جلتا سلگتا بلوچستان

 54کل 26 اگست 2024 کو بلوچستان لہو لہو ہو گیا ، صوبے کے مختلف اضلاع میں 24 گھنٹوں کے دوران دہشت گردی کی کارروائیوں میں 14جوانوں سمیت  افراد شہید ہو گئے-  موسیٰ خیل میں مسلح افراد نے بسیں روک کر شناخت کے بعد 23مسافروں کو فائرنگ کرکے قتل کردیا، مقتولین کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے، قلات، سبی، پنجگور، مستونگ، تربت، بیلہ، گوادر اور کوئٹہ میں بھی حملے، بولان میں انگریز دور کا ریلوے پل دھماکے سے تباہ کردیا گیا، پنجاب، سندھ کیلئے ریل سروس معطل ہوگئی، سوئی سے پنجاب جانے والی گیس پائپ لائن دھماکے سے تباہ، معدنیات لے جانے والی 10سے زائد گاڑیاں جلا دی گئیں،مسلح افراد نے مستونگ میں بھاری ہتھیاروں سے لیویز تھانے پر حملہ کیا جبکہ نوشکی میں چیک پوسٹ کو آگ لگا دی گئی، بی ایل اے نے واقعے کی ذمہ داری قبول کر لی  ہے یہ بڑے افسوسناک واقعات ہیں۔اس کے تین پہلو ہیں اس کی ٹائمنگ،اہداف کا چناؤ اور اس کے مقاصد کیا ہیں۔ پچھلے دو ماہ سے حکمت عملی کے تحت سماجی اور سیاسی سطح پر کی جارہی تھی تاکہ دہشت گردوں کی کارروائیوں کے لئے ہمدردی پیدا کی جائے۔دہشت گرد عناصرمجیدبریگیڈ،اور بی ایل ایف کی کوشش ہے کہ جس قدر بھی انتشار برپا کیا جائے وہ کم ہے۔زیادہ ترشہریوں اور غیر بلوچوں کو ٹارگٹ کیا گیا ہے۔ دفاعی افواج کے انتظام ، سیکورٹی الرٹ

کی بنیاد پر ان کو تر نوالہ نہیں سمجھا گیا۔ کوشش کی گئی ہے کہ شہری آسان ہدف ہیں ان کو نشانہ بنایا جائے

(Redsite.pk)اس پس منظر میں عوامی ورکرز پارتی کے راہنماء رانا اعظم نئ درج زیل مجمون تحریر کیا ہے

جلتا سلگتا بلوچستان

رانا اعظم ، عوامی ورکرز پارٹی

27/8/24

آو مل کر بلوچستان کے حالات/سوالات پر غور کریں  ۔ جب ہم آو مل کر کہتے ہیں تو ہم ان دوستوں کو دعوت دے رہے ہیں ، جو  قومی سوال کو سائنسی بنیادوں پرتسلیم کرتے ہوئے  محنت  کش عوام کی سیاست کرنا چاہتے ہیں  یا کر رہے ہیں ۔ سماجی وسیاسی سائنس  کا مسلمہ اصول ہے کہ  سوشواکنامک تبدیلیوں کے ساتھ  قومی سوال کی ہیئت بھی تبدیل ہوجاتی ہے ۔ اس کے لیئے ہم تاریخ  میں  نہیں جائیں گے۔  آپ  خیبر پختون خواہ میں دیکھیں جیسے تیسے بھی پیسہ آیا ، چاہے اس سے صارف سوسائٹی ہی بنی مڈل کلاس کی نظام میں کھپت ہوگئ ۔ قوم پرست  ہاتھ جھاڑ کر گھروں کو لوٹ گئے ۔

 قوم پرست قوتوں اور ہمارے درمیان  چونکہ فاصلے بہت ہیں ۔ ہم دو مختلف کناروں پر کھڑے ہیں  ۔  ہاں ہمارے ، ان کے درمیان  کئ ایک مشترکہ نکات بھی ہیں۔  ہم ان کے ساتھ کم از کم یا زیادہ سے زیادہ نکات پر یونائٹڈ فرنٹ کی سیاست کر سکتے ہیں ۔  اب آج کے سوال کی طرف  آتے ہیں

قیام پاکستان کے پہلے دن سے بلوچستان ہر طرح کے مسائل میں گھرا ہوا ہے۔  لگتا ہے کہ بلوچ عوام کے لوح ازل پر چرواہا ہونا لکھ دیا گیا تھا ۔ بلوچستان کے عوام  کو باعزت روٹی روز گار،  تعلیم ،  صحت و زندگی کے دیگر چھوٹے سے چھوٹے لوازمات کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ سوال تو پیدا ہوتا ہے کہ تمام تر وسائل کے باوجود اتنی کسمپرسی کی زندگی کیوں  ؟ بلوچ عوام  گذشتہ 77 سال سے سراپا احتجاج ہیں۔ کبھی اسلام آباد/مرکز کی طرف سے عدم اونرشپ،  خاص طور پر ملٹری اسٹیبلشمنٹ بلوچستان کے عوام پر ہر وقت جنگ مسلط کیے رکھتی ہے  ۔مسنگ پرسنز کے لواحقین در بدر رل رہے ہیں کوئی شنوائی نہیں  ۔ دوسری چھوٹی قوموں کے ساتھ ساتھ بلوچ بھی پنجاب پر ان کے وسائل کی لوٹ کھسوٹ پر احتجاج کرتے رہتے ہیں ۔ خیر اب اٹھارویں ترمیم کے بعد وسائل  کی صورت حال بدلی ہے ۔ ہم بلوچ عوام کے تمام مطالبات کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ہم قوموں کے حق علیحدگی تک کو تسلیم کرنے والے لوگوں میں سے ہیں  ۔ ہم اپنی سیاسی نظریاتی پوزیشن واضع کرتے ہوئے آگے بڑھ کر کچھ اور باتیں کرنا چاہتے ہیں

بلوچ سرداروں کو تو چھوڑیئے۔ ہم بلوچستان کی مڈل کلاس لیڈرشپ، طالب علم تنظیموں جب کبھی بی ایس او وغیرہ موجود تھیں۔ وہ وقت ہمارا بھی طالب علمی کا تھا  ۔ ہم بھی بائیں بازو کی سٹوڈنٹس سیاست میں ملکی سطح پر خاصے سرگرم تھے۔ سوشلسٹ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے جنرل سیکریٹری تھے۔ تب بھی کبھی ہم نے بلوچ مڈل کلاس لیڈرشپ،  طلباء تنظیموں  کی طرف سے قبائلی نظام کے خاتمہ کا کوئی نعرہ نہیں سنا تھا ۔ اس وقت ہم ترقی پسند بلوچ دانشوروں،  لکھاریوں  یا دیگر رائے عامہ بنانے والوں ، عام پڑھے لکھے نوجوانوں سے مخاطب ہیں ۔ کیا وجہ ہے کہ ان تمام حلقوں کی طرف سے جس طرح ملٹری اسٹیبلشمنٹ،  اسلام آباد/مرکز اور پنجاب پر دو ٹوک انداز میں سوال اٹھاتے ہیں ۔ کیوں کبھی بلوچستان میں قبائلی نظام،  برطانوی سامراج سے لے کر امریکی سامراج تک کے تاریخی کردار،  ان کی پیدا کردہ خباثتیں ، قبائلی نظام کی سکل میں باقیات اور اب تک جاری سامراجی لوٹ کھسوٹ پر سوال نہیں اٹھایا جاتا ۔ بلوچ مڈل کلاس جتنی بھی ہے ، کیا ان کے نزدیک بلوچ سماج میں قبائلیت ،  سامراجی مداخلتوں اور لوٹ کھسوٹ سے پاک ہے یا وہ انہیں اپنی غربت و افلاس و دیگر مسائل کے سبب کے طور پر لیتے ہی نہیں ؟

ہمارے نزدیک قبائلی سرداروں،  ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور سامراجی ناپاک گٹھ جوڑنے بلوچ نوجوانوں کا مسلح جدوجہد کی طرف شعوری طور پر رخ موڑا ہوا ہے۔ تاکہ قبائلی نظام و دیگر بیان کردہ خباثتوں کے خاتمہ کے لئے سیاسی جمہوری راستہ نہ اپنا لیں ۔ اسٹیبلشمنٹ کے لئیے محدود پیمانے پر مسلح جدوجہد کو کنٹرول کرنے کے لیئے کارروائیاں ،خواہ اس کے لیئے نوجوانوں کا لاپتہ کرنا یا دیگر اقدامات اٹھانا ان کے لیئے کوئی بڑا درد سر نہیں ہے ۔ ریاست کے نزدیک جیسے کل برطانوی سامراج کے لیئے اس خطہ بشمول فاٹآ میں قبائلی نظام کو قائم رکھنا ضروری تھا آج  بھی امریکی سامراج اور ہماری ریاست کے لیئے جیو پالیٹکس کو مدنظر رکھتے ہوئے اتنا ہی ضروری ہے۔ ہمارے جیسی منظم طاقتور مسلح  ریاست کے لیئے محدود پیمانے پر مسلح تحریک   

 کو کنٹرول کرنا کوئی مشکل ٹاسک نہیں ہے۔ بس ان کا ایک ہی مسلہ ہے ک یہ جدوجہد کوئی  سیاسی،  فکری تحریکوں  کاراستہ نہ اختیار کر لے ۔ محدود کا لفظ ہم  خاص طور پر بلوچستان کی محدود آبادی،  وسیع رقبہ ، چھوٹی سی مڈل کلاس، جن میں احساس بیگانگی پایا جاتا ہے ، کے پس منظر میں استعمال کر رہے ہیں۔ دنیا بھر میں سامراج کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہوتی ہے کہ سیاسی سماجی  حقوق کی تحریکوں کو سیاسی راستہ سے بھٹکا کر انتہائ پسندی کی طرف    موڑ دینا ۔ ہم اپنی تحریروں میں جس بات کا خاص خیال رکھنا ضروری سمجھتے ہیں،  وہ متعلقہ خطہ کی سوشواکنامک حالات کی جانکاری اور اسے بنیاد بنایا جانا اولیت  ارکھتا ہے۔ بلوچستان ، سندھ اور دیگر قومیتوں کے قومی سوال کے حل کی جدوجہد کے ہم  شانہ بشانہ  ہیں

 ہمارے نزدیک بلوچ عوام کی غربت و افلاس ، تعلیم ،صحت و دیگر ضروریات زندگی اور آسائشات جو کہ ان کا بنیادی حق  ہے ۔ اس کے راستے کی روکاوٹ،  سب سے بڑا عذاب  قبائلی نظام ہے ۔ قبائلی اور جاگیردارانہ معاشروں میں سردار،  جاگیردار ہی نظام کا مرکز و محور ہوتے ہیں اور یہی سب سےبڑے مقامی فواید حاصل کرنے والے بھی ہوتے ہیں۔ ایسے قبائلی جاگیردارانہ نظام میں کوئی تھوڑی بہت مڈل کلاس پیدا ہو بھی جا ئے- تو سسٹم میں ان کھپت کی جگہ ہی نہیں ہوتی ۔ جگہ نہ ہونے کے باعث اس مڈل کلاس کی اپنے معاشرے سے جڑت  نہیں بن پاتی ۔ بدیں وجہ وہ بیگانگی کا شکار ہو جاتی ہے۔ ایسے معاشروں میں سیاسی جمہوری قوتیں پہلے ہی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہیں ۔ جو انہیں مین سپریم کا حصہ بنا پائیں، اور ان کے احساس بیگانگی کے اسباب کی نشاندہی کر سکیں۔ اگر چند ایسے بیج پائے بھی جاتے ہوں تو وہ اتنے کمزور ہوتے ہیں کہ قبائلی اور جاگیردارانہ معاشروں کا رخ بدلنے کی سکت نہیں رکھتے ہوتے۔ یہ بیگانگی مڈل کلاس کو ہتھیار اٹھانے پر مجبور کر دیتی ہے۔ تب اسٹیبلشمنٹ اپنی اتحادی مقامی اور سامراجی قوتوں کے ساتھ نظام بچانے میدان میں کود پڑتی ہیں۔ نظام کیا ہے وہی قبائلیت اور جاگیرداری ۔ بے شک ہمارے جیسے پسماندہ ممالک میں اسٹیبلشمنٹ وسائل پیداوار پر  قابض ہونے کی بنا پر خود بھی نظام کی ایک بڑی سٹیک ہولڈر کی حیثیت اختیار کر لیتی ہے ۔ ایسے نظام کو بچانا  سب مفاد پرست قوتوں کا مشترکہ فریضہ بن جاتا ہے ۔ ہم ہمیشہ لکھتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ نے بھی جاگیردارانہ شال اوڑھ لی ہے