عامر ریاض
برٹش پارلیمنٹ میں 18 جولائی 1947 ء کو عجلت میں پاس کیے آزادی ہند ایکٹ 1947 کے بطن سے دو نئی وطنی ریاستوں کی پیدائش ہوئی کہ ایکٹ کی بنیاد محض 70 دن قبل 3 جون کو کیا گیا معاہدہ تھا جس کے بانی مبانی سلطنت برطانیہ کے اعلی اذہان تھے جبکہ دستخطیوں میں کانگرس اور مسلم لیگ کے پردھان شامل تھے۔ کیونکہ اس معاہدے کی سب سے خوفناک شق پنجاب کی مکمل مذہبی تقسیم تھی اس لیے ایک سکھ کو اس میں بطور ”شامل باجا“ بٹھایا گیا تھا۔ گزرے 76 برسوں میں اس بارے امریکی، برٹش، پاکستانی اور انڈین عالموں نے بہت سیاہی خرچ کی، کتابوں، تحقیقی مقالوں اور اخباری مضامین کا سلسلہ سمیت اب تو اس کے لیے الگ الگ ویب سائٹیں بھی چلائی جا رہی ہی۔ مگر دل ہے کہ ان معروضات سے مطمئن نہیں ہوتا، شاید اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ بنیادی بات اب بھی کوئی کرنے کو تیار نہیں۔ مگر اب جبکہ سرد جنگ بھی ہوا ہو چکی تو سکالرشپ کو کچھ تو آگے بڑھنا چاہیے۔
امریکی ترجیحات و دباؤ، برٹش انڈیا چھوڑنے بارے سلطنت برطانیہ کی ہچکچاہٹ اور کانگرس و مسلم لیگ کے ضد نما تحفظات سے 3 جون کا ملغوبہ تیار کیا گیا تھا۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ان چاروں کھلاڑیوں کی اپنی اپنی ترجیحات تھیں۔ امریکہ اپنی نئی نئی بن چکی عالمی تھانیداری کا رعب جما رہا تھا تو برطانیہ اول تو کالونی چھوڑنے کے لیے تیار نہ تھا اور چاہتا تھا کہ اگر اسے برٹش انڈیا چھوڑنا پڑے تو وہ اس انداز میں چھوڑے جس سے اس کی عالمی چوہدراہٹ پر حرف بھی نہ آئے، برٹش انڈیا کے باسی بھی اس کے ممنون ہوں اور سلطنت کے دور میں ہونے والے مظالم کی بجائے آزاد ہونے کے بعد بس سلطنت کی برکات ہی کے گن گائیں۔ کانگرس چاہتی تھی کہ انگریز صرف ان سے ڈیل کریں جبکہ مسلم لیگ نہ صرف فائنل ڈیل میں حصہ کی طلبگار تھی بلکہ پورے پنجاب و بنگال کو لینا چاہتی تھی۔
3 جون کے معاہدے کی شان نزول معاہدہ اٹلانٹک تھا جو 14 اگست 1941 کو ہوا تھا کہ اس می برطانیہ اور فرانس جیسی مقتدر یورپی طاقتوں نے ابھرتی سپر پاور امریکہ سے ہٹلری جرمن اور جاپانی دراندازیوں سے جان چھڑوانے کے عوض نوآبادیات خالی کرنے کا عہد کیا تھا۔ ہمارے خطہ میں چھ سال بعد عین 14 اگست ہی کے دن اس پر عمل مکمل ہوا جب ماؤنٹ بیٹن نے 14 اگست 1947 کے صبح پاکستان کے عارضی دارالحکومت کراچی میں آئین ساز اسمبلی کے روبرو بطور وائسرائے اپنا آخری فریضہ سر انجام دیا اور محمد علی جناح کو گورنر جنرل تسلیم کیا۔ جو کچھ ان چھ برسوں میں ہوا وہ اک نئے عالمی منظر نامے کی ابتدا بھی تھی۔ اٹلانٹک چارٹر کی توثیق دسمبر 1941 میں واشنگٹن میں ہونے والی 26 ممالک کی Arcadia کانفرنس میں کی گئی کہ جب نئی سپر طاقت امریکہ نے لینڈ اینڈ لیز کے تحت روس، چین، برطانیہ، فرانس سمیت کئی اہم ممالک کو اربوں ڈالر اسلحہ، مراعات میں دینے کا اعلان کیا۔ تاہم اٹلانٹک چارٹر میں رخنہ ڈالنے کا پہلا کام چرچل نے کیا کہ جب اس نے اٹلانٹک چارٹر کے ایک مہینہ بعد ستمبر 1941 میں یہ ہشیار بیان دیا کہ معاہدے میں تو صرف جرمنوں کے قبضہ کیے علاقوں کی بات کی گئی ہے اور برٹش کا اس معاہدے سے کوئی تعلق نہیں یعنی بشمول برٹش انڈیا کسی برٹش کالونی کو خالی کرنا معاہدے میں شامل نہیں۔ بھلا ہو پریمئیر پنجاب سکندر حیات کا انھوں نے بروقت اس کے خلاف پریس کانفرنس کی کہ جس کے بعد چرچل اپنے بیان سے پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوا کیونکہ معاہدے می جرمنوں کے قابض علاقوں کا لفظ بھی نہیں لکھا تھا بلکہ واضح طور پر قوموں کی آزادی بارے شق تھی۔ لکھاری ولئیم روجر لوئس (Imperialism at Bay – 1977) اور نیٹا کرافورڈ (Argument and Change in World Politics Ethics, Decolonization, and Humanitarian Intervention-2002) کی کتب میں چرچل کے بیان اور پیچھے ہٹنے کا ذکر موجود ہے۔
چرچل کی چال کی ناکامی کے بعد پنجاب کے اس جرم کو ہمیشہ یاد رکھا گیا۔ ”آخری ہزار دن“ کے برٹش مصنف پیٹر کلارک کا رونا ہی یہ ہے کہ جب ہمارے پالیسی ساز معاہدہ اٹلانٹک کرتے ہوئے امریکہ کے آگے سرنگوں ہو چکے تھے تو انہیں برٹش پارلیمنٹ میں جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت تھی۔ ان کی امریکہ برطانیہ تعلقات کے تناظر میں تقسیم ہند بارے لکھی کتاب کی بنیاد 5 ہزار صفحات پر مشتمل وہ خط و کتابت تھی جو امریکی صدر روز ویلٹ اور برٹش وزیراعظم ونسٹن چرچل کے درمیان ہوئی۔ برطانیہ کو 14 اگست 1941 کے بعد ہر چند ماہ کے عرصہ میں امریکہ کو نوآبادیات خالی کرنے بارے پیش رفت رپورٹ بھیجنی ہوتی تھی کہ 9 مارچ 1942 کو برٹش کابینہ نے اسی دباؤ کے تحت اعلی سطحی کرپس مشن بھیجا تھا۔ اس مشن کی بظاہر ناکامی کے بعد لکھے ایک خط میں چرچل نے امریکیوں کو بتایا کہ اب برٹش انڈیا میں ”کوئیٹ انڈیا“ تحریک (یہ وسط 1942 میں شروع ہوئی تھی) چل رہی ہے اس لیے نوآبادیات خالی کرنے کا عمل سستی کا شکار ہے۔ اس کا جواب دیتے ہوئے پردھان نے لکھا کہ اپنی خفیہ ایجنسیوں کی مدد سے جو تحریک چلوا رہے ہو، اس ڈبل گیم کو تج دو۔ اب آکسفورڈین تاریخ دانوں نے تو ایسی باتوں کا ذکر نہیں کرنا جبکہ ہماری سکالرشپ میں تو امریکہ برطانیہ اختلافات بارے بات چھوئی ہی نہیں جاتی کہ شودروں کا کیا کام کہ پنڈتوں کی لڑائی بارے مغز کھپائی کریں۔ تاہم اگر آپ بیورلے نکلسن کی 1943 میں چھپی کتاب ”ورڈیک آن انڈیا“ پڑھیں تو پنڈت جواہر لال نہرو اور قائداعظم محمد علی جناح کے انٹرویو یہ بتاتے ہیں کہ دونوں کو دنیا کے اس تیزی سے بدلتے منظر نامے اور امریکی دباؤ بارے علم تھا۔ یہی نہیں بلکہ دونوں لیڈران ہی نئے حاکم امریکہ کے نزدیک ہونے بارے متحرک رہے۔ کانگرس کی ورکنگ کمیٹی کے ممبر کانجی دوارکا داس کی کتاب گواہ ہے کہ جس میں کابینہ مشن مسترد ہونے کے بعد جواہر لعل نے امریکہ گئے کانجی کو خط میں لکھا کہ کانجی تم امریکہ ہی رکو اور وہاں لابیوں سے روابط بناؤ، دو ملک تو بن جائیں گے کہ انڈیا کو اگر ترقی کرنی ہے تو اسے امریکی کیمپ میں جانا چاہیے۔
کرپس مشن، کابینہ مشن اور ماؤنٹ بیٹن پلان میں اس دباؤ کا اہم کردار تھا۔ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور سوویت یونین (روس) جیسے دشمن کا ظہور اس نئے بندوبست کے اہم اجزا تھے جو اٹلانٹک چارٹر کے بعد امریکہ نے 1946 تک کھڑا کیا۔ بقول نام چومسکی سوویت یونین تو امریکہ کا سیلیکٹڈ دشمن تھا کہ سرد جنگ ایک طے شدہ ڈرامہ تھا جس کا سکرپٹ یالٹا میں سانجھا کیا گیا تھا۔
1944 وہی سال تھا کہ جب برٹش انڈیا میں راج گوپال اچاریہ کے اصرار پر جناح گاندھی ملاقات کا ڈول ڈالا گیا تو مہاتما نے کانگرس کی ترجیحات بتاتے ہوئے محمد علی جناح پر واضح کر دیا تھا کہ اگر ہمیں بھارت ماتا کی تقسیم پر راضی ہونا بھی پڑا تو ہم پنجاب و بنگال کی تقسیم کروا کے دم لیں گے۔ پنجاب کی تقسیم کیسے ہو گی اس بارے امبیدکر تو 1940 ہی میں مفصل کتاب لکھ چکے تھے کہ جس میں دنیا میں ہونے والی بہت سی تقسیموں کی گھٹیا مثالیں امبیدکر نے دی تھیں۔ یہ وہ وقت تھا جب کانگرس کی قیادت جیل میں تھی، مسلم لیگ کا ستارہ عروج پر تھا اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا بھی ان کی ہمنوا تھی۔ دسمبر 1945 میں ہونے والے الیکشن نے ثابت کر دیا کہ انڈین مسلمان کانگرس کی بجائے مسلم لیگ کے ساتھ ہیں۔ پنجاب میں مگر انہیں 175 میں سے 80 سے زیادہ سیٹیں لینے کے باوجود حکومت نہ بنانے دی گئی تھی، سنگل لارجسٹ پارٹی ہونے کے باوجود انگریز گورنر نے انہیں حکومت سازی کی پہلی پیش کش ہی نہ کی۔ یوں کانگرسیوں اور اکالیوں کی پشت پناہی سے 20 سیٹیں جیتنے والا خضر حیات تخت پنجاب پر براجمان کر دیا گیا۔ یہ تقسیم پنجاب کی تیاری کا اعلان تھا۔ مئی 1946 میں انگریز حکمرانوں نے عزت سادات کی رکھوالی کے لیے کابینہ مشن کا منصوبہ دیا جس میں صوبے تو مضبوط تھے مگر مرکز کمزور رکھا گیا۔
یہ وہی منصوبہ تھا جسے لارڈ ویول سے ملاقاتوں کے دوران کانگرس کے صدر مولانا ابوالکلام آزاد نے اے بی سی پلان کے عنوان سے ڈسکس کیا تھا۔ کانگرس کو 1946 کے انتخابی رزلٹ کا پتہ تھا کہ کابینہ مشن نے جو 3 زون بنائے تھے ان میں دو زونوں کی اسمبلیوں میں مسلم لیگ کے ممبران زیادہ تھے۔ کانگرس کی ورکنگ کمیٹی کا ریکارڈ گواہ ہے کہ وہ فیڈرل انڈیا کی بجائے مضبوط مرکز کے حامی تھے کہ کانجی دوارکا داس، جسونت سنگھ سمیت کئی لکھاریوں نے بھی اس کی تصدیق کی ہے۔ جب جناح نے کابینہ مشن مان لیا اور مطالبہ پاکستان سے پیچھے ہٹ گئے تو کانگرس نے 3 جون سے دس ماہ قبل کابینہ مشن پلان ہی مسترد کر دیا۔ اس کا جواب ڈائریکٹ ایکشن ڈے سے اگست 1946 میں آیا تو جواب الجواب ستمبر میں بہار کے فسادات کی شکل میں بھی دیکھا گیا۔ یوں انڈیا کو متحد رکھنے کا آخری منصوبہ بھی غارت ہو گیا۔
مولانا آزاد نے کابینہ مشن مسترد کرنے کو کانگرس اور نہرو کی ہمالیائی غلطی کہا مگر اس وقت کھڑے نہ ہو سکے۔ اکتوبر 1946 سے دسمبر کے درمیان سارے فیصلے ہو گئے کہ مشن ود ماؤنٹ بیٹن کے مصنف اور ماؤنٹ بیٹن کے پریس سیکٹری ایلن کیمبل جانسن کے بقول اسے 19 دسمبر کے سرد دن گاڑی کے شیشے چڑھا کر انتہائی رازداری سے ماؤنٹ بیٹن نے بتایا کہ اسے وائسرائے انڈیا بنایا جا رہا ہے۔ برٹش انڈیا آمد کے بعد ایک دن جانسن نے اپنے باس لارڈ اسمے سے پوچھا کہ ماؤنٹ بیٹن کیسے کانگرس اور مسلم لیگ کو ایک تصفیے پر لائے گا۔ تو اسمے نے کہا کہ میں نے یہی سوال ماؤنٹ بیٹن سے پوچھا تھا۔ اس نے کہا تھا کہ جب کانگرس والوں سے ڈیل فائنل کروں گا تو ان سے کہوں گا کہ اگر تم تصفیے پر نہ پہنچے تو میں سب کچھ صوبائی حکومتوں کے حوالے کر کے چلا جاؤں گا۔ کانگرس والے صوبوں کو زیادہ حقوق دینے کے سخت خلاف ہیں، اس لیے انہیں میرا پلان ماننا پڑے گا۔ مگر مسلم لیگ کو میں فقط یہی کہوں گا کہ اگر تم کسی تصفیے پر نہ پہنچے تو میں سب کچھ کانگرس کو دے کر چلا جاؤں گا۔ بعد ازاں ماؤنٹ بیٹن نے ایسے ہی کیا اور سب 3 جون کے پلان کے دستخطی ہوئے۔ تاہم جس گھٹیا طریقے سے پنجاب اور بنگال کی تقسیم اور سلہٹ اور صوبہ سرحد کا ریفرنڈم کروایا گیا وہ انگریزوں کی گورنینس پر کلنک کا ٹیکا ہے اور تادیر رہے گا۔ جس طرح پہلے اسمبلیوں کو دو دو حصوں میں توڑا گیا اور کہا کہ اگر کسی ایک حصہ نے بھی تقسیم کے حق میں ووٹ دے دیا تو تقسیم ہو جائے گی۔ یعنی پہلے بکرے کے دو ٹکڑے کیے اور بعد میں دونوں پر الگ الگ تکبیر پڑھوا دی۔
اب 76 سال بعد یہ سب تاریخ دہرانے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ گزرے کل کی لکیر پیٹی جائے بلکہ توجہ اس بات کی طرف دلانی ہے کہ 3 جون کے جس منصوبے کی بدولت وسط اگست میں آزادیاں ملیں وہ مجبوری میں کیا ایسا تکونی سودا تھا جس پر کوئی خوش نہ تھا۔ مسلم لیگ پنجاب و بنگال کی جبکہ کانگرس بھارت ماتا کی تقسیم نہیں چاہتی تھی تو انگریز یہاں سے جانا نہیں چاہتا تھا۔ مگر تینوں کو یہ سب کرنا پڑا۔ مگر وسط 1947 کے بعد تینوں ہی نے اسے تفاخر سے بیان کرنا شروع کر دیا۔ انگریزوں کا تو حال ان کے ممبران اسمبلی کی آزادی ایکٹ 1947 پاس کرتے وقت کی تقاریر میں عیاں ہے کہ ہر کوئی اسے آن لائن برٹش اسمبلی کی ویب سائٹ پر میری طرح پڑھ سکتا ہے۔ کسی ایک نے بھی اٹلانٹک چارٹر کے ڈنڈے کا ذکر بھی نہ کیا۔ زیادہ تر ممبران اسمبلی یہ فرماتے رہے کہ ہم نے تو اپنے سبجیکٹ یعنی رعایا پر بہت مہربانیاں کیں۔ اسی لیے بچارے پیٹر کلارک کو لکھنا پڑا کہ ہم اسمبلی میں بھی جھوٹ بولتے رہے۔ یہ جھوٹ بالعموم نئی برٹش نسل تک میں سرایت کیا ہوا ہے۔ دوسری طرف جڑواں ممالک پاکستان اور ہندوستان کا بھی یہی حال رہا کہ ان کی نصابی کتابوں سے درباری و غیر درباری تاریخ دانوں تک کسی نے بھی مجبوری کے سودے کو سر کا تاج بنانے کے بیانئیے کو ایکسپوز نہ کیا۔ اس بھرم کو رکھنے کے لیے کئی مزید جھوٹ گھڑنے پڑے کہ جس میں سے ہی اسلام پرستی اور ہندوتوا کے بیانیوں کو تقویت ملی۔ ذرا غور کریں کہ اگر وسط اگست 1947 کے بعد دونوں ملک مجبوری میں کیے سودے کا بیانیہ بناتے تو خوامخواہ کے تفاخر کے بت بنانے کی بجائے یہاں بردباری اور خرد مندی کی گنجائش پنپتی۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ تفاخر اور تعصب ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں کہ جس سے تعفن کا بڑھنا مقدر۔