“عاشقی صبر طلب اور تمنا بے تاب”

“عاشقی صبر طلب اور تمنا بے تاب”

جب قائد اعظم محمد علی جناح ،بھگت سنگھ کے لیے لڑے تھے۔

پروفیسر امیر حمزہ ورک صدر عوامی ورکرز پارٹی پنجاب

ہندوستان اور پاکستان کی ریاستیں ہوں یا عوام ،ہمارے معاشرتی رویے دنیا بھر سے مختلف ہیں ہم پل گھڑی میں اپنے موقف بدل لیتے ہیں شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں تاریخ کی سچائی اور گہرائی کا ادراک کچھ دیر سے ہوتا ہے-اور ہم سچائی کو تاریخ میں تلاش کرنے کی بجائے اپنی اپنی   سیاسی،مذہبی،ثقافتی سوچوں میں تلاش کرنے کے عادی ہیں- ہمارا یہی رویہ  شہید اعظم بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کی شہادت کے بارے میں ہے- اور میں اس وقت بہت حیران ہوتا ہوں اور ہماری سماجی سیاسی  سوچ پر پریشان بھی ہوتا ہوں جب  برے بڑےپروفیسرز،ڈاکٹرز،اہل علم اور شعبہ تعلیم سے وابستہ افسران اور دانشوران میرے گھر کے ڈرائینگ روم میں لگی بھگت سنگھ  شہید کی تصویر کے بارے میں اکثرایک “تاریخی” جملہ پنجابی میں  بولتے ہیں

“کہ ” بھا جی سکھ وی شہید ہندے نیں”

تو میرے پاس ایک ٹھنڈی آہ بھرنے کے سوا کوئی چارہ نہی ہوتا- اور ان کے اس سوال  کا موازنہ  جب میں پاکستان کی دیگر قومیتوں خاص کر بلوچوں اور سندھیوں سے کرتا ہوں تو ان کے اس سوال کی اورزیادہ تکلیف ہوتی ہے اور اس بات پر خوشی ہوتی ہے کہ کس طرح سندھی اور بلوچ  عوام نےمذاہب،فرقوں اور تعصب کی عینک اتار کر اپنی دھرتی کے ہیروز کو مانتے،جانتے   ہیں اور ان  کو تاریخ میں محفوظ کئے ہوئے ہیں- جو ایک قابل فخر عمل ہے-ایسا کیوں ہے؟ اس کی ایک الگ سے تاریخ ہے کہ برطانوی سامراجیوں نے اور اس کے بعد پاکستانی حکمرانوں نے  پنجاب کی ساتھ کیا کیا کیا-جو اس وقت ہمارا موضوع نہی ہے

لیکن اس کے باوجود  پنجاب میں لاکھوں لوگ ہیں جن میں نوجوان طالبعلم،صحافی،وکلاء،استاد اور سیاسی کارکنان شامل ہین جن کو برطانوی سامراج  کے نو آبادیاتی نطام اور اس کے خلاف پنجاب کے بہادر عوام  اور سیاسی جماعتوں(خاص کر غدرپارٹی پنجاب اور کرتی پارٹی پنجاب اور بھگت سنگھ شہید کی نوجوان بھارت سبھا ،یاآل انڈیا سوشلسٹ رپبلکن  ایسوسی ایشن) اور کارکنوں کی  قربانیوں کا ادراک ہے-سید صبط الحسن ضیغم کی تحقیق  کے مطابق انگریزوں نے   1849 سے لیکر 1947 تک چھبیس سو 2600 پنجابیوں کو تختہ دار پر لٹکایا-المیہ صرف یہ ہے کہ اتنے بڑے اثاثے ،تاریخ اور داستان حریت کا وسیع تر پنجابی عوام کو علم نہی ہونے دیا جا رہا-  2001 میں جسٹس اے جی نورانی کی ایک کتاب  (دی ٹرائل آف بھگت سنگھ-پولیٹکس آف جسٹس) مارکیٹ میں آئی- جس میں بھگت سنگھ شہید کی قربانی ،سامراج د شمنی اور حریت پسندی کے بارے میں نئی معلومات  سامنےلائی گئیں- گو یہ بات تاریخ کے ریکارڈ میں تو پہلے سے محفوظ تھی لیکن نورانی صاحب اسے مزید سامنے لے آئےاس کتاب میں وہ لکھتے ہیں کہ۔۔۔۔

 قائد اعظم محمد علی جناح نے بھگت سنگھ کے لیے بھرپور آواز اٹھائی تھی۔متحدہ ہندوستان کی مرکزی اسمبلی کے اجلاس منعقدہ شملہ میں 12 ستمبر 1929 کو قائد اعظم نے حکومت برطانیہ کو آڑے ہاتھوں لیا جبکہ گاندھی اور اُن کے چاہنے والے خاموش بیٹھے ہوئے تھے۔ بھگت سنگھ اور اس ساتھیوں نے مقدمے میں فئیر ٹرائل کا حق نہ ملنے پر بھوک ہڑتال کر رکھی تھی اور ہوم ممبر (وزیر داخلہ) نے اسمبلی میں مسودہ قانون پیش کیا کہ ملزم کی غیر حاضری میں ہی مقدمہ چلا کر سزا دی جائے۔ اس پر محمد علی جناح نے جو بمبئی سے رکن اسمبلی منتخب ہوئے تھے، ہوم ممبر کی اس تجویز کا سختی کے ساتھ رد کرتے ہوئے کہا 

کیا” آپ بھوک ہڑتال سے بدتر تشدد کسی بھی چیز کو سمجھتے ہیں؟ ان (ملزمان) کا یہ فعل درست ہے یا غلط لیکن آپ پر اس کا رتی” بھر اثر نہیں ہو رہا۔ میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ کسی بھی ملزم کے بنیادی قانونی حقوق کس طرح چھین سکتے ہیں؟ آپ کو یہ اختیار کس نے دیا ہے کہ آپ کریمنل جیورس پروڈنس کا اہم ترین اصول اپنے مفاد کے لیے تبدیل کر سکیں؟ ہر شخص بھوک ہڑتال کی اذیت برداشت نہیں کر سکتا ۔۔۔۔ اگر یہ اس قدر آسان ہے تو ہوم ممبر خود بھوک ہڑتال کر کے دیکھ لیں ۔۔۔ چاہے مختصر وقت کے لیے ہی سہی ۔۔۔۔ لیکن آپ ایسا نہیں کر سکیں گے کیونکہ آپ کے اندر ارادے کی وہ مضبوطی اور عزم نہیں جو بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں میں ہے۔ آج ہندوستان اٹھ کھڑا ہوا ہے، تیس کروڑ لوگ اپنے حقوق کے لئےاٹھ کھڑے  ہوئے ہیں لیکن آپ یہ نہیں دیکھ رہے کیونکہ آپ دیکھنا نہیں چاہتے۔ آپ  کے پاس صرف آپ کی اپنی منطق ہے ۔۔۔۔ سفاک منطق! آج اگر ہندوستانی حقوق چاہتے ہیں تو یہ کوئی انہونی یا انوکھی بات نہیں۔ دنیا کے متعدد مالک میں ایسی تحاریک چل رہی ہیں۔ صرف نوجوان ہی نہیں، سفید بالوں اور داڑھیوں والے بزرگ بھی ایسے افعال کرنے پر مجبور ہیں جنہیں آپ اپنی منطق کے مطابق جرم کہتے ہیں”۔

(12 ستمبر1929  کوقائد اعظم کی متحدہ ہندوستان کی لیجیسلیٹو اسمبلی کے اجلاس میں تقریر سے اقتباس)

—-مزید وضاحت اور بھگت سنگھ کے مقدمہ پر جیو نیوز کا یہ وڈیودیکھئے

بھگت سنگھ شہید کا  ہندوستان سے کوئی تعلق نہی: بھگت سنگھ شہید پاکستان کے ضلع لائیل پور جسے اب فیصل آباد کہا جاتا ہے کے ایک گاؤں بنکہ میں 1907 میں پیدا ہوئے اسی پنجاب میں وہ جدوجہد کرتے رہے یہیں لاہور میں ان پر مقدمہ چلا اور یہیں 23 مارچ 1931 کو انھیں اور ان کے دو ساتھیوں سکھ دیو، اور راج گرو کو سزائے موت دے دی گئی-بھگت سنگھ ایک ایسے خاندان میں پیدا ہوا تھا جو انگریزوں کے خلاف آزادی کی جدوجہد میں اپنی شمولیت کے لیے جانا جاتا ہے۔ ان کے والد کشن سنگھ اور چچا اجیت سنگھ اور سورن سنگھ برطانوی سامراج کے سخت مخالف تھے۔ بھگت سنگھ کے بچپن کی یادوں میں جلیانوالہ باغ کا المناک قتل عام بھی شامل ہے جہاں جنرل ڈائر کے حکم پر تقریباً 400 افراد جو ویساکھی منا رہے تھے مارے گئے تھے۔ اس وقت بھگت سنگھ کی عمر صرف 12 سال تھی۔

بھگت سنگھ نے صرف بھورے حکمرانوں یا سفید فاموں سے آزادی حاصل کرنے کے تصور کی مخالفت کی کیونکہ اس سے آزادی کا مقصد پورا نہیں ہوگا۔ ‘نوجوان سیاسی کارکنوں کو’ کے عنوان سے ایک خط میں، اس نے لکھا: “آپ ‘انقلاب زندہ باد’ کا نعرہ لگاتے ہیں، میں مان لیتا ہوں کہ آپ واقعی اس سے مراد آزادی لیتے  ہیں۔  اس اصطلاح کی ہماری تعریف کے مطابق، جیسا کہ اسمبلی بم کیس میں ہمارے بیان میں کہا گیا ہے، انقلاب کا مطلب ہے موجودہ سماجی نظام کا مکمل خاتمہ اور اس کی جگہ سوشلسٹ نظام کا قیام ہے… ہم اسے چھین کر اپنے آئیڈیل یعنی سماجی تعمیر نو کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں، یعنی مارکسی بنیادوں پر ہمیں اپنے سماجی پروگرام کے لیے ایک سازگار ماحول پیدا کرنے کے لیے لوگوں کو تعلیم دینا ہوگی۔

انہوں نے مزید سوال کیا کہ: “اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟… چاہے لارڈ ریڈنگ ہندوستانی حکومت کا سربراہ ہو یا سر پرشوتم داس ٹھاکر داس، اگر سر تیج بہادر سپرو ،لارڈ ارون کی جگہ لے لیتے ہیں تو کیا فرق پڑتا ہے؟” ان کا خیال تھا کہ آزادی کی جدوجہد کو اس نظام کے خلاف مرکوز کرنا چاہیے جو استحصالی حکمران طبقے کو جنم دیتا ہے۔

بھگت سنگھ کی زندگی کا ایک اہم واقعہ سائمن کمیشن کی لاہور آمد تھی۔ لاہور ریلوے سٹیشن پر سینکڑوں افراد کمیشن کے خلاف احتجاج کر رہے تھے کہ پولیس نے لاٹھی چارج شروع کر دیا۔ جس کے نتیجے میں معروف سیاست دان اور مظاہرین کے رہنما لالہ لاجپت رائے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے پولیس افسر سکاٹ کے بجائے ایک اور پولیس افسر کو مار ڈالا، جس نے لاٹھی چارج کا حکم دیا تھا۔

تحریک آزادی کو کچلنے کے لیے برطانوی سامراج نے اسمبلی میں دو متنازعہ بل پبلک سیفٹی بل اور ٹریڈ سیفٹی ایکٹ پیش کئے۔ نتیجے کے طور پر، بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں نے اسمبلی ہال میں بے ضرر پٹاخے پھینک کر احتجاج کیا۔ کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی کیونکہ مقصد توجہ حاصل کرنا تھا۔ بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں نے رضاکارانہ طور پر پولیس کے سامنے ہتھیار ڈال دیے تاکہ وہ اپنے پیغام کو پھیلانے کے لیے ٹرائل کورٹ کا استعمال کر سکیں۔ ‘تقسیم کرو اور حکومت کرو’ کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے برطانوی سامراج آزادی اور سماجی انصاف پر یقین رکھنے والے کسی کو بھی برداشت کرنے کے موڈ میں نہیں تھے۔ بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں  سکھ دیو اور راج گروکو 23 مارچ 1931 کو پولیس افسر کے قتل کے جرم میں پھانسی دے دی گئی۔

بھگت سنگھ کی تاریخی قربانی کو مختلف ثقافتوں سے نکلنے والی مختلف لوک کہانیوں میں یاد کیا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے ہم اپنی مٹی کے اس بیٹے کو سرکاری طور پر اپنانے سے ڈرتے ہیں جو موجودہ پاکستان میں پیدا ہوا اور  یہیں شہید ہوا۔

لالہ لاجپت رائے کون تھا جس کا بدلہ بھگت سنگھ نے لیا؟

لالہ لاجپت رائے  1865 کو لدھیانہ ضلع کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے ان پر الگ سے ایک مضمون لکھا جائے گا  اس وقت ان کا تعارف کرانا اس لئے ضروری ہے کہ ایک تو وہ  ایک عظیم سامراج دشمن،مخیر اور پاکستان دوست سیاسی راہنماء تھے  جن کے ہم پاکستانیوں پر بہت سے احسانات ہیں-انھوں نے لاہور میں کئی تعلیمی ادارے اور ہسپتال قائم کئے جن میں نیشنل کالج اور شہرہ آفاق چیسٹ ہسپتال گلاب دیوی ہسپتال زیادہ مشہور ہیں – محترمہ گلاب دیوی ان کی والدہ کا نام ہے جو تپ دق کے مرض سے انتقال کرگئیں تھیں اور ان کی یاد میں  لالہ لاجپت رائے نے یہ ہسپتال بنایا جس سے آج بھی پنجاب اور پاکستان کی مخلوق خدا استفادہ کر رہی ہے

لالہ لاجپت رائے کا دوسرا بڑا احسان پاکستان کا تصور پیش کرنا ہے آپ کے لئے یہ بڑی عجیب بات ہو گی کیونکہ ہم پاکستان کے تعلیمی اداروں میں تاریخ،تحریک پاکستان اورمطالئہ پاکستان کے نام پر جو جھوٹ پڑھتے آ رہے ہیں یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ ہمیں سچ کا پتہ نہی ہے-پاکستان کے ممتاز تاریخ دان زاہد چودھری اپنی کتاب ’پاکستان کی سیاسی تاریخ‘ میں لکھتے ہیں کہ لالہ لجپت رائے نے سنہ 1924 میں لاہور کے ایک اخبار ’ٹربیون‘ میں ایک مضمون لکھا تھا۔ اس مضمون میں پہلی مرتبہ برصغیر کی مذہبی بنیادوں پر تقسیم کا منصوبہ پیش کیا گیا تھا۔ اس منصوبے کے مطابق ’مسلمانوں کی چار ریاستیں ہوں گی، صوبہ سرحد، مغربی پنجاب، سندھ اور مشرقی بنگال۔ اگر ہندوستان کے کسی اور علاقے میں مسلمانوں کی اتنی تعداد یکجا ہو کہ ان کا صوبہ بن سکے تو ان کی بھی اسی طرح تشکیل ہونی چاہیے لیکن یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ یہ متحدہ ہندوستان نہیں ہو گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہندوستان واضح طور پر مسلم انڈیا اور غیر مسلم انڈیا میں تقسیم ہو گا۔

پاکستان کے ایک اورتاریخ دان حسن جعفر زیدی لکھتے ہیں کہ بانی پاکستان محمد علی جناح نے مارچ 1940 کے جلسے میں تقریر کرتے ہوئے انھی دنوں چھپی اندر پرکاش کی کتاب نکالی جس میں لالہ لجپت رائے کا ایک خط شامل تھا جو انھوں نے 16 جون 1925 کو کانگرس کے صدر سی آر داس کو لکھا تھا۔ بانی پاکستان نے یہ پورا خط پڑھ کر سُنایا جس میں لالہ لاجپت رائے نے جو لکھا اس کا لب لباب یہ تھا: ’میں مسلمانوں کی تاریخ اور فقہ پڑھ کر اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ ہندو اور مسلمان اکٹھے نہیں رہ سکتے۔ آپ کو ہمارے لیے کوئی راہ نجات نکالنی چاہیے۔”

بات ہم نے بھگت سنگھ شہید سے شروع کی تھی بیچ مین لالہ لاجپت رائے کا زکر اس لئے ضروری تھا کہ   ایک تو وہ محسن پاکستان ہیں ان کے بنائے  ہوئے تعلیمی اور صحت کے اداروں سے ہم آج تک استفادہ کر رہے ہیں پھر پاکستانیوں کو درست تاریخ بھی بتانا ضروری ہے کہ تصور پاکستان کن کن لوگوں نے پیش کیا-اور بھگت سنگھ شہید ایک وفادار اور بہادر گھرانے کا فرد تھا جس کے چچا اجیت سنگھ کو انگریزوں نے کالے پانی کی سزا سنائی تھی اور پھر وہ خود ہندوستان کی آزادی کے لئے جدوجہد کر رہا تھا تو پھر 1928 میں جب سائیمن کمیشن پاکستان آیا تو قائد اعظم نے بھی اس کا بائیکاٹ کیا اور لالہ لاجپت راے نے لاہور ریلوے سٹیشن پر سائیمن کمیشن کے خلاف ایک بڑے جلوس کی قیادت کی-پولیس نے لاٹھی چارج کیا اور اسی تشدد کے نتیجے میں لالہ لاجپت رائے کی موت واقع ہوئی بھگت سنگھ کو اپنے اس  محسن اور آزادی پسند لیڈر کی موت کا بہت دکھ ہوا اور اس کا بدلہ لینے کے لئے بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں نے اس انگریزپولیس آفیسر پر حملہ کیا جو اس تشدد اور لالہ لاجپت رائے کی موت کا زمہ دار تھا لیکن غلطی سے کوئی اور پولیس مین مارا گیا اور پھر دیگر مقدموں کے ساتھ اسی مقدمے میں بھگت سنگھ،سکھ دیو اور راج گرو کو لاہور جیل میں 23 مارچ 1931 کو پھانسی دے دی گئی—غالب نے درست ہی کہا تھا کہ۔۔۔۔۔۔۔۔

وفاداری بشرط استواری اصل ایمان ہے

مرے بت خانے میں تو کعبے میں گاڑو برہمن کو

2 thoughts on ““عاشقی صبر طلب اور تمنا بے تاب””

  1. جلیاں والا باغ کے واقعہ کے 20 سال بعد 13 مارچ 1940 کو ادھم سنگھ نے لیفٹیننٹ جنرل مائیکل ایڈوائر کو گولی مار کر برطانیہ میں قتل کر دیا تھا ۔ادھم سنگھ امرت سر واقعے کا عینی شاہد مائکل ایڈوائر اس وقت پنجاب کا برطانوی لیفٹث گورنر تھا جبکہ کرنل ڈائر نے باغ میں قتل عام کو عملی جمع پہنایا تھا۔ ناموں کی قدرے مماثلت کی وجہ سے ہم ڈائر اور ایڈوائر کو مکس اپ کر دیتے ہیں۔ادم سنگھ کو مقدمے کے دوران جب نام پوچھا گیا تو اس نے کہا کہ میرا نام رام محمد سنگھ ازاد ہے انہیں برطانیہ میں پھانسی دے دی گئی تھی
    ایک اور دلچسپ تاریخ بھی ہے۔برطانوی فوجیوں کی بیر کی ضرورت پوری کرنے کے لیے 1860 میں راولپنڈی کی تحصیل مری میں بریوری قائم گئی تھی جس کا انتظام چلانے والا جلیانوالہ باغ قتل عام کے مجرم کرنل ڈائر کا والد تھا
    بھگت سنگھ کے بارے میں قائد اعظم کی تقریر کا ریفرنس ممتاز بھارتی صحافی کلدیپ نیر کی کتاب’ بھگت سنگھ اور جہد انقلاب” کے صفحہ 99میں بھی ملتا ہے جس کا ترجمہ فہمی ممتاز ترقی پسند شاعرہ فہمیدہ ریاض نے کیا اور جسے آکسفورڈ پریس نے شائع کیا تھا
    اس کے پیش لفظ میں کہا گیا ہے اسی چوک کے بارے میں ایک کہانی مشہور ہے کہ پاکستان کے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کے بعد یہ کہانی ہزاروں باہر دہرائی گئی ہوگی نواب محمد احمد خان قصوری (احمد رضا قصوری کے والد) اس وقت قومی اسمبلی کے رکن کو اسی چوک پر گولی ماری گئی تھی بھٹو پر اسی قتل کا الزام تھا جب اٹومیٹک ہتھیاروں سے گولیاں داغی گئیں اس وقت احمد رضا قصوری یہ چوک پار کر رہے تھے ان کے والد برابر میں بیٹھے تھے گولیاں والد کو لگی اور وہ جانور نہ ہو سکے جہاں انہیں گولیاں لگی بھگت سنگھ کا پھانسی گھاٹ اسی جگہ تھا برسوں پہلے ان انقلابیوں کی لاشوں کی شناخت کرنے والے سرکاری افسروں میں قصوری کے دادا بھی شامل تھے۔
    بھگت سنگھ کے بارے میں قائد اعظم کی تقریر کا ذکر پاکستانی صحافی شریف فاروق کی کتاب” قائد اعظم جناح بر صغیر کا مرد حریت” کے صفحہ 204 پر بھی ملتا ہے
    پنجاب میں شادی کی روایت کے مطابق دولہا جب گھوڑی پر بیٹھتا ہے تو اس کی بہنیں گھوڑے کی باگ پکڑ کر گیت گاتی ہیں اور دولہا پھر انہیں شگن دیتا ہے
    بھگت سنگھ کی پھانسی کے بعد اس وقت ہندو، مسلم، سکھ اور عیسائی عورتوں نے یہ گھوڑی گائی تھی

    پھانسی چم لے بھگت سنگھ ویرا
    تے بنیاں میں اپ کٹ لوں

    راجگرو تے سکھ دیو سر بالے
    چڑیا تو ای وشکار وے ہاں
    باغ پھڑائی تیھتوں بہنا نے لینی
    بھناں دا رکھیں ادھار وے ہاں

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *