“شیطان کی مجلس شورا”
پروفیسر بابر پطرس
سرمایہ داری کے سب سے بڑے “ٹھیکہ دار” امریکہ کے اوول آفس میں ڈونلڈ ٹرمپ اور یوکرائن کے صدر زیلنسکی کے درمیان ہونے والے مکالماتی تصادم پر دنیا دم بخود تھی۔ تجزیہ نگار اس واقعہ پر حیران تھے کہ یہ وائٹ ہاؤس میں رونما ہونے والا،اپنی نوعیت کا انوکھا واقعہ ہے، جس میں نام نہاد سفارتی آداب بالا طاق رکھتے ہوئے، اس کی دھجیاں اڑا دی گئی ہیں۔ لیکن حقیقت میں یہ اتنا بھی انوکھا واقعہ نہیں تھا۔ ایک ختم ہوتے ہوئے نظام میں،ٹرمپ ایسے پراپرٹی ڈیلر اور نرگسییت کے شکار مطلق العنان “حاکم” سے، جو ماحولیاتی تبدیلی اور گلوبل وارمنگ کی عفریت کا سرے سے ہی انکاری ہو، ایسے شخص سے کچھ بھی توقع کی جا سکتی ہے۔ فرق محض اتنا ہے کہ اس بار یہ “اسٹیج ڈراما” مخصوص ہال میں مخصوص ناظرین کی بجائے براہ راست ٹی۔وی کی اسکرینوں پر تمام دنیا نے دیکھا ہے۔ اس سے قبل سامراج کی غنڈہ گردی، اس کی مکروہ چالیں، کم زور معیشتوں کے وسائل کو لوٹنے کی سازشیں، کرہ ارض کے نقشہ پر مختلف خونی لکیریں کھینچنے کی وارداتیں اور مختلف سامراجی معاہدات ، حکومتوں کو بنانے اور گرانے کے منصوبے ، پس پردہ ہوا کرتے تھے؛ اور دنیا ان “وارداتوں” سے اس وقت آگاہ ہوتی، جب ان کو مختلف سامراجی دھڑے، ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرنا چاہیں، یا ان کے نتائج سے سبق حاصل کر کے بہتر “پالیسیاں” مرتب کرنا مقصود ہو، یا کوئی انقلابی حکومت ان معاہدات اور خفیہ دستاویزات کو پپلک کر دے۔ جیسا اکتوبر انقلاب کے بعد سویت یونین کی مزدور حکومت نے مشرق وسطی کی بندر بانٹ کے سامراجی معاہدوں کا انکشاف کیا تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ سامراج کا لوٹ مار والا استحصالی کردار ماضی سے مختلف نہیں ہے۔اس کی شدت اور حدت میں ضرور فرق آتا ہے۔ ٹرمپ کے طاقت میں آنے، اور اس کی جارحانہ پالیسیوں نے سرمایہ داری اور اس کے “محافظ” کے غیر انسانی کردار کو بری طرح سے بے نقاب کیاہے، اور امریکہ کے بہ طور عالمی طاقت کے زوال پذیری کے عمل کو مزید تیز کر دیا ہے۔ دم توڑتا ہوا نظام اور اس کے سب سے بڑے محافظ کی جارحانہ پالیسیاں، اس کی تاریخی شکست کی غمازی کر رہی ہیں۔ سرمایہ داری ایک ایسے عہد میں داخل ہو چکی ہے کہ جہاں آگے جانے کے راستے معدوم ہو چکے ہیں۔ اس لیے ماضی کی رجعت پوری طاقت سے وارد ہو رہی ہے۔
جس طرح سے ٹرمپ سرحدوں پر دیواریں بنا کر ،یا خاردار تاریں لگا کر،سرحدی “محافظ دستوں” کی نفری بڑھا کر، اور امیگریشن کے قوانین کو سخت تر کر کے، انھیں “محفوظ” بنا رہا ہے، یا ملکوں پر ٹیرف لگا کر اور انھیں ڈرا دھمکا رہا ہے، یہ دراصل ڈی گلوبل ائزیشن کا عمل ہے، جو تاریخ کے پہیے کو پیچھے کی طرف دھکیلنے کی کوشش ہے۔ امریکی سیاست میں ڈونلڈ ٹرمپ، اس کے وزیر، مشیر اور اس کے حواریوں کا گروہ دراصل شیطان کی ایسی مجلس شوری ہے۔ جو کوئی اچانک طاقت میں نہیں آئی، بل کہ یہ مظہر سماج میں موجود ابتری، بے چینی اور انتشار سے برآمد ہوا ہے۔ جب سماج آگے کی طرف بڑھ کر آبادی کی وسیع پرتوں کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کی صلاحیت کھو دیں۔ ذرائع پیداوار ، پیداواری قوتیں اور سرمایہ باہم متصادم ہو جائیں، تو ماضی کی تمام تر فرسودہ آلائشوں کو سر اٹھانے کا موقع میسر آ جاتا ہے۔قوم پرستی کا زہر سماج کی رگ و پے میں سرایت کرنے لگتا ہے۔ اس کیفیت میں سیاست، اپنے معروض کے عین مشابہ ، کرداروں کو تراش لاتی ہے، جو سماج کو قوم پرستی اور نسلی تعصب کی بنیاد پر چلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ٹرمپ اسی زوال پذیر بل کہ زوال زدہ امریکی سماج کی مجسم شکل ہے۔
وہ امریکی سماج سمیت پوری دنیا کو قوم پرستی کی گہری دلدل میں دھکیلتا جا رہا ہے۔ “امریکہ فرسٹ ” یا ” میک امریکا گریٹ اگین” کا نعرہ انتہائی رجعتی ہے، جو دنیا بھر میں قوم پرستی اور تعصب کی راہ ہم وار کرے گا۔ یہ ایسا زہریلا نشتر ہے،جو سب سے پہلے تعاون کی نفسیات کو گھائل کرکے، نفاق کو جنم دیتا ہے، جب کہ دنیا کی آج تک کی ترقی باہمی تعاون کی بدولت ہے۔ یوکرائن کے صدر کے ساتھ ہونے والا مکالمہ واضح کرتا ہے کہ سرمایہ داری اپنا وقت پورا کر چکی ہے، اور اس کا مزید چلتے رہنا، عالم گیر یت کے وجود کے لیے کس قدر خطرناک ہے۔ ہر بڑی طاقت کی نطر، کم زور ملکوں کے وسائل پر ہے۔روس، یوکرائن جنگ بندی کے معاہدہ کی بحث اور ٹرمپ کی ضد کے پیچھے یہی عنصر کا فرما ہے۔ وہاں انسانوں کا بہتا ہوا خون ، مدد کے لیے چلاتی ہوئی عورتیں کی صدائیں اور بچوں کی آہ زاری ، طاقت کے ایوانوں میں بے معانی ہے۔اس جنگ کو روس نے مسلط کیا یا یوکرائن نے جوابی کاروائی میں دفاعی ردعمل کے ذریعے میزائل داغے۔ یہ بحث بھی غیر متعلق ہو چکی ہے۔ ہر دو صورتوں میں سب سے بڑا نقصان دو وقت کی روٹی کھانے والا کا ہوتا ہے۔وہ محکوم یوکرائن میں ہوں یا روس میں یا فلسطین میں یا دنیا کے کسی بھی کونے میں ہوں۔ کیوں کہ ان کے پاس نہ تو “پرامن ممالک” میں شفٹ ہونے کی طاقت ہوتی ہے، نہ ان کی اولادیں ان قدرتی گل زاروں میں بے فکری مدام میں زندگی گزارنے کی سکت رکھتی ہی۔ ان کے پاس محض دو ہی راستے ہوتے ہیں کہ یا تو وہ حکم رانوں کی جنگوں میں گولا بارود اور مزائلوں کا سامنا
،کرتے ہوئے خاک کا پیوند ہو جائیں، یاطبقاقتی بنیادوں پر اپنے مقدر کا فیصلہ اپنے آہنی ہاتھوں میں لے کر ہر جعلی تقیسم،
تفریق اور جنگوں کے خلاف متحد ہو جائیں- ان خاک نشینوں کے لیے عام حالات میں جینا آسان نہیں ہوتا
،جنگ تو اپنے ساتھ بھوک اور افلاس کے لشکر لے کر آتی ہے، اس میں زندگی کرنا تو درکنار، آبرو مندانہ طریقے سے قبر بھی نصیب نہیں ہوتی۔
یہ فطرت کا قانون ہے کہ معروضی صداقتیں ایک وقت میں درست ہوتی ہے جب کہ دوسرے وقت میں یہ اپنے الٹ میں بدل جاتی ہیں۔ سرمایہ داری اپنے عہد کے انقلاب آفریں کردار کی نسبت، اب پیداواری قوتوں کے پاوں کی زنجیر بن گئی ہے۔ جو اس بات کا اظہار ہے کہ یہ نظام محض بربریت کو جنم دے گا۔ امریکہ کا یورپ کے “دفاع” کے بدلے، ان کے معدنی وسائل پر قبضہ اور توسیع پسندی کے پیش نظر کئی دیگر ممالک کو براہ راست اپنی ریا ست میں شامل کرنے کے عزائم،” نئے ولڈ آرڈر ” کا پیش خیمہ ہیں۔ امریکہ کا یہ کردار اپنے ماضی سے بالکل الٹ ہے۔
یورپ اپنے دفاع کے لیے الگ فوج اور ہتھیار وں پر خطیر بجٹ خرچ کرنے کی پالیسی بنا رہا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ دنیا میں انسانی فلاح اور بہتری کی بجائے سرحدوں کو محفوظ بنانا اہم ہے۔ حفاظت کے نام پر اسلحہ سازی کی صنعت فروغ پائے گی، اور انسان مزید بے روزگاری، لاعلاجی اور مفلسی کے اتھاہ میں گر جائے گا۔ سرحدیں اور ان کے دفاع کے ہتھیار دراصل سماج کے بالائی طبقات کے مفادات کے دفاع کے ہتھیار ہیں۔ جن سے انسانیت کے مستقبل کو خطرہ لاحق ہے۔
امریکہ چین کی آپسی رسہ کشی ہو یا ایران کے ساتھ کشیدہ تعلقات یا نیٹو سے باہر نکلنے کا اعلان یا روس اور جنوبی کوریا سے مراسم کی استواری کی خواہش یا بیرونی جنگیں نہ لڑنے کی یقین دہانی یا سب سے پہلے امریکہ ، یہ سب دراصل سرمایہ داری کی تعفن زدہ لاش کو مصنوعی سانسیں دینے کی شعوری کوشش ہے۔ لیکن اس کی قیمت پوری دنیا کے محنت کش طبقے کو، بھاری ٹیکسوں، مہنگائی، کٹوتیوں اور جنگوں کی صورت ادا کرنا پڑ رہی ہے۔ اس بڑھتی ہوئی عفریت، جنگی جنون اور گردش ایام کو ماضی کی طرف موڑ کر ، گلوبل ولیج کو الگ تھلگ مقامی سرحدوں میں جکڑ دینے والی سرمایہ داری کی یلغار کو، نظریات سے لیس قیادت اور انقلابی مزدور تحریک ہی رک سکتی ہے۔ یقینا یہ سامراج کے بطن سے جنم لے کر ،لالچ اور انفرادی بقا کے گھٹیا نظریے سے پاک ایک متحد اخلاص و محبت بھر جہان کی نوید بنے گی
t3j816
Thanks