سلسلہ سیاسی تعلیم
کارل مارکس کی طرح ہیگل بھی عظیم نابغہ روزگار تھا- اس نے دریافت کیا کہ سماج،معاشرے اور تاریخ اپنے اندرونی تضادات کی بنیاد پر ترقی کرتے ہیں
سونے پر سہاگہ کہ کارل مارکس نے اس سے بھی بڑی دریافت کر ڈالی کہ معاشرے کے یہ تضادات در اصل طبقاتی تضادات ہیں-مارکسزم کے علماء نے مزید دریافت کیا کہ طبقے اور طبقاتی تضادات کا تعین،معاشرے میں طبقاتی تبدیلیوں کی وجوہات، اور ان طبقوں کے آپسی برتاو اور تعلقات کے تعین اور مطالعئہ کے لئے معاشرے اور سماج میں رایج پیداوار کے طریقہ یا طرز پیداوار ( موڈ آف پروڈکشن ) اورطبقاتی ڈھانچے کا جائیزہ لینا پڑتا ہے- کارل مارکس نے قدیم کمیونزم (غیر طبقاتی سماج)، غلام سماج، جاگیرداری اور سرمایہ داری سماجوں کو یکے بعد دیگرے پیداوار کے الگ الگ طریقوں کے طور پر شناخت کیا جو مغربی یورپ میں سامنے آئے تھے یعنی تاریخ کے مختلف ادوار میں جو مخصوص طرز پیداوار یا طریق پیداوار تھا اس کے گہرے مطالعئہ سے ہی کسی خاص عہد میں سماجی طبقاتی تقسیم،طبقاتی تضادات اور طبقو ں کے آپسی تعلقات کی نوعیت کا تعین ہو سکا-
مارکس کے نزدیک جو چیز ایک قسم کے معاشرے کو دوسرے سے ممتاز یا الگ کرتی ہے- وہ اس کی پیداوار کا طریقہ ہے- (یعنی اس کی ٹیکنالوجی یا آلات پیداوار ،ٹیکنالوجی کی نوعیت اور محنت کی تقسیم) یعنی جو بھی پیداوار ہو رہی ہے وہ شکار ہے،زراعت ہے یا صنعتی پیداوار ہےاس میں ذرا ائع پیداوار کس طرح کے استعمال ہو رہے ہیں- اور پیداوار کا ہر طریقہ ایک مخصوص طبقاتی نظام کو جنم دیتا ہے جس میں ایک طبقہ پیداوار کے عمل کو کنٹرول اور ہدایت کرتا ہے۔ پیداواری عمل میں کوئی دوسرا طبقہ ہے، یا دیگر طبقات ہیں، غالب طبقے کو براہ راست خدمات فراہم کرنے والے یا محنت فروخت کرنے والے—–ان طبقات کے درمیان تعلقات متضاد ہوتے ہیں کیونکہ وہ پیدا ہونے والی چیزوں کی نجی یا اجتماعی تقسیم پر تنازعہ کا شکار ہیں،
اور بعض ادوار میں، جب آلات پیداوار یا ٹیکنالوجی میں ترقی ہوتی ہے اور محنت کے استعمال کے نتیجے میں پیداوار کا طریقہ تبدیل ہو جاتا ہے تو پرانے پیداواری آلات کے معدوم ہونے کے ساتھ ساتھ پرانے طبقات معدوم ہوتے جاتے ہیں اورایک نیا طبقہ یا طبقات معاشرے میں پیدا ہوتے ہیں جوحکمرانوں کے تسلط کو چیلنج کرتا ہے۔
سماجی سائینس کے قوانین کے مطابق غالب طبقہ یعنی حکمران طبقہ نہ صرف مادی پیداوار بلکہ نظریات کی پیداوار کو بھی کنٹرول کرتا ہے۔ اس طرح یہ ایک خاص ثقافتی انداز اور ایک غالب سیاسی نظریہ قائم کرتا ہے، اور معاشرے پر اس کا کنٹرول ایک خاص قسم کے سیاسی نظام میں مستحکم ہوتا ہے۔ ابھرتے ہوئے طبقے جو پیداوار کے طرز اور انداز میں تبدیلیوں کے نتیجے میں طاقت اور اثر و رسوخ حاصل کرتے ہیں، حکمران طبقے کے خلاف سیاسی نظریات اور تحریکیں پیدا کرتے ہیں۔
طبقہ کیا ہے؟
کمیونسٹ مینی فیسٹو، جسے محنت کش طبقے کی بائبل کہا جاتا ہے، کلاسیکی بیان سے شروع ہوتا ہے کہ اب تک کے تمام موجودہ سماج کی تاریخ طبقاتی جدوجہد کی تاریخ ہے۔ اس لیے مارکس اور اینگلز کی نظر میں آنے والی تاریخ دو مخالف طبقات غلاموں اور غلاموں کے مالکوں، جاگیرداروں اور غلاموں ،جاگیرداروں اور کسانوں اور آخر کار بورژوا اور پرولتاریہ (سرمایہدار اور مزدور)کے درمیان جدوجہد کی تاریخ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ مارکس کے نظامِ فکر میں طبقے کی یہی اہمیت ہے۔ مارکس کا تجزیہ تاریخ کے مادیت پسند تصور کے گرد مرکوز ہے۔ تاریخ، ان کی نظر میں، نظریات کی جدوجہد نہیں ہے۔ یہ طبقاتی جدوجہد کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔
قدیم زمانے سے ہی ہر عہد کی سماجی بناوٹ،طریق پیداوار اور ذرائع پیداوار کے حوالے سے طبقہ کی مختلف اشکال اور تعریفات چلی ا رہی ہیں-مشال کے طور پر قدیم یونان دولت اور آمدنی کی بنیاد پر آبادی کو مختلف سماجی گروہوں میں تقسیم کرتے تھے-اور کچھ مقاصد کے لئے تو وہ جنس،قد،،وزن اور عمر کے مطابق آبادی کی درجہ بندی کرتے تھے-جدید زمانے میں بھی مختلف سماجی،سیاسی،معاشی اور عمرانی ماہرین نے اپنے اپنے انداز اور نقطہ نظر سے طبقوں کی تعریف کی- تاہم تاریخ کے ہر عہد نے اپنے طرز پیداوار اورمعاشی درجہ بندی کے لحاظ سے امیر اور غریب، دو قطبی طبقے پیدا کیے-
ایک اور، اتنا ہی قدیم لیکن بالکل مختلف طبقے کا تصور بھی موجود ہے جو اب بھی وسیع استعمال میں ہے اس کی تعریف یوں ہے کہ معاشرے میں ایک طبقہ طاقت و اختیار کی بنیاد پر حکم دیتا ہے جبکہ دوسرا طبقہ یا طبقات احکامات لیتے اور ان کی پیروی کرتے ہیں- ایک طاقتور طبقہ ہے جبکہ دوسرا بے اختیار طبقہ ہے- حکمران طبقہ اور حکمران طبقے کے جائیداد پر مبنی تصورات کی طرح، وہ لوگ جنہوں نے طبقے کی طاقت کی تعریفیں استعمال کیں، انہوں نے متوسط طبقے کو بھی اس میں جوڑ دیا، ہزاروں سالوں سے بہت سے لوگ معاشروں کے ڈھانچے، تبدیلیوں، مسائل اور ان کے حل کے بارے میں یہ جائزہ لیتے چلے آ رہے ہیں کہ وہ طبقہ اور طبقاتی ڈھانچے کو کیا سمجھتے ہیں ۔
انسانی تاریخ میں وقتاً فوقتاً سماجی انقلابات نے “طبقے” کو سنجیدگی سے لیا۔ اس کے بعد انقلابیوں نے معاشرے کے طبقاتی ڈھانچے کو ایک کلیدی، ضروری جزو کے طور پر تبدیل کرنے کا بیڑا اٹھایا جس کی وہ تلاش کر رہے تھے۔ ان تبدیلیوں کا خلاصہ مساوات اور جمہوریت کے قیام کے طور پر کیا جا سکتا ہے۔ طبقاتی ملکیت کے تصورات کے پابند معاشروں میں انقلابیوں نے دولت اور آمدنی کو دوبارہ تقسیم کرنے یا ابتدائی طور پر ان کی تقسیم کے طریقہ کار کو دوبارہ ترتیب دینے پر توجہ مرکوز کی۔ ان کا مقصد دولت اور آمدنی کی بہت زیادہ مساوی تقسیم تھا۔ اس کے برعکس، انقلابی جنہوں نے جائیداد کے بجائے طاقت کے لحاظ سے طبقاتی تصور پیش کیا، وہ طاقت کو دوبارہ تقسیم کرنے اور اس بات کو دوبارہ ترتیب دینے پر مرکوز تھے کہ ابتدائی طور پر طاقت کی تقسیم کیسے ہوئی۔ ان کا مقصد اقتدار کی بہت زیادہ جمہوری اور مساواتی بنانا تھا۔
یہ بات درست ہے کہ سماجی سائینسز میں ریاضی کی طرح دو جمع دو چار جیسے جوابات نہی ہوتے اسی طرح طبقے کی تعریف بھی کوئی حتمی یا ہمیشہ کے لئے طے شدہ نہی ہے تاہم کارل مارکس وہ پہلا ماہر سماجیات و معاشیات تھا جس نے سرما یہ دارانہ نظا م کا سایئنسی بنیادوں پر تجزیہ کرتے ہوئے طبقہ کی تعریف کو پیداواری عمل سے جوڑا- مارکس کے خیال میں، سماجی سطح بندی لوگوں کے ذرائع پیداوار سے مختلف تعلق سے پیدا ہوتی ہے: یا تو وہ پیداواری جائیداد کے مالک ہیں یا وہ دوسروں کے لیے محنت بیچتے یاکرتے ہیں۔
مارکس وہ فلاسفر تھا جس نے سرمایہداری نظام معیشت پر سوالات کھڑے کئے- اور پھر خود ہی اس کے جواب بھی ڈھونڈ نکالے- مارکس نے طبقے کا ایک اور نیا اور مختلف تصور دریافت ا کیا یہاں تک کہ اس نے انقلابیوں کی پچھلی نسلوں سے وراثت میں حاصل ہونے والے طبقے کی قدیم ،جائیداد اور طاقت کے تصورات کا بھی کثرت سے استعمال کیا۔ مارکس کا خیال تھا کہ ان نسلوں نے مساوات اور جمہوریت کے اپنے بنیادی اہداف حاصل نہیں کیے کیونکہ وہ تمام معاشروں میں ایک بنیادی عمل کو نہیں سمجھ پائے تھے جس نے ان کے انقلابی منصوبوں کو نقصان پہنچایا تھا۔ چونکہ انہوں نے اس عمل کو نہیں سمجھا اور اس کو تبدیل نہیں کیا، ان کے انقلابی منصوبے ناکام ہو گئے۔ یہاں تک کہ جب ان کے انقلابات نے جائیداد اور طاقت کی تقسیم میں اہم اور سماجی طور پر ترقی پسند تبدیلیاں حاصل کیں، تب بھی وہ مساوات اور جمہوریت کی اس سطح تک ترقی نہیں کر سکے جس کی وہ امید اور توقع کر رہے تھے۔ اکثر، انہوں نے جو ترقی پسند تبدیلیاں حاصل کیں وہ چند سالوں سے زیادہ برقرار نہیں رہ سکیں۔ مارکس کے لیے، ایسے محدود کامیاب انقلابات کی ذاتی طور پر تبدیلی کی مثال فرانسیسی انقلاب تھی۔جس نے جاگیرداری کا تختہ الٹ دیا لیکن آزادی، مساوات، اوربھائی چارے کے مقاصد حاصل نہیں ہوئے۔
مارکس کے لیے طبقہ یا کلاس سے مراد یہ ہے کہ کس طرح پیداوار میں، اضافی پیداوار حاصل ہوتی ہے۔ تمام انسانی معاشرے اس طرح کی اضافی چیزیں پیدا کرتے ہیں۔ تاہم، معاشروں میں اس بات میں اختلاف ہے کہ وہ اس زائد پیداوار اور اس کی تقسیم کو کس طرح منظم کرتے ہیں۔ مارکس نے واضح طور پر ایک طبقاتی ڈھانچے کی وضاحت کی جس میں وہ لوگ جنہوں نے زائد پیداوار کو کو پیدا کیا وہ ا ایک الگ طبقہ (مزدور )ہے اور وہ جنہوں نے اس زائد پیداوار کو اپنے لئے مختص کیا اور اپنی مرضی سےتقسیم کیا وہ ایک الگ طبقہ( سرمایہ دار) ہے ۔ اور اسی طرح ماضی کے غلام معاشی نظام میں، غلام پیدا ہوتے ہیں جبکہ آقاؤں نے اضافی رقم اپنے لئے مختص اور تقسیم کی۔ جاگیردارانہ معاشی نظاموں میں، کسانوں اور مزارعین نے جو زائید پیداوار پیدا کیں وہ جاگیرداروں نے اپنے لئے مختص اور تقسیم کیں – اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسانون کا وہ گروہ جو کسی ایک پیشہ،ایک ہی طرح کے آلات پیداوار و ذرایئع پیداوار سے منسلک ہو اور اپنی مھنت کی بنیاد پر زائد پیداوار تخلیق کرتا ہے وہ ایک مظلوم محنت کش طبقہ ہے اور وہ جو ذرائع پیداوار کا مالک ہے اور محنت کش کی محنت کے نتیجے میں زائد پیداوار کا مالک بن جاتا ہے اور اسے اپنے لئے مختص کرلیتا ہے وہ آقا، جاگیردار یا سرمایہ دار طبقہ ہے- اور اسی طرح ہر عہد اور ہر سماج اور طرز پیداوار میں بہت سارے حاکم اور محکوم زیلی طبقات بھی موجود ہوتے ہیں-
حکمران طبقے کا نظریہ
حکمران طبقے کے تصور اور سرمایہ دارانہ ریاست میں اس کی خصوصی اہمیت کے بارے میں ابتدائی خیالات رکھنے کے لیے ہم دی جرمن آئیڈیالوجی سے چند سطریں نقل کرتے ہیں جو مارکس اور اینگلز کی بہت اہم تصنیف ہے۔ حکمران طبقے کے نظریات ہر دور میں حکمران نظریات ہوتے ہیں، یعنی وہ طبقہ جو معاشرے کی مادی قوت پر حکمرانی کر رہا ہوتا ہے، ساتھ ہی ساتھ اپنی فکری قوت پر بھی حکمرانی کر رہا ہوتا ہے۔ وہ طبقہ جس کے اختیار میں مادی پیداوار کے ذرائع ہوتے ہیں، نتیجتاً وہ ذہنی پیداوار کے ذرائع کو بھی کنٹرول کرتا ہے تاکہ ان لوگوں کے خیالات جن کے پاس ذہنی پیداوار کے ذرائع نہیں ہیں، ان کے خیالات پوری طرح اس کے تابع ہوں۔
حکمران طبقے کی اصطلاح غالباً مارکس نے سرمایہ دارانہ معاشرے کے طبقاتی ڈھانچے اور طبقاتی تسلط کے نظام پر روشنی ڈالنے کے لیے وضع کی تھی۔ حکمران طبقے کا مطلب ہے- وہ طبقہ جو معاشی طور پر طاقتور ہے اور اس کی وجہ سے وہ سیاسی نظام کو کنٹرول کرتا ہے، اس کے حق میں کہنے کی ضرورت نہیں۔ یہی نہیں، یہ ریاست کے معاشی اور ثقافتی پہلوؤں کو کنٹرول کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ دوسروں کو ان ضروریات تک رسائی سے روکتا ہے۔ یہ ذرائع پیداوار کو کنٹرول کرتا ہے اور ساتھ ہی اس میں رکاوٹیں پیدا کرتا ہے تاکہ دوسروں کو ان پر قابو پانے کا کوئی موقع نہ مل سکے۔
حکمران طبقہ مقابلے کے امکان کو مسترد کرتا ہے۔ حکمران طبقے کے ارکان کے درمیان مقابلہ ہو سکتا ہے۔ لیکن غیر حکمران طبقے کے ارکان کو حکمران طبقے کے دائرہ کار میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ یعنی پرولتاریہ (مزدور ) ہمیشہ پرولتاریہ (مزدور) ہی رہیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ
بورژوا (سرمایہ دار) طبقہ سماج کودو تنگ حصوں میں تقسیم کرنا چاہتا تھا- انہیں اپنی بہتری کی کوئی گنجائش نہیں ملے گی۔ حکمران طبقہ بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کی صلاحیت پر اجارہ داری رکھتا ہے۔ یہ سب کچھ نہیں ہے۔ دوسرے طبقے، ایک ہی وقت میں، اگرچہ وہ ضرورت مند ہیں، کو ایسا کرنے سے روکا جاتا ہے۔ حکمران طبقے کو اختیار استعمال کرنے کی پوری گنجائش ہوگی۔
جبکہ کم از کم دائرہ کار دوسری کلاسوں کو کبھی پیش نہیں کیا جائے گا۔ حکمران طبقہ باقی تمام طبقات کو اپنے تابع کر لیتا ہے۔ حکمران طبقے کی قیادت اور کنٹرول حتمی اور بلا مقابلہ ہے۔ یہ نہ صرف مادی دنیا بلکہ فکری دنیا کو بھی کنٹرول کرتا ہے۔ معاشرے کے افکار و نظریات حکمران طبقے کے افکار و نظریات کے خلاف نہیں جا سکتے۔حکمران طبقہ اپنے مقاصد کو فوجی طریقوں سے نہیں بلکہ لطیف پروپیگنڈے اور انڈکٹرنیشن سے حاصل کرتا ہے۔ حکمران طبقے کا غالب کردار عام طور پر سول سوسائٹی میں پایا جاتا ہے۔ یہ سول سوسائٹی کے تقریباً تمام اہم پہلوؤں کو کنٹرول کرتا ہے۔