سعادت حسن منٹو– مضمون– سرخ انقلاب

 

وسعت ارضی کے لحاظ سے یورپ میں روس سے بڑی کوئی حکومت نہ تھی اور بلحاظ مطلق العنان زار یورپ کے بادشاہوں میں سب سے بڑا بادشاہ تھا۔ روسیوں نے اسے شان الوہیت دے رکھی تھی۔ وہ اس کی غلامی کو اپنی سعادت اور اس کے ہر حکم کی تعمیل کو اپنا فرض سمجھتے تھے۔ زار کی زبان کا ہر لفظ، لفظِ الٰہی تھا۔ اس کے قلم کی ہر جنبش فرمان ربانی، وہ جسے چاہتا سزا دیتا اور جس کو چاہتا، تختہ دار پر لٹکا دیتا۔ اس کی نظروں میں مجرم اور بے جرمی کا مفہوم کچھ نہ تھا۔ ہر سزا کے لئے صرف ارادہ سلطانی کافی تھا جو کسی طرح ٹل نہیں سکتا تھا۔ رعایا اسی میں خوش تھی کہ غیروں کی ٹھوکریں کھانے سے یہ تذلیل بہتر ہے۔ وہ اپنے بادشاہ کے ہر ظلم کو برداشت کرتے تھے۔ ا س لئے کہ وہ ان کا آقا تھا۔ اس کی ہر خواہش ان کی خواہش تھی۔۔۔ ا س لئے کہ وہ ان کا باپ تھا اور اس کی ہر بولی فرمان الٰہی تھی۔۔۔ ا س لئے کہ وہ ظل الٰہی تھا۔

  مگر دیکھتے ہی دیکھتے زمین پر رینگنے والے روسی اٹھے اور عقابوں کی طرح فضا کی بلندیوں میں پرواز کرنے لگے۔ اب جس چیز کو وہ شہد سمجھ کر چاٹ رہے تھے، زہر سمجھ کر زار کے منہ پر تھوکنے لگے۔ اطاعت کیش سرمتمردانہ کھینچنے لگے۔۔۔ ہر شخص آزادی کی قدرو قیمت سے واقف ہو گیا۔ کورنش بجا لانے والے ہاتھ اٹھے اور زاریت کی گردن کو ہمیشہ کے لئے دبا دیا۔ یہ سب کچھ کس طرح ہوا؟ اس مختصر مقالے میں روس کے اس عظیم الشان انقلاب کا ایک ہلکا سا نقشہ پیش کرنے کی سعی کی گئی ہے۔

 ’’الگزنڈر اول جب اپنی کثیرالتعداد فوجیں لے کر نپولین کو موت کے گھاٹ اتارنے کے لئے فرانس کی طرف بڑھ رہا تھا تو اسے مطلق خبر نہ تھی کہ اس کے سپاہی اپنے ساتھ ایسے جراثیم لائیں گے جو تخت و تاج کے لئے مہلک ثابت ہوتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ نپولین کی فوجیں جس جگہ پہنچیں انہوں نے نوک سنگین سے انقلاب کے بیج بوئے۔‘‘ نپولین کی قائم کی ہوئی سلطنت واٹرلو کے میدان میں فنا ہو گئی اور وہ خود نظر بند ہو کر سینٹ ہلینا کی صحت رُبا غربت میں پہنچ گیا۔ اس کے بعد جب روس کے سپاہی جو عموماً کسان تھے، اپنے گھروں کو واپس لوٹے تو ان کے سینے مشعل آزادی سے منور تھے۔

۱۸۱۷ء میں روس کے سپاہیوں نے ایک خفیہ انجمن بنائی۔ اس کا نام ’’انجمن نجات‘‘ تھا۔ اس میں تین خیالوں کے آدمی شامل تھے۔ ایک طبقہ مرادیف کے رفقا کا تھا، جو انگریزوں کے دستور کو پسند کرتا تھا۔ دوسرا گروہ نکولائی تو رگنیف کے رفیقوں کا تھا، جو صرف کاشتکاروں اور مزارعوں کی آزادی کا طالب تھا۔ تیسرے طبقے کا رہنما پال پستل تھا۔ یہ لوگ کامل جمہوریت کے طالب گار تھے اور تخت و تاج کو نیست و نابود کر دینا چاہتے تھے۔ چونکہ اس انجمن میں اصولی اختلاف تھا۔ ا س لئے یہ کوئی مفید کام کئے بغیر ٹوٹ گئے اور اس کی جگہ ایک اور انجمن نے لے لی۔ جس کا نام ’’انجمن فلاح‘‘ تھا۔ اس کے سرگرم اراکین میں سے ایک پستل تھا اور دوسرا مشہور روسی شاعر رائی لیف پستل فوج کا عہدہ دار تھا۔ اسے تبدیل کر کے جنوبی روس میں بھیج دیا گیا۔ جہاں اس نے اپنی سوسائٹی کو بہت مضبوط کر لیا۔ اب ’’انجمن فلاح‘‘ کی دو شاخیں ہو گئیں۔ شمالی شاخ رائی لیف کے ماتحت تھی اور دستوری حکومت چاہتی تھی۔ جنوبی شاخ پستل کے ماتحت تھی اور جمہوریت کی خواہاں تھی۔

۱۸۲۵ء میں الگزنڈر اول کا انتقال ہو گیا۔ اس کے بعد تخت کا وارث اس کا بھائی کا نستنتائن تھا، لیکن چونکہ الگزنڈر اول اپنے اس بھائی سے ناراض تھا، ا س لئے اس نے اپنے سب سے چھوٹے بھائی کو ولی عہد بنا دیا تھا، لیکن اس وصیت سے سب بے خبر تھے۔ ا س لئےکانستنتائن کی بادشاہی کا اعلان کر دیا۔ گو اس وقت بظاہر دو بادشاہ تھے، لیکن حقیقتاً ایک بھی بادشاہ نہ تھا۔ ’’انجمن فلاح‘‘ کے کارکنوں نے اس موقع سے فائدہ اٹھا کر بغاوت کا علم بلند کر دیا۔ چونکہ یہ بغاوت دسمبر ۱۸۲۵ء میں ہوئی تھی، ا س لئے یہ ’’دسمبریوں کی بغاوت‘‘ کے نام سے مشہور ہے اور اس بغاوت میں شریک ہونے والوں کو ’’دسمبریوں‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔

 پستل دوران بغاوت میں جنوبی روس میں گرفتار کر لیا گیا۔ رائی لیف نے لینن گراڈ میں ہنگامہ برپا کر کے شاہی محل کی بنیادیں ہلانا چاہیں مگر نکولس کی آتش بازی کے سامنے اس کی کوئی پیش نہ چلی اور وہ گرفتار کر لیا گیا۔ پستل میدان جنگ میں بارود اور گولیوں سے کھیلنے والے جرنیل نے دوران مقدمہ میں اپنے ایک ساتھی کا نام بتا دیا۔ اس پر تمام باغی پکڑے گئے، مگر غیر مرئی اشیاء کا مطالعہ کرنے والے شاعر رائی لیف کو عدل و انصاف کے بھیانک پتلے مرعوب نہ کر سکے۔ وہ آخر وقت تک کہتا رہا کہ سارا جرم اس کا ہے اور باقی سب بے گناہ ہیں۔ نکولس نے اس بغاوت کے پانچ سرکردہ رہنماؤں کو پھانسی پر لٹکا دیا اور باقی ’’دسمبریوں‘‘ کو سائبیریا کے یخ بستہ میدانوں میں جلاوطن کر دیا۔ آتش انقلاب کو سرد کرنے کے لئے رائی لیف اور پستل تختہ دار پر لٹکا دیے گئے۔

 اب نکولس نے جبر و تشدد اور فنا کو بادہ ہر جام کر دیا۔ تمام اصلاحات روک لیں۔ طلبہ اور اخبار نویسوں پر علی الخصوص سخت پابندیاں عائد کیں۔ درس گاہوں میں فلسفے اور اقتصاد کی تعلیم ممنوع قرار دے دی۔ نکولس نے تیس سال تک ایک جابر اور قاہر بادشاہ کی طرح حکومت کی۔ جاسوس اور سنسر اس کے تاج و تخت تھے۔ اس کی حکومت کا مداوا استبداد کے سوفاروں پر تھا۔ ہر روسی کی زندگی اور موت کے درمیان جاسوس حائل تھے۔ خاموشی اور اظہار کے درمیان سنسر کا پردہ لٹک رہا تھا۔ کلک ادیب ضبط کر لی گئی تھی۔۔۔ ایک لاکھ پچاس ہزار روسی جلاوطن کر دیے گئے تھے اور لاکھوں انسان روسی زندانوں کی رونق بڑھا رہے تھے۔

غرضیکہ نکولس کے عہد حکومت میں روس کی حالت بے حد نازک ہو گئی تھی۔ اس کی خارجی حکمت عملی نے اسے تمام یورپ میں بدنام کر دیا۔ اس نے پولستان کو روس سے ملحق کر دیا۔ روس کی آمدنی سے چالیس فیصد فوج پر خرچ کیا جاتا۔ نکولس اپنی فوج پر بہت نازاں تھا، لیکن کریمیا کی جنگ میں اسے ان کی کمزوری کا احساس ہوا۔ وہ سپاہی جو نپولین کی فوجوں کو تنگ کرتے رہے، ترکی اور برطانوی سنگینوں کا مقابلہ نہ کر سکے۔ اس دوران میں عوام کی آنکھوں سے زاریت کے رعب کا پردہ اٹھ گیا۔ روس نے جنگ کریمیا کے بعد وہی کیا جو جرمن نے جینا کے بعد کیا تھا۔

۱۸۵۵ء میں نکولس کی وفات کے بعد اس کا بیٹا الگزنڈر دوئم تخت پر بیٹھا۔ اس نے اپنے باپ کی عائد کردہ تمام پابندیاں دور کرنا شروع کر دیں۔ اخباروں سے سنسر اٹھا لیا۔ ۱۸۶۱ء میں اس نے کاشت کاروں کو کچھ مراعات بھی دیں۔ اب نظام حکومت کی کچھ خوبیاں بروئے کار آنے لگیں۔ اسی دوران میں ’’عدمیوں‘‘ کا ایک گروہ پیدا ہو گیا جو بادشاہوں کو موت کے گھاٹ اتارنا سب سے بڑی خدمت سمجھتا تھا۔ ’’عدمیوں‘‘ کی اصطلاح روس میں سب سے پہلے تورگنیف کے ناول ’’اخلاف و اسلاف‘‘ میں نظر آتی ہے۔ یہ ناول ۱۸۶۲ء میں شائع ہوا۔ تورگنیف دیکھتا ہے کہ دانش گاہوں کے طالب علم اپنے نظریہ حیات میں عوام سے بالکل جدا ہیں۔ وہ ان میں نئی روح کارفرما دیکھتا ہے۔ فی الحقیقت یہ عدمی اپنی قسم کے واحد لوگ تھے۔ عدمی لڑکے اپنے بالوں کو کندھوں پر اٹھائے ماسکو کے گلی کوچوں میں چکر کاٹتے۔ وہ عوام سے بلاتکلف گفتگو کرتے اور تجدید پسندی کا درس دیتے۔ عدمی لڑکیاں ترشوائے ہوئے بالوں سے لوگوں کو اپنی طرف مائل کرتیں۔ نیلگوں چشموں نے ان کے دانش مندانہ چہروں کی زینت کو دوبالا کیا ہوتا۔۔۔ جہالت کدہ روس میں حسن انقلاب کی دعوت دے رہا تھا۔‘‘

 الگزنڈر بہت کمزور دل تھا۔ ملک کی بری حالت دیکھ کر اکثر اس کے دل میں اصلاح کا جذبہ پیدا ہوتا مگر اس کے دربار کے منحوس کوؤں کی کائیں کائیں اسے کچھ کرنے نہ دیتی۔ جب اس کے مشیر اس سے یہ کہتے کہ اصلاحات سے سلطنت ضائع ہو جائے گی تو ہمدردی کا جذبہ اس کے دل میں سرد پڑ جاتا۔ تاہم اس نے اصلاحات کے دامن سے اشک شوئی کی کوشش کی مگر عدمی ان طفل تسلیوں کو خاطر میں نہ لانے والے تھے۔ وہ فوری تغیر کے آرزو مند تھے۔ وہ اشتراکی نظام حکومت کے خواہاں تھے، چونکہ مرکزی حکومت میں ان کو اقتدار حاصل تھا اس لئے وہ اپنے عقائد کی نشرواشاعت میں مصروف ہو گئے۔ اعلیٰ درس گاہوں سے مبلغ تبلیغ کے لئے نکل آئے۔ ہر مبلغ آزاد تھا کہ وہ جس طرح چاہے اپنے عقائد لوگوں تک پہنچائے۔ اسی دوران میں الگزنڈر پر دو مرتبہ ناکام حملے ہوئے۔ انجام کار ۱۸۸۱ء میں ایک نوجوان لڑکی نے اسے مہلک طور پر زخمی کر دیا اور ایک گھنٹے کے بعد روس کی فضا میں اس بادشاہ نے سانس لینا بند کر دیا۔

 الگزنڈر دوئم کی وفات کے بعد اس کے بیٹے الگزنڈر ثالث نے حکومت کی۔ اس کے عہد میں جبر و تشدد کا بازار خوب گرم ہوا۔ سائبیریا کے زندانوں میں صدہا محبان وطن ٹھونس دیے گئے۔ آزادی کے پرستاروں کے لئے یہ سخت مصائب کا دور تھا۔ قہر و غضب کی تلوار ہر روسی گردن پر معلق ہو چکی تھی۔۔۔ لیکن آزادی کا یہ سیلاب ایسے بند باندھنے پر نہ رک سکا۔ بادشاہت رعایا کے مقابلے کی تاب نہ لا سکی۔ استبداد کی آندھیاں ٹمٹاتے چراغوں کو گل کر سکتی ہیں مگر انقلاب کے شعلوں پر ان کا کوئی بس نہیں چلتا۔ نوجوان روسی اپنے سینوں میں انتقام کی آگ سلگاتے ہوئے بڑھے اور بڑھتے رہے۔

 ۱۸۹۴ء میں الگزنڈر ثالث کا انتقال ہو گیا اور نکولس ثانی زار بنا، جو خاندان رومانوف کا بہادر شاہ تھا۔ یہ زار روس کا آخری بادشاہ تھا۔ ۱۹۰۵ء میں جاپان کے ساتھ اس کی جنگ ہوئی۔ اس میں روس کی شکست نے باشندگان روس کو نظام حکومت کا اور بھی زیادہ دشمن کر دیا۔ ۱۹۰۵ء میں مزدوروں نے اپنی شکایت کو زار کے بند کانوں تک پہنچانے کی غرض سے ایک مظاہرہ کیا۔ مزدوروں کے اس گروہ پر حکومت کی طرف سے گولیاں برسائی گئیں۔ صد ہا مزدور مشعل آزادی پر پروانہ وار فدا ہو گئے۔

روسی محبان وطن میں تراتسکی اور لینن بھی شامل تھے۔ ولادی میرا یلچ لینن ۱۰ اپریل ۱۸۷۰ء کو ایک زمیندار کے گھر پیدا ہوا۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ قازان یونیورسٹی میں داخل ہوا۔ بچپن ہی میں اس کے خیالات بہت انقلابی تھے۔ ابھی اسے یونیورسٹی میں داخل ہوئے صرف ایک ماہ ہی گزرا ہوگا کہ طلبہ کی تحریک انقلاب میں حصہ لینے کی بنا پر اسے وہاں سے نکال دیا گیا، لیکن اس کے باوصف اس نے وکالت کی سند حاصل کر لی۔ لینن نے وکالت کو اپنا پیشہ قرار نہ دیا کیونکہ مارکس کی طرح اس کا مطمح نظر بھی بہت بلند تھا۔ دو سال کی لگاتار کوششوں کے بعد اس نے پیٹروگراڈ میں ایک جماعت بنائی۔ اس کا نام اس نے ’’لیبر یونین‘‘ رکھا۔ اسی دوران اس نے ایک انقلابی پمفلٹ شائع کیا، مگر یہ حکومت نے ضبط کر لیا۔

لینن کی خطرناک سرگرمیوں کو دیکھ کر حکومت نے ۱۸۹۵ء میں اسے سائبیریا جلاوطن کر دیا۔ جلاوطنی کے ان ایام میں اس نے مارکسی لٹریچر، سائنس اور فلسفے کا خوب مطالعہ کیا۔ ہیگل اور دیگر مفکرین کی تصانیف کا بہ نظر غائر مطالعہ کرنے کے بعد لینن خود اسی زمانہ میں ایک کتاب ’’روس کی مجلس آزادی کے وسائل‘‘ ضبط تحریر میں لایا۔ اس کتاب کے علاوہ اس نے ایک اور تصنیف بھی شائع کی جو عوام پر بہت اثرانداز ہوئی۔ اس نے ان کے دماغوں میں شخصیت، سرمایہ داروں اور ساہو کاری کے خلاف منافرت کے جراثیم پیدا کر دیے۔ کچھ عرصے کے بعد زار نے لینن کو روس واپس آنے کی اجازت دے دی مگر اس نے غیر ممالک میں رہائش اختیار کرنے کو ترجیح دی اور ۱۹۰۵ء میں پہلی بالشویک کانگرس منعقد ہوئی۔ گویا روس میں انقلاب کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ اس کانگرس میں بالکل ابتدائی مراحل طے ہوئے اور لینن نے ثابت کیا کہ بالشویک ایک مضبوط چٹان کے مانند ہیں، جو اپنے عقائد میں ثابت قدم رہ کر ہر قسم کی قربانیاں کرنے کے لئے تیار ہیں۔ جنوری ۱۹۱۲ء میں بمقام پریگ دوسری بالشویک کانگرس کا انعقاد ہوا جس سے تحریک میں دوبارہ زندگی پڑ گئی۔

 اس دوران میں آزادئ گفتار اور آزادئ فکر و مذہب کا مطالبہ شروع ہو گیا تھا۔ ۱۷ فروری ۱۹۰۵ء کو نکولس کے چچا پر دن کے وقت بم پھینکا گیا۔ انقلابیوں کا عام دستور ہو گیا تھا کہ جو شخص جبر و استبداد میں حصہ لیتا اسے ہلاک کر ڈالتے۔ نکولس نے انقلابی سرگرمیوں کی یہ رفتار دیکھ کر پارلیمنٹ کی ترتیب کا فیصلہ کیا، لیکن اس کے اختیارات بہت محدود رکھے تاہم پارلیمنٹ کے ارکان کی کثیر تعداد اپنے اختیارات کو بہتر سے بہتر طریق پر استعمال کرنے کا عزم کر چکی تھی۔ ان کی طرف سے جو تجاویز بھی پیش کی گئیں، وہ وزیراعظم نے مسترد کر دیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ پارلیمنٹ کو موقوف کر دیا گیا۔ یہ ۱۹۰۶ء کے واقعات ہیں۔ پارلیمنٹ موقوف کرنے کے بعد کسانوں اور مزدوروں کی دلداری کا کچھ سامان کیا گیا، مگر یہ نمائشی کھلونے انہیں رام نہ کر سکے۔

دوسری پارلیمنٹ ۱۹۰۶ء میں منعقد ہوئی۔ اسے متاثر و مرعوب کرنے کے لئے پولس نے زار کے قتل کی ایک فرضی سازش کا خاکہ تیار کیا اور اس طرح کوشش کی گئی کہ پارلیمنٹ کی رکنیت سے اشتراکیوں کو خارج کر دیا جائے۔ پارلیمنٹ نے اس فیصلے کی تائید سے انکار کر دیا۔ لہٰذا اسے بھی موقوف کر دیا گیا۔ نومبر ۱۹۰۷ء میں نئے قانون انتخابات کے ماتحت تیسری پارلیمنٹ منتخب ہوئی۔ یہ پارلیمنٹ بھی استبداد کے لئے آرام کا کوئی سامان مہیا نہ کر سکی۔ یہ صرف ۱۹۱۲ء تک قائم رہی۔ ۱۹۱۲ء میں دوبارہ انتخاب ہوا جس میں تقریباً پہلے ہی ارکان پھر منتخب ہوئے۔ بہ ظاہر اصلاح کا یہ سلسلہ جاری رہا۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک پارٹی اندر ہی اندر انقلاب کے لئے کوشاں تھی۔ تا آنکہ یورپ میں جنگ چھڑ گئی۔

اس وقت لینن گلیشیا کے ایک گاؤں میں اقامت پذیر تھا۔ اس کے او۱ز نیودیف1 کے سامنے یہ سوال حل طلب تھا کہ جرمنی کی اشتراکی جماعت کو اس یورپی جنگ کی مخالفت کرنا چاہیئے یا نہیں۔ لینن کا خیال تھا کہ یہ جماعت کے خلاف رائے دے گی، لیکن زینودیف کو اس رائے سے اختلاف تھا، چنانچہ جرمن کی اشتراکی مجلس نے صاف لفظوں میں جنگ کی حمایت کی جس سے لینن کو سخت صدمہ پہنچا۔ دراصل لینن کی خواہش تھی کہ روس جنگ میں شکست کھائے اور صلح پر مجبور ہو، اس لئے کہ روس کی شکست کے سوا انقلاب کو کامیاب بنانے کی کوئی اور شکل نہ تھی۔ آخر ۱۹۱۷ء کے آغاز میں حالات نے نازک ترین صورت اختیار کر لی۔ ابتدا خالی معدے کی بغاوت سے ہوئی۔ لینن گراڈ کے ایک مجمع نے بھوک سے تنگ آ کر نانبائیوں کی دکانوں کا محاصرہ کر لیا۔ پولیس نے ان پر گولیاں چلائیں، لیکن لینن گراڈ کے سپاہیوں نے پولیس کو مار کر ہٹا دیا۔ حوصلہ پا کر مجمع نے اسلحہ خانے پر حملہ کر دیا۔ جیل خانے کے دروازے توڑ ڈالے اور صدر کوتوالی میں آگ لگا دی۔

 شام کو مختلف پارٹیوں کے نمائندے منتخب ہوئے اور رودزیانکو کی صدارت میں ایک زبردست جلسہ منعقد کیا گی۔ زار کو اس مضمون کے تار بھیجے گئے۔ ملک اور شاہی خاندان کے فیصلے کا آخری وقت آ پہنچا ہے۔۔۔ لیکن ان تاروں کا کوئی جواب نہ آیا۔ آخر کار رودزیانکو نے رفقاء کے کہنے پر ایک عارضی حکومت کے قیام کا بندوبست کر دیا۔ اس عارضی حکومت میں کرنسکی وزیر عدالت بنا۔ یہ حالات دیکھ کر جب زارنے اپنے شاہی محل تک پہنچنے کی سعی کی تو راستہ رکا ہوا پایا اور جنرل روز کی کے ہیڈکوارٹر میں چلا گیا۔ یہاں اسے تخت سے دست بردار ہونے کے لئے کہا گیا۔ وہ اپنے بیٹے کے حق میں دست بردار ہونے کے لئے تیار ہو گیا، مگر جب ڈاکٹروں نے یہ بتایا کہ اس کے بیٹے کی بیماری لاعلاج ہے تو اس نے اپنے چھوٹے بھائی مائیکل کو تخت نشین کرنا چاہا مگر اس نے یہ اعلان کیا کہ وہ اس وقت تک تاج و تخت کو قبول نہیں کرے گا جب تک مجلس ملی اس پر رضامند نہ ہوگی۔ یہ شاہی خاندان کے خاتمے کا اعلان تھا۔ ۱۶ مارچ ۱۹۱۷ء کو مائیکل پر سلطنت کا خاتمہ ہو گیا۔ عارضی حکومت نے نکولس کو اس کے محل میں قید کر کے باہر پہرے لگا دیے۔

۱۹۱۷ء میں لینن چھپ چھپا کر دفعتاً پیٹرو گراڈ آ پہنچا اور وہاں مساعد حالات کی بنا پر عام انقلاب کرانے میں کامیاب ہو گیا اور ملک کا تمام نظام جمہور کے ہاتھ میں دے دیا۔ ۱۴ نومبر کو لینن کی پارٹی نے جو بالشویک2بالشویک روسی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی کثرت تعداد کے ہیں۔ کہلاتی تھی، سارا نظام انتخاب بدل دیا۔ ایک مجلس ملی منتخب کی گئی۔ اس مجلس نے ایگزیکٹو کمیٹی کے ارکان منتخب کیے، ان کا صدر لینن بن گیا۔۔۔ زاریت مغلوب اور اشتراکیت غالب آئی۔ جب بالشویکوں کو اقتدار حاصل ہوا تو وہ شاہی خاندان کو بالسک سے ایکاتر نبرگ لے آئے اور یہیں ۱۸ جولائی ۱۹۱۸ء کو بروز کی نامی ایک شخص نے بالشویک حکومت کے ایما پر سارے خاندان کو چند خادموں اور خادماؤں سمیت موت کے گھاٹ اتار دیا۔ لاشوں کو پٹرول ڈال کر جلایا گیا اور ان کی راکھ کانوں کی تہہ میں بکھیر دی گئی۔ لینن اور اس کے بعد بالشویک پارٹی نے روس کے نشو و ارتقاء کے لئے جو کچھ کیا، اس کی تفصیل کے لئے ایک علیحدہ طویل مقالے کی ضرورت ہے۔

روس کے اصول و نظریات ۱۹۱۸ء کے مقابلے میں اس وقت بڑے معتدل ہیں۔ تقریباً تمام حکومتوں کے ساتھ اس کے سیاسی اور تجارتی تعلقات قائم ہو چکے ہیں۔ اس وقت بالشویک روس ان تمام علاقوں پر قابض ہے جو زاروں کے زمانہ میں روس کے اجزا تھے۔ روس میں سولہ کروڑ آدمی اپنے پنج سالہ پروگرام کو عمل میں لانے کے لئے روز و شب بڑی سرگرمی کے ساتھ مصروف ہیں۔ بہت سی زائد اراضی مشترک ہو کر زیرکاشت لائی گئی ہیں۔ ان میں نئے وضع کے ہل چلا کر پیداوار کو بڑھایا گیا ہے۔ کروڑوں آدمی اپنے جوش میں نئے اشتراکی کام کی تکمیل میں مصروف ہیں۔

جنگ عظیم سے پہلے ستر لاکھ بچے تعلیم پاتے تھے۔ ۱۹۳۱ء میں ایک کروڑ دس لاکھ تھے، مگر اب روس کا ہر فرد خواندہ ہے۔ ہر بچے کا خرچ حکومت برداشت کرتی ہے، یہاں تک کہ وہ کمانے کے لائق ہو جائے۔ اشتراکی روسی بچوں کی جماعت میں اپنے آئندہ کے حامی و اتحادی پیدا کر رہے ہیں۔ وہ اپنے شہریوں کے مفاد کو اشتراکی دولت کے مفاد سے ملا کر ہر فرد و بشر کو اس دولت کا ایک آلہ کار بنانا چاہتے ہیں۔ ان کی صحت، تعلیم اور فراغت کی محافظ حکومت ہے۔ ماسکو کے قریب کے پبلک باغ میں ہر روز تقریباً ایک لاکھ سیر کرنے والوں کا اجتماع ہوتا ہے۔

اشتمالیت نے روسی عورت کو اس کی صدیوں کی غلامی سے رہا کر دیا ہے۔ اب روس میں اشتمالی باورچی خانے ہیں۔ کھیتوں میں بچوں کی نگہداشت کا انتظام ہے۔ اب شادی کی بنا نہ مذہب پر ہے اور نہ کسی عدالتی معاہدے پر۔ گو اشتمالی خیال کے آدمی بدستور لامذہب ہیں۔ علماء ادباء کی جماعت تخلیقی کام میں مصروف ہے اور بالعموم روسیوں کے پیش نظر ایک عظیم الشان مشترک مطمح نظر ہے جو انہیں ہر روز آگے بڑھائے لئے جاتا ہے۔ انہیں یقین ہے کہ وہ ایک نئی دنیا کی طرح ڈال رہے ہیں اور یہ کہ ان کی مساعی کے باعث نوع انسان کا مستقبل شاندار ہو جانے والا ہے۔ گو یہ کہا جاتا ہے کہ روحانیت کے بغیر اشتمالیت کا پودا پروان نہ چڑھے گا لیکن اس حقیقت کو کوئی دوست، دشمن نظر انداز نہیں کر سکتا کہ باوجود انتہائی مشکلات اور شدید مخالفت کے روس کو اپنے نئے تجربے میں حیرت انگیز کامیابی حاصل ہو رہی ہے۔ روس کا موجودہ آمر مسٹر سٹالن اپنے ملک کی فضا کو خوشگوار سے خوشگوار تر بنا رہا ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *