شنگھائی تعاون تنظیم ( SCO)
ایک منصفانہ عالمی نطام کے لئے کوشاں
پروفیسر امیر حمزہ ورک
اکتوبر16–17 2024- کو پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنطیم کا اہم ترین اجلاس منعقد ہورہا ہے جس پر ساری دنیا میں تبصرے ہو
رہے ہیں کہ پاکستان جیسا ملک جو 77 سال امریکی” نو آبادی” کا درجہ رکھتا تھا وہاں پر اس امریکہ مخالف اتحاد کا سربراہی اجلاس ہونا بہت معنی خیز ہے- جس سے پاکستان کی اندرونی سیاست اور جنوبی ایشیائی و مشرق وسطی تک کی سیاست کے رخ کا تعن کرنا مشکل نظر نہی آتا-
یہ ایک یوریشیائی(یورپ اور ایشیاء) سیاسی، اقتصادی اور عسکری تعاون تنظیم ہے جسے شنگھائی میں سنہ 2001ء میں چین، قازقستان، کرغیزستان، روس، تاجکستان اور ازبکستان کے رہنماؤں نے قائم کیا-شنگھائی تعاون تنظیم سیاسی، اقتصادی اور معاشی تعاون کی تنظیم ہے – اس وقت اس کا نام شنگھائی 5 تھا جب اور ممالک بھی اس میں شامل ہونے لگے تو اس کا نام بدل کر شنگھائی تعاون تنظیم رکھ دیا گیا- 10 جولائی 2015ء کو اس میں بھارت اور پاکستان کو بھی شامل کیا گیا۔ 2023 میں ایران بھی ایس سی او کا مستقل رکن بن گیا ہے-اس کے علاوہ تین ممالک افغانستان،بائیلارس اور منگولیا مبصر کا درجہ رکھتے ہیں- ایس سی او میں کچھ ممالک کا درجہ ڈائیلاگ پاٹنر کا بھی ہے جس میں آرمینیا،آزربائیجان،کمبوڈیا، نیپال، سری لنکا,اس کے علاوہ قطر،مصر،سعودی عرب اورترکی شامل ہیں-
اسلام آباد سربراہی اجلاس کئی اہم ایجنڈوں پر توجہ مرکوز کرے گا جیسے:
1- دہشت گردی کا مقابلہ کرنا: ایک بنیادی ایجنڈا آئٹم سرحد پار دہشت گردی سے نمٹنے اور رکن ممالک کے درمیان سیکورٹی تعاون کو بڑھانا ہوگا۔ اس میں دہشت گردوں کو پناہ دینے والے ممالک کو الگ تھلگ کرنے اور علاقائی انسداد دہشت گردی کے ڈھانچے کو مضبوط کرنے کے اقدامات شامل ہیں۔
2- اقتصادی تعاون: سربراہی اجلاس میں تجارت اور سرمایہ کاری کے اقدامات سمیت اقتصادی تعاون پر زور دیا جائے گا اور
“میک اِن انڈیا” پہل کو عالمی اقتصادی ترقی کے لیے ایک ممکنہ انجن کے طور پر نمایاں کیے جانے کی توقع ہے، خاص طور پر گلوبل ساؤتھ کے ممالک کے ساتھ شراکت کو فروغ دینا۔
3- موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی تحفظ: پائیدار طریقوں اور آب و ہوا سے لچکدار انفراسٹرکچر کے ذریعے موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔ یہ ایس سی او کے ماحولیاتی تحفظ اور پائیدار ترقی کے وسیع تر اہداف سے ہم آہنگ ہے۔
4-کثیر الجہتی مکالمے کو تقویت دینا: سربراہی اجلاس کا سب سے اہم موضوع “کثیر جہتی مکالمے کو مضبوط بنانا- ایک پائیدار امن اور خوشحالی کی طرف جدوجہد کرنا” ہوگا۔ یہ بڑھتی ہوئی عالمی کشیدگی کے درمیان رکن ممالک کے درمیان تعاون کو فروغ دینے کے عزم کی عکاسی کرتا ہے۔
5-علاقائی استحکام اور سلامتی: بات چیت کا مرکز علاقائی استحکام کو بڑھانے، جاری تنازعات سے نمٹنے اور کثیر قطبی عالمی نظام کو فروغ دینے پر بھی ہوگا۔ اس میں گزشتہ دو دہائیوں کے دوران تنظیم کی سرگرمیوں کا جائزہ لینا اور مستقبل میں تعاون کے لیے حکمت عملی بنانا شامل ہے۔
(میک ان انڈیا حکومت ہند کی طرف سے ایک پہل ہے جو کمپنیوں کو ہندوستان میں مصنوعات تیار کرنے اور اسمبل کرنے اور مینوفیکچرنگ میں وقف سرمایہ کاری کو ترغیب دینے کے لیے تخلیق اور حوصلہ افزائی کرتی ہے۔)
اس تنظیم کے مضبوط مقاصد دہشت گردی، علیحدگی پسندی اور انتہا پسندی کی تین “برائیوں” کا مقابلہ کرنے کے ساتھ ساتھ رکن حکومتوں کے درمیان تعاون کی مختلف شکلوں کو فروغ دینا ہے۔ تاہم، ان بیان کردہ اہداف کے علاوہ، تنظیم وسطی ایشیا میں امریکی اور دیگر مغربی اثر و رسوخ کو محدود کرنے کی کوشش کرتی ہے، شنگھائی تعاون تنظیم کے بارے میں چین- روس اور بھارت کے اپنے اپنے تصورات ہیں-
روس کا نقطہ نظر
پیوٹن اور ان کے حامیوں کے بیانات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اسے صرف ایک ابھرتے ہوئے اتحاد کے طور پر نہیں دیکھتے بلکہ اسے امریکی بالادستی جسے ماسکو امریکی غلبہ والے عالمی نظام کے طور پر دیکھتا ہے۔ کا مقبلہ کرنے میں ایک اہم کردار ادا کرنے کے طور پر دیکھتا ہے جب سے یوکرائن کی جنگ چھڑی ہے اور امریکہ اور مغربی ممالک نے کھلے عام یوکرائین کو اسلحہ اور مالی امداد دینی شروع کی ہے روس شنگھائی تعاون تنطیم کو امریکہ کے حلاف ایک سیاسی اور فوجی اتھاد کے طور پر دیکھنا چاھتا ہے- شاید یہی وجہ ہے کہ اس کانفرنس میں سب سے بڑا وفد روس کا آیا ہے جو 76 افراد پر مشتمل ہے جس مین ہر شعبہ زندگی کے ایکسپرٹ اور حکومتی عہدےدار شامل ہیں جو یقیناٰ” پاکستان کے ساتھ سیاسی اقتصادی اور دیگر شعبؤں میں تعاون بڑھانے کے خواہشمند ہیں تاکہ پاکستان امریکی شکنجے سے باہر نکلنے کے قابل ہو سکے اگر ایسا ہوتا ہے تو یقینا” اس کا پاکستان کے ساتھ ساتھ امریکہ مخالف ممالک کو بھی فائدہ ہو گا- ماضی میں ایسی ہی عالمی صورتحال سے ہندوستان نے خوب فائیدہ اتھایا ہے-
چین کا نقطہ نظر
روسی صدر پوٹن کے خیالات سے چینی قیادت سر دست متفق نہی دکھائی دیتی- شنگھائی تعاون تنظیم کو سیاسی اور فوجی اتحاد کے طور پر دیکھنے کے بجائے، بیجنگ اسےعسکری اتحاد کی بجائے اقتصادی تعاون کے علاقائی اتحاد یا بلاک کے طور پر زیادہ دیکھتا ہے-
دوسرا، چین، قازقستان اور کرغیزستان کے امریکہ کے ساتھ روس اور ازبکستان کی نسبت سے بہتر تعلقات ہیں۔ اگرچہ سابقہ سوویٹ یونیں کی ریاستیں (بشمول نام نہاد جمہوری کرغیزستان) امریکی جمہوریت سازی کی آڑ میں سازشوں کی کوششوں سے ہوشیار ہیں اور ہر ایک واشنگٹن کے ساتھ برابری کی بنیاد پر اچھے تعلقات برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ نہ چین، قازقستان اور نہ ہی کرغزستان امریکہ کے ساتھ اپنے تعاون کو صرف اس لیے کم کرنے پر آمادہ ہے کہ شاید پوٹن ان کی خواہش کرے۔ کیونکہ چین کی طے شدہ پالیسی ہے کہ وہ ہر قسم کی فوجی کشیدگی سے دور رہے گا اور وہ نہی چاھتا کہ اس خطے میں کوئی اور یوکرائن یا افغا نستان کی طرز کی جنگ شروع ہو جائے-
تیسرا، جہاں ایک طرف ماسکو چاہتا ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم بیجنگ کی خواہش سے زیادہ فوجی اتحاد بن جائے، تو دوسری طرف کئی روسی مبصرین چین کی بڑھتی ہوئی طاقت اور طاقت کے بارے میں بھی خدشات ظاہر کرتے ہیں کیونکہ روس اور چین میں ماضی کے برعکس اب ایک کیفیتی تبدیلی موجود ہے کیونکہ روس اب ایک سرمایہ دار ملک ہے اور چین ابھی تک سوشلزم پر قائم دائم ہے- – چینی اصولوں کے تحت شنگھائی تعاون تنظیم بین الاقوامی نظم کےصدر ژی جن پنگ کے امن کےوژن کو آگے بڑھانے کے لیے گاڑی کی حیثیت رکھتی ہے ۔ آستانہ میں شی جن پنگ کے ریمارکس سے پتہ چلتا ہے کہ چین گلوبل سیکورٹی سسٹم انیشیٹو میں شامل ایک متبادل وژن کو مزید تقویت دینا چاھتا ہے ۔ اس لئے چین کے نقطہ نظر سے ایس سی او زرخیز زمین دکھائی دیتی ہے۔ گزشتہ ہفتے کے ایس سی او کے اعلامیے میں میزائل ڈیفنس سسٹم کی “یکطرفہ اور غیر محدود تعمیر” کی مذمت کی گئی تھی جسے وسیع پیمانے پر امریکہ پر کی ایک پتلی درپردہ تنقید کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اعلامیے میں یوکرین میں روس کی جنگ کا بھی ذکر نہیں کیا گیا۔
شی جن پنگ نے چین کی شنگھائی تعاون تنظیم کی قیادت کے لیے ایک پرجوش ایجنڈا پیش کیا اور کہا کہ یہ تنظیم متعدد شعبوں میں سرگرمیوں کو وسعت دے گی، جس میں سیاسی جماعتوں کا فورم بلانا اورتجارت میں مقامی کرنسیوں میں لین دین کو فروغ دینا بھی شامل ہے-اس طرح امریکی ڈالر پر انحصار کم ہو گا۔ اور گروپ کے اندر ایک “فنانسنگ پلیٹ فارم” تیار کرنا۔
چین شنگھائی تعاون تنظیم مین سلامتی اور تحفظ کے لیے “عالمی مرکز” قائم کرنے کا ارادہ بھی ظاہر کرتا ہے جس کی مختلف “شاخیں”ہہیں جس کا مقصد تنظیم کے اراکین ممالک کو انٹیلی جنس شیئرنگ اور انسداد منشیات میں تعاون کو بڑھانے کے ذریعے “چیلنجوں اور خطرات” سے نمٹنا ہے
امریکی نقطہ نظر
امریکہ کو شنگھائی تعاون تنظیم کے قیام اور اس کے ایک اقتصادی و سیاسی فورم کے طور پر تو تشویش ہے لیکن اس کی نگائیں اس تنظیم پر اس لئے بھی لگی ہوئی ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ شنگھائی تعاون تنظیم روسی صد ر کے خواہشات کے آگے سر تسلیم خم کر لے اور اسے ایک فوجی اتحاد میں بدل دیا جائے اور یہ ماضی کے وارسا پیکٹ کی طرز پر نیٹوکے ہم پلہ فوجی اتحاد نہ بن جائے-امریکہ کو اس تنظیم میں ازبکستان کی شمولیت پر بھی اعترض تھا کیونکہ سنٹرل ایشیائی ممالک میں ازبکستان سخت امریکی ناقدین میں شمار کیا جا تا ہے اور ازبکستان نے ہی اپنے ملک سے امریکی فوجوں کو نکالنے میں اہم کردار ادا کیا-ازبکستان کو سبق سکھانے کے لئے امریکہ سنترل ایشین ستیٹس خاص کرقازقستان،کرغیزستاں وغیرہ سے امریکہ اپنے تعلقات بہتر رکھنا چاھتا ہے اور اسی وجہ سے ان ممالک کے ازبکستان کے ساتھ تعلقات کشیدگی کا شکار ہیں- امریکہ کو اس بات کا بھی خدشہ ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے زریعے ماسکو اور بیجنگ پورے وسطی ایشیا میں امریکی فوجی موجودگی کو ختم کرنے کی کوشش کر سکتا ہیں اور تاشقند نے اسے ازبکستان میں ختم کر دیا، سینٹرل ایشیاء کے دیگر اراکین ممالک نے امریکہ اور نیٹو کے ساتھ فی الحال اپنے فوجی تعاون کو جاری رکھنے یا اس کو بڑھانے کی کوشش بھی کی ہے۔ اگرچہ واشنگٹن میں یہ تشویش تھی کہ امریکہ کرغیزستان میں اپنی فوجی تنصیبات کو بھی کھو دے گا، لیکن اس نے انہیں برقرار رکھا۔
اس کے علاوہ، قازقستان نے نیٹو پارٹنرشپ فار پیس پروگرام کے ساتھ اپنے تعاون کو وسعت دی ہے۔ تاجکستان نے فرانسیسی افواج کی میزبانی جاری رکھی ہویی ہے، اور یہاں تک کہ ازبکستان نے جرمن افواج کی میزبانی جاری رکھی ہے۔امریکہ کو اس تنظیم میں ایران کی شمولیت بھی بہت تلملاء رہی ہے اور اسے اس بات کا خدشہ ہے کہ روس اور چین ایران کی ایٹمی ٹیکنالوجی کے حصول میں مدد گار ہو سکتے ہیں
بھارت دوغلے پن کا شکار ہے
بھارت شنگھائی تعاون تنظیم کے مغرب مخالف موقف سے بے چین ہے آستانہ میں ہونے والے سربراہی اجلاس میں بھی وزیر اعظم مودی نہی گیا اور اب پاکستان میں ہونے والے اجلاس میں بھی شرکت نہی کی اور اپنے وزیر خارجہ کو بھیج دیا- اصل میں
نئی دہلی شنگھائی تعاون تنظیم کو چین کے زیر تسلط پلیٹ فارم کے طور پر دیکھتا ہے اور 2020 کی دونوں ملکوں کے مابین خونریز سرحدی جھڑپوں کے بعد سے چین بھارت تعلقات مسلسل تناؤ کا شکار ہیں مودی کو کسی بھی قیمت پر چین کی قیادت میں ہندوستانی حمایت یا اپنا سیاسی سرمایہ قرض دینے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ہندوستان نے 2017 میں ایس سی او میں پاکستان کے ساتھ ہی شمولیت اختیار کی، یہ مانتے ہوئے کہ ایس سی او سےالگ تھلگ رہنے سے اسلام آباد کو ہندوستان پر تنقید کرنے کا ایک بلا مقابلہ پلیٹ فارم ملے گا۔ یہ تشویش واضح طور پراہمیت اور وجہ رکھتی ہے؛ اگر مودی اس سال کے سربراہی اجلاس میں شریک ہوتے تو وہ پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف کی طرف سے بھارتی ریاستی سرپرستی میں دہشت گردی کے بالواسطہ الزامات کو برداشت کرنا پڑتا-
پاکستان کے لئے کتنا اہم ہے؟
اب کسی کو اس میں شک نہی ہونا چاھئے کہ چین شنگھائی تعاون تنظیم کے پلیت فارم سے ایک منصفانہ عالمی نطام کے لئے کوشاں ہے-شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کے رہنماؤں نے ہمیشہ کہا ہے کہ یہ تنظیم نیٹو کا متبادل نہیں ہے۔ لیکن شنگھائی تعاون تنظیم کی وسعت کو “کثیر قطبی عالمی نظام” کے مرکز کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جس کی روس اور چین وکالت کر رہے ہیں- جس طرح شنگھائی تعاون تنظیم کے اندر وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ روس اور چین کے تعاون کے نتیجے میں خطے میں امریکی فوجی موجودگی ختم ہو گئی اور وسطی ایشیائی ممالک پر مغربی ممالک کا اثر و رسوخ کم ہو گئی- اس طرح مبصرین کا خیال ہے پاکستان اور ایران کے ممبر بننے اور سعودی عرب کا بطور ڈائیلاگ پارٹنع شنگھائی تعاون تنظیم میں شامل ہونا پاکستان سمیت جنوبی ایشیاء میں امریکی بالادستی کے خاتمے کی شروعات ہے- حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب کا فیصلہ فن لینڈ کی نیٹو کی رکنیت کے موافق سمجھا جا رہا ہے جس نے ایک بار پھر شنگھائی تعاون تنظیم کا نیٹو مخالف امیج عوام کے سامنے لایا ہے۔
اس بات کی متعدد وجوہات ہیں کہ روس اور چین کثیر قطبی عالمی نظام کے لیے اس پالیسی پر عمل پیرا ہیں- روس اور چین کے بالترتیب روس کی یوکرین جنگ اور چین کے تائیوان کے معاملے کی وجہ سے امریکہ کے ساتھ تعلقات خراب ہو رہے ہیں- دونوں ممالک امریکہ کی بالادستی، نیٹو کی توسیع، روس اور چین کے خلاف امریکہ اور یورپی یونین کے اشتراک اور امریکہ کے زیر اثر بعض بین الاقوامی تنظیموں کے دوہرے معیارات سے ناراض ہیں – پاکستان کے لیے، امریکا ان کے مفادات کے خلاف جابرانہ پالیسی پر گامزن ہے، اور ایس سی او کی رکنیت امریکی طاقت کے توازن کے لیے اہم ہے۔ افغانستان میں طالبان شنگھائی تعاون تنظیم کے ذریعے اپنی طاقت کو قانونی حیثیت دینا چاہتے ہیں کیونکہ ایران مغرب کی طرف سے مسلط کردہ اپنی بین الاقوامی تنہائی سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا ہے۔۔
گزشتہ کئی سالوں سے پاکستان میں جو سیاسی انتشار ہے اور عالمی طور پر پاکستان کو یک و تنہا کرنے کی امریکی پالیسی کو اسی پش منطر میں دیکھنے کی ضرورت ہے 1950 کے بعد سے لیکر اب تک پاکستان میں ہر ھکومت کی تبدیلی اور نئی حکومت کے قیام میں بالواسطہ یا بلا واسطہ امریکی سامراج ملوث رہا ہے حتی کہ ٹیلی فون پر حکومتیں تبدیل ہوتی رہیں-امریکہ نے ہر اس پاکستانی حکمران کو سزا دی جس نے آزادی اور خودمکتاری کا راستہ اختیار کیا-امریکہ نے پاکستان میں عدالتی،فوجی اور سول بیورو کریسی کے ذرایعے اپنے پنجے گاڑے لیکن اب موسم بدل رہا ہے ایس سی او کانفرنس سمیت جس کے بہت سے شواہد سامنے آ رہے –
اس کانفرنس کے پاکستان پر مثبت اثرات مرتب ہونگے جس میں سی پیک پارٹ ٹو کی شروعات سب سے اہم ہو گی اور اندرون ملک جو سیاسی انتشار ہے ان قوتوں کو بھی صدر ذرداری کے ایک بیان کے ذرایعے اس کانفرنس کے ھوالے سے پیغام دے دیا گیا ہے