اضافہ نہیں کر پاتا تو جلد یا بدیر وہ مقابلہ بازی میں ہار کر منڈی سے باہر ہو جائے گا۔
شرح منافع میں مسلسل اضافے کے لیے ضروری ہے کہ سرمایہ دار ”متغیر سرمائے‘‘ کو کم سے کم رکھے یعنی کم سے کم اجرت پر، کم سے کم محنت کشوں سے، کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ پیداوار حاصل کرے۔ لیکن سرمایہ داری کا بنیادی تضاد یہ ہے کہ محنت کشوں کی اجرت ہی منڈی میں اپنا اظہار قوت خرید کی شکل میں کرتی ہے اور محنت کش طبقے کی مجموعی اجرت کے ساتھ ساتھ منڈی میں طلب بھی کم ہوتی ہے۔ اجناس پیدا تو ہوتی ہیں لیکن انہیں خریدنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ اسی صورتحال کو مارکس ”زائد پیداوار کا بحران‘‘ کہتا ہے۔ ان حالات میں ریاست نوٹ چھاپ کر یا بینکوں سے ادھار لے کر پیسہ (لیکیوڈٹی کی ششکل میں)منڈی میں پھینکتی ہے تاکہ طلب کو بحال کیا جا سکے۔لیکن اس
کا نتیجہ افراط زر کی شکل میں برآمد ہوتا ہے۔۔۔ منافعے مزید کم ہو جاتے ہیں اور معاشی بحران بڑھ جاتا ہے-اس معاشی پالیسی کو سرمایہ دار معیشت دانوں نے کینشیئن ازم کا نام دیا-
گویا عوام پر 1-ٹیکس —–2-ریاست کے غیر ترقیاتی اخراجات-3-وسائل پیداوار پر چند طبقات کا قبضہ-4-سرمایہ داری نظام میں شرح منافع میں مسلسل اضافہ-5-سرمایہ داری نظام منڈی کو مصنوعی سہارا دینے سےپیدا ہونے والا افرا ط زر مہنگائی کے سبب بن گئے-لیکن اس پر بھی سرمایہ داروں اور سرمایہداری نظام کا پیٹ نہی پھر جب منڈی میں کینشیئن ازم بھی ناکام ہو گیا –مہنگائی تو کیا رکنی تھی اور نہ ہی مہنگائی کو روکنا سرمایہدارانہ نظام کا ایجنڈا ہے جب یہ محسوس کیا گیا کہ سرمایہ داری نظام مزید ناکامی کی طرف جا رہا ہے اور اور منفی ہتھکنڈوں اور لوت مار کے زرایعے اسے سہارا دینے کی ضرورت ہے تو کینشیئن ازم کی متبادل پالیسی ”مانیٹرازم‘‘ کو متعارف کرایا گیاہے جس میں ریاستی اداروں کی نجکاری کے ذریعے سرمایہ داروں کو شرح منافع میں اضافے کے مواقع فراہم کیے جاتے ہیں۔ یہ دراصل 1860ء کے دنوں کی ”کلاسیکل سرمایہ داری‘‘ پر واپس جانے کی کوشش ہے جو یورپ میں 1970ء میں کینشیئن ازم کی ناکامی کے بعد کی گئی تھی۔ 2008ء میں سرمایہ داری کی تاریخ کا سب سے بڑا بحران اسی ”مانیٹرسٹ‘‘ ماڈل کا نتیجہ تھا۔ اس نج کاری کی عمل نے عوام کی چیخیں نکال دی ہیں اور عوامی ملکیت کے منصوبوں اور اثاثوں پر اس لوٹ ما ر کے نتیجے میں سرمایہداروں کو تو بہت فائیدہ ہوا لیکن مہنگائی آسمانوں کو چھونے لگی یعنی سرمایہ داری نے مہنگائی میں اجافے کا چھٹہ سبب قومی اداروں کی نج کاری پیدا کردیا اور یہ نج کاری اپنے ساتھ اجارہ داری لے کر آئی اور مخلوط معیشت جس میں سرکاری پیداوار اور پرایئویٹ پیداوار میں مقابلہ ہوتا تھا جس کے نتیجے میں قیمتیں بھی کنٹرول میں رہتی تھیں اور پیداوار کی کوالٹی بھی اچھی ہوتی تھی تو اس طرح نج کاری یا پرائیوعٹائیزیشن کے نتیجے میں اجارہ دار سرمایہ داری کو فروغ دیا اور اس اجاراہ دارانہ عمل نے مہنگائی کو مزید فروغ دیا-
نجکاری یا پرایویٹایزیشن کا یہ عمل ُپاکستان جیسے ملکوں میں سرمایہدارون کے لئے بہت فائیدے مند رہا اور انھوں نے عوام کے پیسے سے بنائے گئے اداروں اور کارخانوں کو خوب لوٹا-ضیاءالحق کے دور مین نج کاری کے اس عمل نے زور پکڑا-ی جب تقریباً 3,000 چاول ، کاٹن جننگ اور سبزی گھی (کھانے کا تیل) مینوفیکچرنگ کے کارخا نے بھٹو دور کے
اختتام پر ڈینیشنلائز کر دئے گئے- –
جیسا ادارہ ضیاء نے بنایا – Pakistan Industrial Credit and Investment Corporation (PICIC )
اس کے چیئرمین این ایم عقیلی کی سربراہی میں ریاستی اداروں کی حالت کا جائزہ لینے کے لیے ایک کمیشن قائم کیا جس نے حکومت کو سفارش کی۔ بیمار یونٹوں کو غیر فعال کرنا چاہئے۔ اتفاق فاؤنڈری، نوشہرہ انجینئرنگ اور ہلال ویجیٹیبلز نام کے تین یونٹ سابقہ مالکان کو واپس کردیئے گئے جبکہ سیمنٹ اور کھاد جو کہ حکومت کی اجارہ داری تھی۔ نجی شعبے کے لیے کھول دیا گیا تھا۔ کوکنگ آئل فیکٹریوں کو ڈی نیشنلائز کرنے کے لیے گھی کی ملوں کے ڈینیشنلائزیشن آرڈر جاری کیا گیا تھا- اس کے بعد نواز شریف نے متعدد یونٹس جیسے پسرور شوگر ملز، سمندری شوگر، راہوالی شوگر، پارس ٹیکسٹائل، ہڑپہ ٹیکسٹائل اور غازی ٹیکسٹائل ملز فروخت کئے یہ یونٹس کیسے اور کن قیمتوں پر فروخت ہوئے یہ ابھی تک راز ہے-کمپنی ریویو کے مطابق پسرور شوگر ملز کو یونائیٹڈ گروپ کی یونائیٹڈ شوگر ملز کو “صرف ایک روپے کی ٹوکن قیمت” پر فروخت کیا گیا- سمندری شوگر ملز کو مونوس اور راہوالی شوگر کو مسلم لیگی سیاست دان شیخ منصور کو فروخت کیا گیا- بے نظیر بھٹو نے اقتدار میں آنے کے بعد مسلم کمرشل بینک، حبیب بینک، پی آئی اے، پی ایس او، سوئی ناردرن گیس پائپ لائن، پاکستان نیشنل شپنگ، پاک سعودی فرٹیلائزر، مستحکم سیمنٹ۔نیشنل ریفائنری، پاک سوزوکی موٹرز، غریبوال سیمنٹ، الغازی ٹریکٹرز، ملت ٹریکٹرز شامل تھے-
ہزروں کی تعداد میں یہ صنعتی ادارے،بینک،گھی،سیمنٹ،چینی،کھاد وغیرہ کے کارخانے بیچنے کا یہ نتیجہ نکلا کہ ہر شعبہ میں سرمایہ داروں کی اجارہ داری قائم ہو گئی ان کا سرکاری سیکٹر سے پہلے جو مقابلہ ہوتا تھا وہ ختم ہو گیا اس اجارہ داری کے نتیجے میں سرمایہ داروں نے سیمینٹ کارپوریژن،شوگر ملز ایسوسی ایشن جیسے اجارہ دار ادارے ہع شعبے میں بنا ڈالے
اس لئے اب وہ اپنی مرضی پر خرید و فروخت کرتے ہیں۔ اور پاکستان میں مہنگائی کا سب سے بڑا سبب بن گئے ہیں-دلچسپ بات یہ ہے کہ جب یہ نج کاری کا یہ سارا عمل ہو رہا تھا اس وقت عوام،سیاسی جماعتوں اور ٹریڈ یونینز کی طرف سے کوئی قبل ذکر مذاحمت نہی ہوئی-
سرمایہ داری نظام میں ریاست کی ہیسیت؟
سرمایہ داری نظام نے جدید ریاست کو پیدا کیا اور اسے ایک طبقاتی ادارہ بنایا-سرمایہ داری اب ایک عالمی سامراجی نطام کا روپ دھار چکی ہے اس لئے ساری دنیا میں لوٹ مار کرنے کے لئے اور سرمائے کے ارتکاز کے لئے آزاد منڈی یا آزاد معیشت کا روپ لئے ہوئے ہے جس کا یہ قانون ہے کہ ریاست کو منڈی کے میکنزم اور سرمایہ دارانہ عمل میں مداخلت کا کوئی حق نہی ہے کسی چیز کی قیمت جتنی بھی سرمایہ دار یا ملٹی نیشنل کمپنیاں بڑھا لیں ریاست اس میں مداخلت نہی کر سکتی-
یہی وجہ ہے کہ حکومت کی جانب سے ڈیمانڈ سپلائی کے میکینزم کی نگہداشت میں نااہلی اور کرپٹ حکومتی عہدیداروں کا اس عمل کی نگہداشت میں بڑے بڑے سرمایہ داروں کو سپورٹ کرنا ہے، جس سے مارکیٹ میں اشیائے ضرورت کی کمی کی وجہ سے ان کی قیمتوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے جمہوری حکمران عالمی طاقتوں اور مقامی سرمایہ داروں کے فرنٹ مین بن کر سپلائی چین کو ہائی جیک کرنے کی کوششوں میں کوئی مداخلت نہیں کرتے بلکہ الٹا ان کی بلیک میلنگ میں آ کر ان کے سامنے سر جھکاتے ہیں۔ یہ سرمایہ دار ذخیرہ اندوزی کر کے اور کارٹیل بنا کر سپلائی کی قلت پیدا کرتے ہیں تاکہ اشیا کی قیمت بڑھا کر دن دوگنا، رات چوگنا منافع کما سکیں۔مہنگائی میں اضافے کی ایک اور بڑی وجہ توانائی کی قیمت میں ہوشربا اضافہ ہے جس سے کاروباری اور تجارتی سرگرمیوں کی لاگت میں اضافہ ہوتا ہے۔ بجلی بنانے کے کارخانوں کی نجکاری سے انرجی انفراسٹرکچر عوامی اور ملکی کنٹرول سے نکل کر چند ملٹی نیشنل سرمایہ داروں کے قابو میں آ جاتا ہے جو توانائی کی فراہمی اور اس کی قیمتوں پر بڑی حد تک اثر انداز ہوتے ہیں۔مہنگائی میں اضافے کی ایک اور بڑی بنیادی وجہ سرمایہ دارانہ معیشت میں ٹیکس کا نظام ہے جو بلواسطہ اور بلا واسطہ ٹیکسوں پر مشتمل ہے۔ ان میں سے اکثر ٹیکس خصوصی طور پر بلا واسطہ ٹیکس، تمام اشیا اور خدمات پر بالعموم لاگو کیے جاتے ہیں جس وجہ سے اشیا اور خدمات کی قیمتیں اپنی اصل قیمتوں سے بہت زیادہ بڑھ جاتی ہیں۔ جبکہ بڑے بڑے جاگیردار،اور تاجروں اور افسر شاہی سرمایہ ٹیکسوں سے آزاد ہیں-
تو پھر کیا کیا جائے؟
کسی ملک کا معاشی نظام سامان، خدمات اور وسائل کی نتیجہ یہی ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام ہی مہنگائی پیدا کرتا ہے سرمایہ داری نظام کے خاتمے سے ہی مہنگائی کا خاتمہ ممکن ہے- پیداوار، تقسیم اور تقسیم کے لیے اس کے طریقہ کار کی وضاحت کرتا ہے۔ سوشلزم، ایک اہم متبادل معاشی نظام جو جدید دور میں ابھرا ہے، اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ پیداوار، تقسیم اور تبادلے کے ذرائع کو مجموعی طور پر کمیونٹی کی ملکیت اور ان کو منظم کیا جائے۔ عملی طور پر، اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ حکومت کی ملکیت ہواور وہی اسے ریگولیٹ کرے۔سوشلسٹ معیشت کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ سامان اور خدمات استعمال کی قیمت کی بنیاد پر تیار کی جاتی ہیں۔ استعمال کی یہ قدر معاشرے کی ضروریات کے تابع ہے، اس لیے کم پیداوار اور زائد پیداوار کو روکنا ہے۔ سوشلزم سے ہمارے حکمران خوفزدہ ہیں اور عوام کو حکمران طبقات اور عالمی سامراجی طاقتوں نے پراپیگنڈہ کا شکار کیا ہوا ہے-سوشلزم پاکستانی ریاست کا طبقاتی کردار جو کہ سرمایہ دارانہ و جاگیردارنہ ہے کو تبدیل کر کے اسے عوامی جمہوری کر دے گا-
لیکن نظام تبدیل کرنا،سرمایہداری نطام کا شکست دینا،اور سوشلسٹ معیشت قائم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ پاکستان میں عوامی جمہوری طبقات(مزدور،کسان، اور دیگر مظلوم طبقات اور عناصر) ایک ایسی سیاسی جماعت بنائیں جس کی لاکھوں میں ممبر شپ ہو اور کروڑوں عوام کی حمائیت حاصل ہو اور جس کی قیادت مزدور طبقے کے فلسفے پر یقین رکھتی ہو-یہ پارٹی کسی بھی طریقے سے اقتدار میں آ کر سوشلسٹ مارکیٹ معیشت کا نظام قائیم کرے تو ہی مہنگائی سمیت غریب عوام کے مسائل حل ہونگے-