سوشل ڈیموکریسی اور مارکسزم

رانا اعظم

ہم چاہیں گے کہ زیادہ توجہ سوشل ڈیموکریسی   کی بنیاد پر دی جائے یہاں سے اس کے سوتے پھوٹے ہیں تاکہ اگلی بات سمجھ آ سکے ۔

سوشل ڈیموکریسی کی بنیاد 1868 میں باکونین نے جنیوا میں “سوشل ڈیموکریسی اتحاد ” نامی جماعت سے رکھی ۔ باکونین 1814 – 76 روسی پیٹی بورثوا انقلابی تھا ۔ پیدائشی طور پر اشرافیہ سے تعلق رکھتا تھا ۔ نظریاتی طور پر انارکسٹ تھا  ۔ انا رکسزم پر آگے چل کر بات کریں گے ۔ 1836 سے  1840 تک  باکونین نے ماسکو میں رہ کر فشٹے اور ھیگل کا مطالعہ کیا اور ھیگل کے فلسفہ کی رجعت پرستانہ تشریح کی ۔ 1840 میں ینگ ھیگلین سوسائٹی میں شامل ہو گیا  ۔ انقلاب 1848-50 میں پراگ میں حصہ لیا  ۔روس واپسی پر 1851 میں جیل چلا گیا۔ 1857 میں سا ئبیریا جلا وطن ہوگیا۔ 1857 میں سائبیریا سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا۔ 1860- 70 دہائیاں مغربی یورپ میں ہرزن اور اوگارو کے اشتراک میں گزاریں۔ یورپ میں گزارے گئے دنوں میں مارکسزم کے خلاف انارکسٹ تحریک کو منظم کرنے میں سرگرم رہا ۔

آئیے ذرا مختصر انارکزم پر مختصر بات کرتے ہیں ۔ انارکزم پیٹی بورثوا ںظریہ ہے جو ہر قسم کی اتھارٹی کا مخالف ہے ۔ پیٹی بورثوا ملکیت کو سماج کی ترقی کی بنیاد قرار دیتا ہے ۔ انارکزم فلسفہ کی بنیاد انفرادیت ، موضوعیت سے ہے۔ انارکزم  پرودھون، شمٹ اور باکونین کے یوٹوپیائی نظریات پر ہے جن کی مارکس اور اینگلز ہمیشہ مخالف کرتے رہے ۔انارکزم کو 19ویں  صدی میں فرانس، اٹلی اور سپین میں کچھ جگہ ملی ۔

اب ہم اپنے اصل موضوع سوشل ڈیموکریسی کی طرف آتے ہیں  ۔ انارکزم پر اس لیئے بات کرنا پڑی کہ انارکزم اور سوشل ڈیموکریسی میں باکونین اور پیٹی بورثوا یت و دیگر مشترکہ بنیاد ہیں ۔ باکونین نے 1868 میں سوشل ڈیموکریسی اتحاد کے پروگرام میں ،  کہ ہم تمام طبقات کی مساوات اور سٹیٹ کے خاتمہ کے حق میں ہیں حالانکہ بعد ازاں پرولتاری ڈکٹیٹر شپ کے نظریے کو رد کرکے یہ کہنا شروع کر دیا کہ مزدور طبقہ کی الگ سیاسی پارٹی بنانے کے کوئی معنی نہیں ہوتے ۔ الائنس کے ممبر اس بات کی مخالفت کرتے تھے کہ مزدور طبقہ سیاسی جدوجہد میں اترے ۔ 1869 میں سوشل ڈیموکریسی اتحاد نے پہلی انٹرنیشنل سے اپیل کی کہ وہ اسے اپنے ساتھ شامل کرے ۔ انٹرنیشنل والوں نےاس شرط پر اتحاد کیا کہ وہ خود کو علیحدہ جماعت کی حیثیت سے توڑ کر شامل ہوں ۔ تاہم جب انٹرنیشنل سے منسلک ہو چکے ۔ تب بھی اتحاد کے ممبروں نےانٹرنیشل ورکنگ مینز ایسوسی ایشن کے اندر خفیہ تنظیم باقی رکھی اور ان کے لیڈر کی حیثیت سے باکونین نے انٹرنیشنل پر نکتہ چینی اور حملوں کا سلسلہ جاری رکھا ۔آخر جب انٹرنیشنل کی کانگرس 1872 میں ھیگ میں ہوئی تو زبردست اکثریت کے ساتھ اتحاد کے لیڈروں باکونین اور گیلیلیوم کو انٹرنیشنل سے خارج کر دیا گیا ۔

کارل مارکس ” لوئی بونا پارٹی کی آٹھارویں برومیر ” میں سوشل ڈیموکریسی  بارے لکھتا ہے  “بورثوا زی کی مخلوط پارٹی کے مد مقابل چھوٹی حیثیت کی بورثوازی اور مزدوروں کی مخلوط صف آرائی ہوئی۔ جس کا نام سوشل ڈیموکریٹک  پارٹی تھا ۔ 1848  جون کے دنوں کے بعد چھوٹی بورثوازی نے دیکھا کہ وہ پیچھے رہ گئ ہے اور اس کےمادی مفاد کو چوٹ پہنچی۔ وہ مزدوروں کے نزدیک اگئ ۔ پرولتاریہ کی سماجی مانگوں میں سے انقلابی دھارانکال دیا گیا اور ان پر اشتراکی قلعی ہوگئ ۔ اس طرح سوشل ڈیموکریٹک پارٹی نمودار ہوئی ۔سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کا اپنا کردار اس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ریپبلکن اداروں کا مطالبہ کرنے لگی ۔ اس غرض سے نہیں کہ وہ دونوں انتہاوں یعنی سرمایہ اور مزدوری کا صفایا کر دیا جائے  بلکہ اس غرض سے کہ سرمایہ اور مزدوری میں جو ٹکراؤ ہے  اس کا زور توڑ کر باہمی تال میل پیدا کر دیا جائے ۔ اس غرض کے حصول کے لیے چاہے کتنے ہی نسخے تجویز کئے جائیں۔ کم وبیش انقلابی نیت سے اس میں چاہے کتنے ہی بناو سنگار کیے جائیں بہرحال اندرونی حقیقت میں کوئی فرق نہیں پڑتا  ۔ چھوٹی بورثوازی اصولی طور پرایک خودغرضانہ طبقاتی مفادات ہی لاگو کرنا چاہتی ہے ۔ اسی طرح تنگ نظری سے یہ بھی نہ سوچنا چاہیے کہ ڈیموکریسی کے جتنے نمائندے ہوتے ہیں وہ سبھی پیٹی بورثوا کے نمائندے ہوتے ہیں۔ اپنی تعلیم اور انفرادی حیثیت کے لحاظ سے  ان لوگوں میں بھی زمین وآسمان کا فرق ہوسکتا ہے” ۔

ہمارے نزدیک سوشل ڈیموکریٹک ماڈل سرمایہ دارانہ طرز زندگی کی ایک شکل ہے ۔ اس لیئے کہ وہ سماج کی بنیادی ساخت کو یوں کا توں رکھنے کے حق میں ہے ۔ سرمایہ دارانہ تاریخ میں سوشل ڈیموکریسی مختلف وقتوں اور مختلف شکلوں میں کردار ادا کرتی رہی ہے ۔ یورپ کے بعض ممالک میں سوشل ڈیموکریٹس نے نے آزادانہ طور پر حکومتیں بنائیں اور بعض ممالک جن میں کیمونسٹ پارٹیاں طاقت رکھتی تھیں  مثلا 1970 کی دہائی میں اٹلی اور فرانس کی مثالیں ان میں کیمونسٹ پارٹیوں کی مدد سے حکومتیں بنائیں بلکہ اٹلی میں تو امریکی دباؤ نے کیمونسٹ پارٹی کو اقتدار سے الگ کر دیا ۔ پارٹی نے اقتدار کی غرض سے اپنے آپ کو سوویٹ یونین سے فاصلے پر کر لیا ۔ پھر اٹلی سے کیمونسٹ پارٹی  گدھے کے سر سے سینگ طرح  غائب ہوگئ ۔

نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم

نہ ادھر کےہوئے نہ ادھر کے ہوئے

  بحر حال سرمایہ داری دیلور کرنے کی پوزیشن میں رہی تو یورپ میں سوشل ڈیموکریسی  بھی نظر آتی  رہی ۔ یونہی سرمایہ داری ہچکولے کھانے لگی تو سوشل ڈیموکریسی بھی  لیبر پارٹی کی شکل اختیار کر گئی۔ اسی طرح ہندوستان میں بھی سوشل ڈیموکریسی کچوکے کھا رہی ہے ۔

کہنا ہم یہ چاہتے ہیں کہ سوشل ڈیموکریسی اور مارکسزم میں  ناقابل حل تضادات موجود ہیں اور رہیں گے جیسے کہ

طبقاتی تضاد  : سوشل ڈیموکریسی تمام طبقات کی مساوات کی علمبردار ہے ۔1

2 سوشل ڈیموکریسی طبقاتی جماعت کی ضرورت سے انکاری ہے اور محنت کشوں کی سیاست کے میدان میں اترنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتی

3  محنت کشوں اور تیسری دنیا( پسماندہ دنیا) کے استحصال سے انکاری ہے

4 سرمایہ داری کے استحصالی کردار سے انکاری ہے

5 سامراج کے وجود کی منکر ہے

6 انقلاب کی ضرورت کو غیر ضروری سمجھتی ہے

5 thoughts on “سوشل ڈیموکریسی اور مارکسزم”

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *