آئینی ترمیم اور پاکستانی ریاست و معاشرے کا بحران

ریڈ سائیٹ پاکستان کا تجزیہ (https://redsite.pk/

پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس نے اپنی تاریخ میں متعدد سیاسی اور آئینی بحرانوں کا سامنا کیا ہے۔ ان بحرانوں کی وجوہات میں سیاسی عدم استحکام، آئینی تضادات،سرمایہ دارانہ نظام کی ناکامی اور عوام کی بڑھتی ہوئی توقعات شامل ہیں۔ ریاستی بحران کے دور میں آئینی ترمیمات کو اکثر ایک حل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ لیکن کیا آئینی ترمیمات ہی ان بحرانوں کا واحد حل ہیں؟ ۔

پاکستان میں ریاستی بحرانوں کی وجوہات

پاکستان میں ریاستی بحرانوں کی کئی وجوہات ہیں، جن میں سیاسی عدم استحکام سر فہرست ہے سیاسی جماعتیں اپنے مفادات کے لیے آئین کو توڑنے سے گریز نہیں کرتیں۔

آئینی تضادات: آئین میں موجود تضادات اور غیر واضح شقیں سیاسی بحرانوں کا باعث بنتی ہیں۔

عوام کی بڑھتی ہوئی توقعات: عوام کی بڑھتی ہوئی توقعات کو پورا کرنے میں حکومت ناکام رہتی ہے۔

اقتصادی عدم استحکام: معاشی بحران سیاسی عدم استحکام کو جنم دیتا ہے۔

عسکری مداخلت: فوج کا سیاست میں مداخلت کرنا بھی ریاستی بحران کا ایک اہم سبب ہے۔

غیر ملکی مداخلت: پاکستان کا معشی و انتظامی ڈھانچہ ابھی تک جدید نو آبادیاتی شکل میں موجود ہے جس میں عالمی سرمایہ داری نظام کے سرپرست ملکوں اور اداروں کی مداخلت ایک لازمی امر ہے-عالمی سامراج بالخصوص امریکہ کی مداخلت تو رقز اول سے روز روشن کی طرح عیاں ہے اور اب تو مشرق وسطی کے تیل پیدا کرنے والے ملکوں کی مداکلت ایک نیا فیکٹر سامنے آر ہا ہے

آئینی ترمیمات: ایک حل یا مسئلہ؟

آئینی ترمیمات کو اکثر ریاستی بحرانوں کا حل سمجھا جاتا ہے۔ آئینی ترمیمات کے ذریعے آئین میں تبدیلیاں کی جاتی ہیں اور موجودہ حالات کے مطابق آئین کو اپ ڈیٹ کیا جاتا ہے۔ لیکن کیا آئینی ترمیمات ہی ان بحرانوں کا واحد حل ہیں؟

پاکستان میں آئینی ترمیمات کا تجربہ

پاکستان میں آئینی ترمیمات کی ایک طویل تاریخ ہے۔ مختلف حکومتوں نے اپنے مفادات کے لیے آئین میں تبدیلیاں کی ہیں۔ لیکن ان ترمیمات کے نتیجے میں ملک میں سیاسی استحکام نہیں آ سکا۔ بلکہ بہت سی ترمیمات نے سیاسی بحرانوں کو مزید گہرا کیا ہے۔ پاکستان میں ریاستی بحرانوں کا حل آئینی ترمیمات نہیں بلکہ معاشی  ںظام کی تبدیلی ہے ۔

موجودہ بحران نہ تو آئین کا پیدا کردہ ہے اور نہ ہی اس آئینی ترمیم سے یہ حل ہونے والا ہے-حکمرانوں کو تو سب پتہ ہے لیکن عوام جو سیاسی شعور سے عاری ہیں جو سیاست میں شخصیات کی حد تک دلچسپی لیتے ہیں جو پاپولرازم اور جاگیرداری کلچر کا خاصہ ہے-آئیے پاکستان کے اس معاشی اور سیاسی بحران کا طبقاتی اور سماجی سائینس کے اصولوں کی روشنی میں تجزیہ کرتے ہیں-۔۔۔۔۔۔

ریاست میں ہر معاشی و سیاسی بحران۔ ۔کشمکمش۔ یا انتشار کے پیچھے مختلف طبقات کے باہمی مفادات کی لڑائی ہوتی ہے جو بظایر نظر نہی اتی لیکن جس کا اظہار سیاست میں انتشار ۔کشمکش ۔۔اداروں کے درمیان اختیارات کی لڑائی اور معیشت میں بگاڑ کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے ۔۔۔پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال میں ابتری۔۔انتشار۔اداروں کے درمیان محاذ آرائی اور اخیار و اقتدار کی کشمکش بھی اسی وجہ سے ہے کہ متحارب قبائیلی  و جاگیرداری باقیات اور سرمایہ دار طبقات اور اداروں کے درمیان اختیارات اور اقتدار میں شراکت داری ہر سمجھوتہ نہی ہو رہا۔ ۔۔۔ ابتدائی دور کے سرمایہ دارانہ نظام میں ایسا ہی ہوتا تھا لیکن جب سے سرمایہ دارانہ نظام ترقی کر کے عالمی صورت اختیار کر چکا ہے اور عالمی سامراج کا روپ دھار چکا ہے تب سے پسماندہ اور ترقی پزیر معاشروں اور ریاستوں کے اختیارات و وسائل پر کنٹرول کے ساتھ ساتھ اقتدار کی مقامی بالادست طبقات کی کشمکش میں عالمی سامراجی اور توسیع پسند ریاستوں کا عمل دخل بھی بڑھ چکا ہے وہ اپنے مفادات کے حوالے سے کبھی ایک تو کبھی دوسرے فریق کے ساتھ کھڑے ہوئے جاتے ہیں۔۔۔ اس لئے  امریکی سامراج اور مشرق وسطی کے عرب ممالک کی پاکستانی سیاست میں مداخلت واضح اور دو ٹوک ہے۔۔۔

پاکستانی سیاست میں انارکی اور اسٹیبلشمنٹ(عدلیہ۔۔سول و ملٹری بیوروکریسی) کے ساتھ گزشتہ کئی دہائیوں سے کشمکش بھی اسی طبقاتی لڑائی کا اظہار ہے۔۔ جو اسٹیبلشمنٹ کے  سرمایہ اور سول سرمایہداروں کے درمیان جاری ہے افسر شاہی سرمایہ کی نمائیندگی اسٹیبلشمنٹ اور ان کے اتحادی اور سول سرمائے کی نمائیندگی سرمایہ دار سیاسی جماعتیں اور ان کے اتحادی قبائیلی و جاگیردار کرتے چلے آ رہے ہیں ۔

اس کشمکش کے تسلسل میں افسر شاہی سرمائے کی نمائیندہ  اسٹیبلشمنٹ اور سول سرمائے کی نمائیندہ سیاسی جماعتوں کے درمیان سانپ اور سیڑھی کا کھیل جاری رہا اور جس طبقے کے سرمائے کی جتنی طاقت ہے وہ اسی شرح سے ریاستی اقتدار میں حصہ چاھتا ہے ۔۔۔۔اس کشمکش کا ارتقائی و تاریخی پہلو بھی نظر انداز نہی کیا جا سکتا۔ ۔۔۔وہ بھی اس تجزئے کو سپورٹ کرتا ہے وہ یہ کہ جیسے سرمایہ دار طبقہ بطور طبقہ یا سرمائے کی شرح کے حساب سے طاقتور ہوتا جاتا ہے  وہ ویسے ویسے سرمایہ دارانہ ریاست کے سیاسی اقتدار پر شراکت داری نہی بلکہ اپنی مکمل حکمرانی چاھتا ہے جسے سرمایہ دارانہ ریاست میں پارلیمنٹ کی بالادستی اور  سرمایہ دارانہ جمہوری انقلاب کی تکمیل کی لڑائی بھی کہا جا سکتا ہے ۔۔۔

سرمایہ دارانہ جمہوریت۔۔پارلیمنٹ کی بالا دستی یا سرمایہ دارانہ جمہوری انقلاب کی یہ تکمیل ادھوری ہے اور اسی لئے سرمایہ دار۔۔قبائیلی و جاگیرداری سیاست دان لڑتے ہیں۔۔۔سمجھتوتہ کر لیتے ہیں پھر لڑتے ہیں پھر سمجھوتہ کر لیتے ہیں اور سانپ اور سیڑھی کا یہ کھیل پاکستانی ریاست پر کسی ایک فریق کی مکمل حاکمیت قائم ہونے تک جاری رہے گا ۔۔۔

اس کشمکش میں اب کی بار سول سرمائے کے حامیوں کا پلڑا بھاری ہے کیونکہ اسٹیبلشمنٹ تقسیم شدہ ہے جس کا فائیدہ مخالف طبقاتی قوت خوب اٹھا رہی ہے۔۔گو عالمی سامراج بظایر اسٹیبلشمنٹ کے ہی ایک دھڑے کی حمائیت کر رہا ہے لیکن عرب ریاستیں واضح طور پر دوسرے فریق کے ساتھ کھڑی ہیں اور صورتحال عالمی سامراج اور اسٹیبلشمنٹ کے ایک دھڑے۔۔  دونوں کی کمزوری کا پتہ دیتی ہے۔۔ 

لیکن اس سارے تماشے میں تیسرا یا چوتھا سب سے اہم فریق پاکستان کے عوام ہیں جو کئی دہائیوں سے یہ طرفہ تماشا دیکھ رہے ہیں اور ایک بے شعور ۔نوابادیاتی باقیات۔۔جدید نو آبادیاتی ۔مزہبی بنیاد پرست معاشرے کے فرد کی حیثیت سے طبقاتی سیاست سے کوسوں دور ہیں اور ان کی ترجمانی کا دعویٰ کرنے والی بائیں بازو یا سوشلزم کی حامی جماعتیں باوجوہ باہمی انتشار۔۔کمزوری اور فرقہ پرستی اور کئ دیگر اسباب کے سبب پاکستانی معاشرے اور عوام میں تا حال قبولیت پیدا نہی کر سکیں جس کی وجہ سے سرمایہ داروں۔جاگیردار و قبائیلی باقیات کی حامل سیاسی جماعتوں کے انتخاب کے سوا کوئی دوسرا راستۃ نہی ہے

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *