مرتا ہوا پاکستانی معاشرہ
پروفیسر امیر حمزہ ورک
انسانی زندگی کے ارتقاء کا سب سے اہم مرحلہ معاشرے یا معاشروں کی تخلیق ہے- معاشرے کو تعلقات اور اداروں کے ایک پیچیدہ نیٹ ورک کے طور پر بیان کیا جا سکتا ہے جو افراد کو ایک دوسرے کے ساتھ باندھتے ہیں، مشترکہ اقدار، اصولوں، عقائد اور طریقوں سے تشکیل پاتے ہیں۔ یہ انسانی تعامل کے مختلف پہلوؤں پر مشتمل ہے، بشمول سماجی ڈھانچے، ثقافتیں، تنظیمیں اور کمیونٹیز۔معاشرے کی اہم خصوصیات میں شامل ہیں معاشرہ افراد کے باہمی تعامل کے ذریعے تشکیل پاتا ہے، جو ایک دوسرے کے ساتھ مختلف ماحول، جیسے کہ خاندان، محلے، کام کی جگہوں اور کمیونٹیز میں مشغول رہتے ہیں۔
مشترکہ ثقافت: معاشرے کے اراکین عام طور پر مشترکہ ثقافتی عناصر، جیسے زبان، روایات، رسم و رواج اور عقائد کے نظام کو بانٹتے ہیں، جو شناخت اور تعلق کا احساس پیدا کرنے میں مدد کرتے ہیں۔
سماجی ڈھانچہ: معاشرے کو مختلف درجہ بندیوں اور کرداروں میں منظم کیا جاتا ہے، جیسے کہ سماجی طبقات، ادارے (جیسے حکومت، تعلیم، اور مذہب)، اور گروہ، جو متاثر کرتے ہیں کہ افراد کس طرح ایک دوسرے سے تعلق رکھتے ہیں۔
معیار اور اقدار: معاشرے اصول اور اقدار قائم کرتے ہیں، جو افراد کی ان کے تعامل میں رہنمائی کرتے ہیں اور سماجی نظم کو برقرار رکھنے میں مدد کرتے ہیں۔
تبدیلی اور تسلسل: معاشرے متحرک ہوتے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ مختلف عوامل جیسے کہ تکنیکی ترقی، ثقافتی تبدیلیوں اور بیرونی اثرات کی وجہ سے ترقی کر سکتے ہیں، جبکہ بعض روایات اور ڈھانچے کو بھی محفوظ رکھتے ہیں۔ اپنے جوہر میں، معاشرہ ایک فریم ورک کے طور پر کام کرتا ہے جس کے اندر افراد ایک ساتھ رہتے ہیں، تعاون کرتے ہیں، اور اپنی شناخت کو فروغ دیتے ہیں، وسیع تر سماجی تانے بانے میں حصہ ڈالتے ہیں۔
انسانوں نے زندگی کے ارتقاء میں خاندان کے بعد دوسرا برا ادارہ معاشرہ کی تخلیق کی- جب انسانوں نے اپنی ضروریات کے تحت ریاست کے ادارے کی تخلیق کی تو اس وقت سے ریاستوں اور معاشروں کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور دونوں ایک دوسرے پر اپنا اثر چھوڑتے ہیں -ماہرین کہتے ہیں،کہ ریاست بجائے خود سماج کے وجود پہ معمول ہوتی ہے اس لئے معاشرے کو ریگولیٹ کرنا ریاست کی اپنی بقاء کا اولین تقاضا ہے۔ ناقص گورننس – جس طرح اقتصادی ترقی میں رکاوٹ، غربت، عدم مساوات اور سماجی بدامنی کا محرک بنتی ہے، اسی طرح ایک کامیاب ریاست ترغیب اور قانونی حکمرانی کے ذریعے افراد کی سیرت و کردار کی تعمیر سے صحت مند معاشرہ برپا کر سکتی ہے-
ریاستیں عموماً جب ماضی کی آغوش سے نکل کر مستقبل کی طرف بڑھتی ہیں تو ان کے سماجی، معاشی، سیاسی اور اقتصادی اشاریے بہتر ہوتے جاتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ایسا لگتا ہے کہ پاکستانی ریاست اور معاشرہ ماضی کی نسبت آج زیادہ زوال پذیری کا شکار ہے۔اس وقت پاکستان کا ریاستی زوال ہمارا موضوع نہی ہے اس لئے ہم اپنے آپ کو پاکستان کے معاشرتی زوال تک محدود رکھیں گے-
معاشرے دنوں،مہینوں یا سالوں میں ترقی یا زوال کی منازل طے نہی کرتے اس عمل میں معاشروں کو دہائیاں اور صدیا ں بھی لگ جاتی ہیں-جس خطے کا آج پاکستان نام ہے یہ 1947 میں آسمان سے نہی اترا- یہ دھرتی جو اب پاکستان کہلاتی ہے ہزاروں-لاکھوں اور کروڑوں سال سے یہیں اسی جگہ موجود ہے اور رہے گی اس دھرتی پر بدھ مت،جین مت،ہندو مت،اسلام اور سکھ مت سمیت کئی مزاہب نے جنم لیا-یہان پرقبل مسیح (عیسی علیہ سلام کی پیدائیش سے قبل)اشوک اعظم-اور چندر گپت موریا کی عظیم الشان سلطنتیں رہیں جب ارسطو اور سقراط کا چھوٹا سا یونان 58 ریاستوں میں تقسیم تھا اور ہر شہر کو ریاست کہا جاتا تھا- اسی عہد میں تکشیالا(اب ٹکیسلا) مین دنیا کی پہلی یونیورسٹی بنی- یہاں پر ہڑپہ کی عظیم تہزیب نے جنم لیا -یہ الگ بات کہ ہم اس دھرتی کے 1947سے قبل کی ہزاروں،لاکھوں اور کروڑوں سال کے تاریخی ورثے کو اپنا نہی مانتے اور یہی پاکستانی معاشرے کا سب سے بڑا زوال ہے- جب انسان اپنی دھرتی اور اس کی تاریخ سے نہی جڑتا تو حب الوطنی بھی ختم ہو جاتی ہے 77 سالوں میں اس عمل اور سوچ نے پاکستانی ریاست کے طرز حکمرانی،نظام سرمایہ داری اورعالمی سامراج کی مسلسل مداخلت نے پاکستانی معاشرے کو متاثرکرنے اوراس کے فطری ارتقاء کا رخ موڑنے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے
پاکستان کا پرانا معاشرہ،جو ریاستی،عالمی سامراجی اور علاقائی ریاستوں کے سیاسی و معاشی مفادات سے محفوظ تھا اور خاص طور پر حالیہ دہائیوں کی تیز رفتار جدیدیت اور عالمگیریت سے پہلے، اس کے ثقافتی، سماجی اور معاشی تانے بانے میں کئی خوبیاں تھیں۔
مضبوط کمیونٹی بانڈ: روایتی پاکستانی معاشرے میں اکثر قریبی برادریوں کی خصوصیت تھی۔کہ خاندان اور پڑوسی ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے، تعلق اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے احساس کو فروغ دیں گے۔
بزرگوں کا احترام : بزرگوں کا احترام کرنے کا ایک ثقافتی اصول موجود تھا، جس نے سماجی نظم کو برقرار رکھنے اور ایک نسل سے دوسری نسل کو دانش فراہم کرنے میں مدد کی۔
ثقافتی ورثہ : تاریخی طور پر، پاکستان کا معاشرہ ثقافتی ورثے کی ایک بھرپورصلاحیت رکھتا ہے، جس میں روایتی موسیقی، رقص، دستکاری اور تہوار شامل ہیں جو اس کے لوگوں میں شناخت اور فخر کے احساس کو فروغ دیتے ہیں۔
زرعی طرز زندگی: روایتی معاشرے کی زرعی نوعیت نے خود کفالت کو فروغ دیا۔ بہت سے خاندان کھیتی باڑی میں مصروف چلے آ رہے ہیں، جس سے روزی روٹی برقرار رکھنے میں مدد ملی اور زمین سے تعلق پیدا ہوا۔
مہمان نوازی: ثقافتی اصولوں میں مہمان نوازی پر زور دیا گیا، جہاں مہمانوں کے ساتھ عزت اور مہربانی سے پیش آیا جاتا تھا ۔ اس سے مضبوط سماجی تعلقات قائم کرنے میں مدد ملی اور کمیونٹیز کے درمیان خیر سگالی کو فروغ ملا۔
روایتی علم : طب، زراعت اور دستکاری میں محفوظ طریقوں کو اکثر نسلوں تک منتقل کیا جاتا ہے، جس سے روایتی علم کا ایک خزانہ پیدا ہوتا ہے جس نے پائیداری میں اہم کردار ادا کیا۔
مذہبی رواداری: بہت سے علاقوں میں، مختلف مذہبی اور نسلی گروہوں کے درمیان بقائے باہمی اور رواداری کا جذبہ تھا، جس سے ایک زیادہ جامع ماحول کو فروغ ملا۔
خاندانی ڈھانچہ: توسیع شدہ خاندانی نظام نے جذباتی اور مالی مدد فراہم کی، مشکل کے وقت افراد کے لیے حفاظتی جال بنایا۔
تعلیم اور خواندگی: جب کہ تعلیم تک رسائی مختلف ہوتی تھی اور اب بھی ہے، روایتی معاشروں نے سیکھنے کو خاص اہمیت دی، خاص طور پر مذہبی اور اخلاقی تعلیم، جو کہ کمیونٹی کے ہم آہنگی اور اخلاقی طرز عمل میں حصہ ڈالتی ہے۔
فن اور دستکاری: فن اور دستکاری کی زبردست تعریف کی گئی، مقامی کاریگروں نے مخصوص کام تخلیق کیے جو ثقافتی بیانیے اور جمالیات کی عکاسی کرتے تھے۔
دیہی سادگی: دیہی برادریوں میں زندگی کی آسان، سست رفتار اکثر رشتوں، فطرت اور کمیونٹی کے اجتماعات کی گہری تعریف کی اجازت دیتی ہے۔
وعدے اور وقت کی پابندی:اس خطے کے معشرے کی ایک بڑی کوبی یہ تھی کہ لوگ وعدے کی پاسداری،دوستی کا پالن اور وقت کی پابندی کو اپنا شعار سمجھتے تھے—
اس خطے میں صدیوں کی اتھل پتھل،،حملہ آوروں کی مسلسل آمد۔۔جا گیراری نطام اورطرزحکمرانی بادشاہت۔ برطانوی سامراج کی قبضہ گیری۔۔1947 کی تقسیم- پنجاب کی تقسیم اور کروڑوں لوگوں کی دو طرفہ ہجرت-1947 کے بعد پاکستانی ریاست کا بیانیہ اور امریکی سامراج سے نکاح-77 اوف سالوں کی ریاستی پالیسیوں کے نتیجے میں ہمارا معاشرہ بد عنوانی-کرپشن۔رشوت خوری- کلیموں کی الاٹمنٹ-سیاسی و مزہبی انتہا پسندی- عدم رواداری- تعلیمی پسماندگی- نطام تعلیم کے ذریعے مخصوص مفادات کا حصول-غربت بے روز گاری- صنفی عدم مساوات- نسلی و لسانی تناو-ماحولیاتی خدشات اورشدید سماجی سطح بندی- جھوٹ- فریب- فراڈ- رشوت- اقربا پروری کا شکار ہو چکا ہے- اور اب اس معاشرے میں ایک اچھا انسان تلاش کرنا مشکل تر ہوتا جا رہا ہے-
پاکستانی معاشرے کے بگاڑ کی وجہ سیاسی عدم استحکام، معاشی چیلنجز، سماجی عدم مساوات اور فرقہ وارانہ تشدد سمیت مختلف عوامل سے منسوب کی جا سکتی ہے۔ اس بگاڑ میں ریاست کا کردار اہم ہے، کیونکہ حکومتی پالیسیاں، گورننس کی افادیت، اور ادارہ جاتی سالمیت معاشرتی حالات کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اور سب سے اہم بات پاکستانی ریاست کا اپنی اقصادی، سیاسی،، خارجہ اور مزہبی پالیسیوں میں آزاد نہ ہونا اور ایک آزاد اور خود مختارریاست کی بجائے امریکی سامراج اور مشرق وسطی کے تیل پیدا کرنے والے ممالک کی زیلی ریاست ہونا اور ایک منصفانہ اقتصادی نظام کی بجائے پاکستان کے عوام کو جاگیرداری اور سرمایہ داری کے شکنجے میں جکڑنا ہے-
پاکستانی معاشرے کے بگاڑ پر ریاست کے چند اہم اثرات یہ ہیں-
ترقی کے سرمایہ دارانہ راستے کا انتخاب:
پاکستانی معاشرے کی تباہی و بربادی کی سب سے بڑی وجہ 1947 کے بعد سرمائہ دارانہ معاشی نطام کو اختیارکرنا ہے جس کے نتیجے میں یہاں ترقی کے نام پر مغربی کلچر کو فروغ دیا گیا-اور پاکستان امریکی سامراج کے شکنجے میں آ گیا اور اس کی ایک غلام ریاست بن کر رہ گیا۔۔اسی کے نتیجے میں یہان چار مارشلاء لگے اور پاکستان افغانستان سمیت امریکی سامراج کی ہر جنگ میں شریک ہوا انھیں اقدامات کے نتیجے میں میں یہان دہشت گردی سمیت ہر وہ بلا در آئی جس سے پاکستانی معاشرے کی اصل روح چھلنی چھلنی ہو گئی-
. سیاسی عدم استحکام
گورننس کے مسائل: حکومت میں متواتر تبدیلیاں، اقتدار کی کشمکش، اور پالیسیوں میں تسلسل کی کمی-جمہوریت کے فقدان نے ان اداروں کو کمزور کردیا ہے جن کا مقصد سول سوسائٹی کی مدد کرنا ہے۔
بدعنوانی: ریاستی اداروں کے اندر بدعنوانی کی اعلیٰ سطح عوامی اعتماد کو ختم کرتی ہے اور ناکارہ ہونے میں حصہ ڈالتی ہے، جس سے معاشرتی شکایات بڑھ جاتی ہیں۔
اقتصادی چیلنجز
بے روزگاری اور غربت: ملازمتیں پیدا کرنے اور معاشی وسائل کو مؤثر طریقے سے منظم کرنے میں ریاست کی نااہلی- بے روزگاری کی بلند شرح وسیع پیمانے پر غربت کا باعث بنی ہے، جو معاشرے میں مایوسی اور عدم استحکام کو ہوا دیتی ہے۔
مہنگائی: معاشی ترقی کے سرمایہ دارانہ طریقہ اور بدانتظامی کے نتیجے میں اکثر مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے، جس سے بنیادی ضروریات بہت سے لوگوں کے لیے ناقابل برداشت ہوتی ہیں، اس طرح نچلے اور متوسط طبقے پر بوجھ بڑھتا ہے۔
. سماجی عدم مساوات
طبقاتی تقسیم: زراعء پیداوار کی چند ہاتھوں میں منتقلی نے اور سماجی عدم مساوات کو دور کرنے کے لیے موثر پالیسیوں کے فقدان نے طبقاتی تقسیم کو تیز کر دیا ہے، جہاں ایک چھوٹی اشرافیہ کے پاس خاصی دولت اور طاقت ہے، جس کی وجہ سے اکثریت کو حقِ رائے دہی سے محروم کر دیا گیا ہے۔
تعلیم اور صحت تک رسائی: ریاست نے معیاری تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال تک مساوی رسائی فراہم کرنے کے لیے جدوجہد کی ہے، جو غربت کے چکر کو برقرار رکھتی ہے اور سماجی نقل و حرکت کو محدود کرتی ہے۔
. فرقہ وارانہ اور نسلی کشیدگی
ریاست کی پالیسی اور تشدد: مخصوص گروہوں کے تئیں ریاست کی تاریخی جانبداری فرقہ وارانہ تقسیم کو بڑھا تی ہے، جس سے تشدد اور سماج مزید ٹکڑے ٹکڑے ہو سکتے ہیں۔
عسکریت پسندی: ریاست کی انسداد دہشت گردی کی موثر حکمت عملیوں کی کمی اور شکایات کو دور کرنے میں ناکامی نے فرقہ وارانہ اور عسکریت پسند گروہوں کو پنپنے کا موقع دیا ہے، جس کے نتیجے میں پورے سماج میں تشدد اور عدم تحفظ جنم لے رہا ہے۔
. انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں
اختلاف کو دبانا: سیاسی اختلاف رائے اور اظہار رائے کی آزادی پر حکومتی کریک ڈاؤن سے شہری مصروفیت کم ہوتی ہے اور شہریوں میں خوف پیدا ہوتا ہے، جس سے عوام میں بیگانگی ہو جاتی ہے جو سماجی بہتری کی وکالت کرنے کی کم صلاحیت رکھتی ہے۔
جنسی عدم مساوات: ریاستی پالیسیاں جو صنفی مساوات کو فروغ دینے میں ناکام رہتی ہیں وہ مستقل سماجی اصولوں میں حصہ ڈالتی ہیں جو خواتین کو پسماندہ کرتی ہیں اور سماجی ترقی میں ان کی شرکت کو محدود کرتی ہیں۔
. ماحولیاتی انحطاط
ریگولیشن کا فقدان: ماحولیاتی ضوابط اور شہری منصوبہ بندی کا ناقص نفاذ ماحولیاتی انحطاط کا باعث بنتا ہے، جس سے معیار زندگی اور عوامی صحت متاثر ہوتی ہے۔
. ادارہ جاتی زوال
کمزور عدالتی نظام: ایک غیر موثر عدلیہ قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھنے میں ناکام رہتی ہے، جو لاقانونیت اور اقتدار میں رہنے والوں کے لیے جوابدہی کی کمی کا باعث بنتی ہے۔
فوجی اثر: سیاسی اور سماجی شعبوں میں فوج کی بھاری شمولیت ایک فلاحی ریاست کی بجائے سلامتی پر مبنی ریاست کا باعث بن سکتی ہے جو جمہوری طرز حکمرانی اور سماجی ترقی پر کنٹرول کو ترجیح دیتی ہے۔
### نتیجہ
ایک ایسے معاشرے میں جو 77 سالون میں جانوروں کے معاشرے میں تبدیل ہوتا جا رہا ہے-جو بیرونی ریاستوں، طاقتور گروہوں اور دہشت گردوں کی اماجگاہ بن چکا ہے اور دیگر بے شمار عوامل کی وجہ سے عوام کے مفادات کے لئے سیاست کرنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے اور عام آدمی مسلسل سیاست سے دور اور متنفر ہوتا جا رہا سنجیدہ سیاست کی بجائے عام آدمی پاپولر سیاست کا شکار ہو گیا ہے اور خاص کر بائیں بازو کی سیاست سے دور ہوتا جا رہا ہے- سیاسی و جمہوری عمل سے ہی معاشرے کو درست ڈگر پرڈالا جا سکتا ہے- پاکستانی معاشرے کو جاگیردار سرمایہ دار،مزیبی و سیاسی جماعتون،امریکہ نواز پالیسیوں نے جس دوراہے پر لا کھڑا کیا ہے اس کا تقاضا ہے کہ ہمارے معاشرے کو سولہویں صدی جیسی احیائے علوم کی فکری سطح کو بلند کرنے والی تحریک کی ضرورت ہے جو سماجی بہتری کے ساتھ ساتھ عام آدمی کی شعوری سطح بلند کرنے میں معاون ہو تا کہ عام آدمی عالمی اور مقامی سیاست کو سمجھنے اور اس میں حصہ لینے،طبقاتی سیاست کو اپنانے،سیاسی لیڑر کا مرید بننے کی بجائے سیاسی پارٹی کا ورکر بننے پر آمادہ ہو سکے-