بر صغیر ہندوپاک پر سامراجی اثرات

 محمد صدیق ڈوگر ایڈووکیٹ (چونیاں)

امریکی دانشور ویل ڈیوراں کی کتاب ہندوستان کے مترجم طیب رشید پیش لفظ میں لکھتے ہیں‘‘ہزاروں برس سے ہند کی دھرتی اپنے دامن میں لئے ہمیں بڑی شفقت سے پال رہی ہے۔اس کی لازوال محبت ہمارے نقوش کی لیکروں میں چھلکتی ہے۔یہی ہماری پہلی اور آخری پہچان ہے۔لیکن افسوس کی بات ہے کہ ہم اپنی ہی دھرتی کی تاریخ سے پوری طرح آگاہ نہیں ہیں۔جتنی بھی اور جیسی بھی تاریخ ہمیں کٹورے میں بھر کر دی جاتی ہے۔اسے پی کر مطمئن ہو جاتے ہیں۔1947ء میں ہند کی کوکھ سے پاکستان جنم لیتا ہے۔جو صدیوں سے تاریخ و سماجی حوالے سے رسمی ہند کا حصہ رہا ہے۔ہمارے حکمران متواتر پاکستان اور اس میں لینے والوں کا تاریخی و سماجی نا مہ ہند سے جدا کر کے مشرق وسطےٰ سے یعنی عربوں سے جوڑنے کی ناکام کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔نتیجہ میں شناخت کا بحران پیدا ہو گیا ہے۔یہاں کا شہری اپنا ناطہ دھرتی  سے جوڑنے کی بجائے بیرونی حملہ آوروں سے جوڑنے کی کوشش میں اپنی شناخت بھی بھول جاتا ہے۔آباد اجداد کی شناخت چھوڑ کر بیرونی شنا خت کے لیے انصاری ،رحمانی ،مغل ،ملک ،شیرازی ،بخاری ،قندھاری ،غزنوی، غوری ،خلجی، غازی، نجفی وغیرہ میں چھپنے کی کوشش کرتا ہے- حالانکہ اس دھرتی سے جنم لیا ہے اور اس کا کھاتے ہیں بابل و نینوا ،اہرام مصر، بدوی  ومجاز یمین، اورایرانی تہیز بییں اور انکا ماضی تاریخی حوالے سے اپنا مقام رکھتے ہیں مگر ہمارا ماضی ہڑپہ اور ٹیکسلا دیبل ،پاٹلی پتر جیسی قدیم تہذیب سے جڑا ہوا ہے۔جسے دنیا  وادی  سندھ کے نام سے جانتی ہے 

 کے کےعزیر نے اپنی کتاب” تاریخ کا قتل”  لکھ کر حکمران طبقہ کی قوم کو گمراہ کرنے سازش کو بے نقاب کیا ہے۔بیرونی حملہ آوارلیٹروں   غزنوی ،غو ری ،ابدی تیموری تا  شاہی ترک اور عربوں کو ہمارا ہیرو بنایا جا تا رہا ہے جبکہ دھرتی   کا دفاع کرنے والوں جیسے پورس، رنجیت سنگھ ،بھگت سنگھ ،       لالہ لاجپت رائے ۔مولوی برکت اللہ،محمد اشفاق خاں، دُلا بھٹی،رائے احمد کھرل وغیرہ کو اہمیت نہی دی گئی۔اسی طرح حملہ آوروں کی زبانوں یونانی ،ترکی ،عربی ،ایرانی ،انگریزی کے الفاظ سے مل کر نئی عسکری زبان اردو ،عربی اور انگریزی زبانوں کو قومی اور لازمی قرار دیا ہوا ہے جبکہ علاقائی زبانوں کو ممنوع قراردیا ہے۔ملک کی 65فیصد آبادی کی ماردری زبان پنجابی سرائیکی نہ تحریر میں ہے اور نہ تقریر میں یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ہمارے حکمران گروہ کی بیرونی حملہ آوروں سے کیا نسبت ہے۔سماج میں نئے اور پرانے سامراجی اثرات موجود ہیں۔تعلیمی اداروں میں تاریخ کا مضمون حذف کرکے مطالعہ پاکستا ن کے نام پر نئی نسلوں کو گمراہ کیا جا رہا ہے۔

برصغیر ہندو پاک کا تاریخی پس منظر

قریباً 20لاکھ مربع پر مشتمل ایک تکون کی شکل میں جزیرہ نما خطہ جو شمال میں ہمالیہ کی برفوں سے شروع ہو کر سری لنکا کی گرمی تک سکٹرتا ہوا بحرہند تک آتا ہے۔رقبہ میں امریکہ کا دو تہائی اور برطانیہ کا بیس گنا برصغیر ہند ہے۔دنیا کی آبادی کا قریباً پانچواں حصہ ہے۔ہند کے شمال مغرب میں ابا سین سندھ یا مہران دریا اور اس کے معاونین جہلم چناب راوی بیاس اور ستلج وغیرہ کے سیلابی ریلوں کے لاکھوں سال میں مٹی لا کر دنیا کے عظیم اور زرخیز ترین میدان کو جنم دیا ہے جو سند ھ پنجاب پر مشتمل ہے۔جو وادی سندھ کہلاتا ہے اور آج پاکستان کا حصہ ہے۔یہ خطہ وافر مقدار میں خوراک پیدا کرتا ہے اور یہی اس کی کمزوری بھی رہی ہے۔آس پاس کی بھوکی قوموں کی نظر اسی خطہ پر رہی ہے۔آریہ ۔ ہن۔سیتھین۔یونانی، ترک ۔۔۔افغان ،عرب ،ایرانی اور آخر میں انگریز سب بھوک مٹانے اسی خطہ پر حملہ آور ہوتے رہے ہیں اور حکمران بھی بنے۔یہاں کے زراعت پیشہ لوگ پر امن تھے۔امن پسند اور زرخیزی کی نسبت سے یہ خطہ صدیوں سے سامراجی مداخلت اور غلبہ کا شکار رہا ہے۔

تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ پرانی دنیا میں دریاؤں کے حوالے سے چار قدیم ترین انسانی تہذیبیں موجود تھیں جہاں کے باسی زرعت پیشہ اور دستکار ،مہذب زندگی بسر کرتے رہے۔ دریائے زرد اور دریائے یانگتسی کی وادیوں میں چینی تہذیب ۔ دریائے دجلہ اور فرات کے درمیان کا علاقہ، جسے تاریخی طور پر بین النہرین (میسوپوٹیمیا) کہا جاتا ہے، کے حوالے سے عراقی تہذیب ، نیل کے حوالے سے مصری اور دریا ئے سندھ کے حوالے سے وادی سندھ ،یہی ہماری تہزیب اور جنم بھومی  ہے۔تیسری صدی قبل مسیح تک وادی سندھ میں دراوڑی تہذیب پھل پھول رہی تھی۔ہڑپہ کی کھدائی میں اوپر نیچے چار شہر اور اسی طرح مہینجو ڈارو اور دیگر علاقوں  کی آبادیوں کی کھدائی اس کی شہادت دے رہی ہے چپٹی ناک والے رنگ وار باشندے، لکڑی کے ہل ،بیل گاڑی پر مشتمل کاشت کاری اور دستکاری کے ہنر سے واقف تھے۔کھدائی سے گھریلواستعمال کے منقش بہترین  برتن ،شطرنج کے مہرے،مہریں،تانبے کے ہتھیار،سونے چاندی کے زیورات اور سکے اعلی دستکاری کا ثبوت ہیں۔نہ صرف یہ تہذیب باقی تین تہذیبوں کے ہم پلہ تھی بلکہ ان کے ساتھ تجارتی  رابطے  بھی تھے۔

آریائی حملہ

اڑھائی تین ہزار سا ل قبل بحیرہ حضرر اور بحیرہ اسود کے آس پاس کے علاقے سے غالباً عمومی خشک سالی کی وجہ سے سفید فام ڈنگر پال جنگجو آریہ قبائل نے براستہ ایران ہندوستان کا رخ کیا۔مار دھاڑ کرتے ہوئے انہوں نے مقامی آبادی دراوڑ ،کو ل ،بھیل وغیرہ کو جنوبی ہند کی طرف و ھکیل  دیا اور جو بچ گئے انہیں شودر کا  درجہ دے کر نیم غلامی میں لے لیا۔پورے شمال مغربی ہند پر قابض ہو گئے مقامی لوگو ں سے زراعت سیکھی اور جنگ و جدل  چھوڑ کر  کاشتکاری کرنے      لگے اور قبائلی حوالے سے چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹ گئے۔آپس میں اور ریاستوں کے درمیان سر پھٹول جاری رہی۔رامائن اور مہا بھارت جیسی اساطیری داستانیں باہمی جنگوں کا پتہ دیتی ہیں ۔پس پہر چاروں دید ۔اپنشد۔ اور گیتامرتب ہوئے جو ہندو قوم کے نزدیک الہامی صحیفے ہیں۔

ہند بنیادی طور پر زرعی معشیت تھی جو جنگ و جدل اور مارکاٹ کی متحمل نہ تھی لہذا آریاؤں کی جنگی خصلت کے رد ِ عمل میں بدھ مت اور جین مت کی تحریکیں ابھریں ۔جنھوں نے اہنسا۔امن اور ذات کی نفی کی خاطر اخلاقی ضابطے دیے۔ اور زراعت میں بنیادی طاقت بیل پیداکر نے والی گائے کا دبیحہ سختی سے منع کیا۔یہ تحریکیں تیزی سے نہ صرف ہند بھر میں بلکہ مشرق میں چین چاپان تک پھیل گیئں۔

دستاویزی تاریخ

 چوتھی صدی قبل مسیح میں ہند پر یونانی حملہ سے قبل مذہبی صحیفوں وید ،اُ پنشد وغیرہ اساطیری داستانو ں رامائین اور مہا بھارت کے علاوہ ہند کی کوئی دستاویزی تاریخ نہیں ملتی ۔سکندر اعظم کی ہند سے واپسی پر پاٹلی پتر کے مگدھ خاندان کا ایک بھگوڑا شہزادہ چندر گپت موریہ اپنے استاد چانکیہ کی مدد سے فوج جمع کر کے  تیکسلا میں یونانی گورنر کو بھگا کر اپنی جدہ جہد سے ہندوستان کو متحد کرتا ہے اور موریہ خاندان کی سلطنت قائم کر کے 24سال حکومت کرتا ہے۔اس کے بیٹے ہندوسار کے بعد 273 ق م میں اس کا پوتا  اشوکِ اعظم تخت نشیں ہوتا ہے۔بدھ مت قبو ل کر کے رواداری اور مذاہب کے احترام اور اخلاقی ضابطے  کتبوں اور لاٹوں پر کندہ کرواکے پوری سلطنت میں نصب کرواتا ہے۔عوامی بہبود اور لبرل پالیسی کی وجہ سے تاریخ میں اعظم کا لقب پاتا ہے۔اسے  حضرت عیسےَ کی اخلاقیات کا پیش رو فلسفی بادشاہ بھی کہا جاتا ہے۔اشوک کے بعد صدیوں تک تاریخ ہند کے نقوش مدھم دکھائی پڑتے ہیں تاہم ٹیکسلا یونیورسٹی اور دیگر بدھ درسگاہیں بدھ مت کی ترویج جاری رکھتی ہیں جسکی بنیاد پر بدھ مت تہذیبیں چین اور جاپان تک پھیل جاتا ہے۔اشوک کے کتبے اور  لاٹیں آج بھی  جگہ جگہ برصغیر میں موجود ہیں ۔

پہلی صدی عیسوی میں ترک نسل کے کشان خاندان نے پہلے کابل اور پھر کنشک نے مغربی ہند پر حکومت کے دوران پشاور ٹیکسلا اور  متھراتک عمارتیں اور بدھ درسگائیں بنوائیں اور بدھ مت کی ترویج کر کے اشوک ثانی کہلوایا۔بعد  ازاں گپتا خاندان کے چندر گپت اول نے گپتا سلطنت قائم کی ۔دوسرے بادشاہ سمودر گپت نے صد مقام ایودھیہ اور اس کے وارث وِ کرم  نے  جسے عام طور پر  پیکرِ محبت بھی کہا جاتا ہے۔اُجین کو مرکز بنایا ۔دیسی مہینو ں کا کیلنڈر اسی کی یا د گار ہے۔کلاسک ڈرامہ شکنتلا کا منصف کالی داس اسی دور میں ہوا۔پھر سفید فام ہن قبائلی شمال سے حملہ آور ہوئے اور گپتا سلتطنت تباہ کر دی ۔ وحشی تورمال اور ماہیر گول جیسے حملہ آوروں نے صدی تک اندھیرا کر دیا۔بعد ازاں اسی خاندان کے ہرش وردھن نے شمالی ہند میں قبضہ بحال کرکے قنوج کو مرکز بنوایا۔

ہرش و جیع  بہادر اور دانشور حکمران تھا۔گپتا خاندان کے بعد ہند بھر طوائف  الملوکی اور انتشار  کا شکار ہو گیا۔ہنددؤں کی باہمی تقسیم اور جنگ کے باعث مرکذیت ختم ہو گئی۔اور چھٹی صدی سے دسویں صدی عیسوی تک ہند بیرونی حملہ آوروں کو دعوت دیتا رہا۔

قدیم ہند فلسفہ علم و ہنر سائنس

 چھٹی صدی عیسوی تک ہند میں فلسفہ علم و حکمت اور سائنس کی ترقی پر کتابیں لکھی جاسکتی ہیں تاہم چند مثالیں ہیں۔

براہسا پتی اور دیگر مادیت پرستوں ، جنہیں چار وا کاس کا نام دیا گیا کے مطابق :”محسوسات کے علاوہ علم  و  ادراک کا اور کوئی راستہ نہی  ہے  خواص کے دائرہ کار کے باہر واہمہ  ہے –سراب ہے۔اصل حقیقت مادہ ہے۔مذہب  محض حیلہ سازی ہے۔اخلاقیات فطری ہیں۔ اِن مادہ پرست فلاسفروں کے مطابق۔۔اپنشد  ہے، سورگ ہے نہ انتم  نجات  — روح ہے نہ کوئی ابدی دنیا — وید پرانی پچھتاوے کی راکھ اور گردہیں۔۔۔”

اپنشد میں استا دشاگرد کا مکالمہ نام لیے بغیر ایٹمی تصور پیش کرتا ہے۔—شاگرد سوال کرتا ہے کہ کائنات کیا ہے؟- کیسے بنی ہے۔؟—-استاد ایک انجیر لانے کو کہتا ہے اور کہتا ہے اسے تقسیم کرتے جاؤ۔آخر میں ایک  بیج  سا ، رہ جاتا ہے۔استاد کہتا ہے ـ”باریک ترین جو ہرجسے تم دیکھ نہیں سکتے- وہی حقیقت، وہی اصلیت کا مل ہے -ساری دنیا کی روح اس باریک ترین  جزومیں ہے۔”

آریہ بھرت عظیم نجومی اور ریاضی دان ہے۔سورج گرہن اور چاند گرہن اور قطبین کی سمت کا تعین کرتاہے۔زمین کی گردش روزانہ سورج کے طلوع اور غروب کی زمہ داری ہے۔اس کے مطابق زمین اپنی کشش کے باعث چیزوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔اعشاری نظام آریہ بھرت اور برہماگپتا سے منسوب ہے۔کنڈا کے مطابق دنیا مختلف عناصر کے متنوع ایٹموں سے مل کر بنی ہے۔روشنی اور حرارت ایک جوہر کی اشکال ہیں۔سورج تمام حرارت کا منبع ہے۔ہندوماہرین قبل مسیح میں مانع حمل کا مشورہ دیتے تھے۔وید حکیم ،سو شروتا ،جراحی کا ماہر تھا اور ایک سو اکیس آلات جراحی استعما ل میں لاتا تھا۔چھٹی صدی تک ہند کی صنعتی کیمیا دنیا سے بہت آگئے تھی۔چوتھی صدی ق م میں ڈھالی گئی اشوکا کی نسبت سے دھاتی لاٹ جو آج بھی دہلی میں نصب ہے۔ماہرین کے لیے معمہ ہے۔۔۔کہ وہ ہزار سال بعد بھی زنگ سے محفوظ ہے۔برتن سازی سونے چاندی کے زیورات،فولاد سازی،کپڑے کی صنعت میں تو ہند یورپ میں صنعتی انقلاب تک دنیا بھر کی ضروریات پوری کرتا رہا ہے۔انگریزواں نے تنگ آکر ہند کی  کپڑے کی صنعت کا مقابلہ کرنے کے لیے یہاں کے کاریگروں کے انگوٹھے کاٹ دیے۔

مسلم حملہ آور

چھٹی صدی سے ہی ہند طواف الملوکی کاشکار تھا۔ہمسایہ میں ایرانی سلطنت عرصہ سے رومن ایمپائر سے ٹکراؤ میں تھی لہذا وہ ہند کی طرف توجہ نہ دے سکی ساتویں صدی کے آخر تک ریاست مدینہ جزیرہ نما عرب سے نکل کر بزور بازوہمسایہ ممالک فلسطین  ،شام لبنان ،مصر ،عراق، آرمینیہ ،قبر ص، یمن اور ایران کو فتح کر کے ریاست دمشق میں ڈھل چکی تھی ۔سامراجی روپ دھارنے کے علاوہ  یہ ریاست ،مدینہ کے بانیوں کے بچوں کو بھی کھا چکی تھی۔بلوچستان  اورمکران اس وقت ایرانی صوبہ ہونے کی وجہ سے ایران کے ساتھ ہی عربوں کے قبضہ میں جا چکا تھا اور اب عربوں کی نظر ہند پر تھی۔بلوچستان سے سندھ پر کئے حملے ہوئے مگر ناکام رہے۔آٹھویں صدی کے شروع میں محمد بن قاسم کی قیادت میں بھر پور حملہ میں سندھ اور ملتان تک جنوبی پنجاب عربوں کے قبضہ میں چلاگیا۔راجہ داہراور اسکا خاندان اور لاکھوں جنگ کے قابل جوان قتل کردیے گئے۔بچے اور عورتیں لاکھوں کی تعداد میں غلام بنا کر دمشق اور دیگر شہروں کی منڈیوں میں فروخت کیے گئے۔راجہ داہر کی بیٹیاں خلیفہ سلیمان کو تحفہ میں بھیجی گئیں۔مال غنیمت اور لوٹ مار کے لیے ایک ہی مثال کافی ہے۔ملتان کے بڑے مندر سے سینکڑوں من وزنی سونے کا بٹ لوٹا گیا جس سے فتح سندھ کے تما م اخراجات پورے ہوگئے۔

شمال مغرب سے حملوں کا سلسلہ

دسویں اور گیارھویں صدی میں مسلم حملہ آور وں کا دوسرا ریلہ شمال مغرب سے شروع ہوتا ہے۔ترک نسل کے  غزنی کے حکمران محمود غزنوی نے ہند خصوصاً پنجاب پر 17بار  حملہ  کیا اور لوٹا- اور جنوب میں  سومناتھ کے  مندرسے سونا چاندی اور ہیرے جواہرات لوٹ کر بت  شکن کا لقب بھی خودہی لے لیا۔اس کے بعد محمد غوری پنجاب پر حملہ آور ہوا۔پر تھوری راجہ اور جے پال نے سخت مزاحمت کی مگر مارے گئے۔محمد غوری کو پنجاب کے  گکھڑوں نے قتل کردیا-جبکہ اس کا ن نائب قطب الدین دلی فتح کرنے میں کامیاب ہوگیا اور دلی پر مسلم  حکمرانی   کی بنیاد رکھ دی۔1526ء تک خاندان غلاماں،خلجی،تغلق ،سوری اور  لودھی۔۔۔وغیرہ دلی پرحکمران رہے اور پھر بابر نے مغل سلطنت کی بنیاد رکھی۔ملک کی اکثریت غیر مسلم تھی ۔مسلم حکمران انتظامی اشرافیہ زیادہ تر باہر سے لاتے تھے۔مقامی آبادی کے بارے میں ایک ہی پالیسی تھی کہ زیادہ سے زیادہ ٹیکسوں کے ذریعے دو وقت کی روٹی تک انہیں محدود رکھا جائے۔تا کہ بغاوت کا نہ سوچ سکیں۔حاکم و محکوم میں دوری  اور لا تعلقی۔۔۔اس قدر تھی کہ 1398ء میں امیر تیمور ثمر قند سے آکر دلی میں لوٹ مار اور قتل و غارت کر کے بعد میں بِلا  رکاوٹ خود ہی واپس چلا جاتا ہے۔حکمران سب بیرونی حملہ آور تھے  اور واحد مقصد لوٹ مار تھا۔جب تک طاقت ہوتی حکومت کرتے پھر کوئی زیادہ طاقت ور آتا اور قبضہ کر لیتا۔بابر نے کابل میں بیٹھ کر پنجاب کو افغانوں کی مدد سے 26با ر لوٹا اور کھوپڑیوںکے مینار بنائے اور پھر پانی پت میں ابراہیم لودھی کو قتل کرکے دلی کا حکمران بن گیا۔

مغل حکمرانوں میں اکبر وہ واحد بادشاہ تھا جس نے ہندوستان کو حقیقیت میں اپنا وطن تصور کیا اور ہندوستانی آبادی کو بھائی چارے

۔لبرل ،سیکولر پالیسی اپناتے ہوئے غیر مسلم عوام پر مکمل اعتماد کیا۔فوجی سر براہ مان سنگھ راجپوت وزیر مال  ٹوڈر مل، اور  بادشاہ کے دربار میں تما  م عقائد کے دانشور اور اہل علم لوگ شامل تھے۔اکبر بھگتی تحریک کا سچا پیروکار تھا -تاریخ نے اکبر اعظم کا خطاب دیا۔اس کے وارثان جہانگیر اور شاہجہاں نے کم و بیش وہی طرز حکمرانی روا رکھا۔مقامی آبادی میں اعتماد پیدا ہوا۔حاکم محکوم کے درمیان فاصلے کم ہوئے ٹیکسوں کا بوجھ کم کیا گیا اور طویل امن سے معشیت مستحکم ہو گئی۔وسعت اور طاقت کے حوالے سے سولھویں صدی کی مغل سلطنت دنیا میں متعارف ہوئی اور یورپ تک کے وفود ہند آنے لگے۔شاہجہاں کے دور میں ہندوستان دنیاکا امیر ترین ملک تھا ۔

بدقسمتی سے شاہجہاں نے قومی وسائل تاج محل تحت طاؤس اور لال قلعوں جیسے  اللے تللے جیسےشوق میں ضائع کروئے جبکہ اسی دور میں برطانیہ اور یورپ میں کالج اور یونیورسٹیاں تعمیر ہو رہی تھیں اور صنعتی انقلاب کی بنیاد رکھی جارہی تھی۔شاہجہاں کی بیماری کا سن کر اورنگ زیب نے لشکر کشی کر کے باپ کو قید کردیا اور اقتدار کی ہوس میں بھائی ،بھتیجوں کو قتل کرکے عالمگیر   نام سے تخت پر بیٹھا۔اپنے جرائم اور ضمیر کے بوجھ کی وجہ سے مذہب کے پردہ میں پناہ لی اور مومن کا روپ دھار لیا۔معاشرے میں تہذہبی ترقی اور زندگی کو خوبصورت بنانے والے تمام مشاغل آرٹ فن، ادب، موسیقی وغیرہ پر سخت پابندی لگا دی۔مساجد کی تعمیر اور غیر مسلم عباد ت گاہوں کی بندش کی پالیسی جاری رکھی۔معاشرے میں بے چینی اور عدم اطمینان بڑھنے لگا اور بغاوتیں پھوٹ پڑیں  اس نےپچاس سال اپنی ہی قوم سے جنگ جاری رکھی۔ٹیکسو ں کا بوجھ بڑھ گیا ۔کسان زمین چھوڑ کر باغیوں میں بھرتی ہونے لگے۔سکھ اور مرہٹہ تحریکیں کسان بغاوتیں تھیں۔پچاس  سال قتل و غارت گرمی کے بعد تنگ نظر ملا 1707ء میں ملک کو جلتا ہوا چھوڑ کر مر گیا–ساتھ ہی صوبے آزاد ہونے لگے اور مغل سلطنت بکھرنے لگی اور بالاخر دلی تک سکڑ گئی جسکا خاتمہ1857ء میں انگریزوں نے بہادر شاہ ظفر کو گرفتار کرکے کردیا۔آج پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو حیرانی ہوتی ہے کہ اتنے بڑے ملک پر آ ٹھ صدیاں مسلم حکمرانی کا حاصل کیا ہے۔؟ مودی کے نام کا ایک تنگ نظر  کٹر ہندو دہلی کے تخت پر بیٹھا گائے کے تقدس میں کروڑوں مسلمانو ں کا جینا حرام کئے بیٹھا ہے اتنے ہی مسلمان پاک کہی جانے والی دھرتی میں فوجی بوٹ تلے دیے ہوئے ہیں۔اور مشرق کی طرف کروڑوں بنگالی مسلمان اپنے ہی بھا ئیوں کی غلامی سے نکلنے کے لیے لاکھوں جانوں اور عزتوں کی قربانی دے چکے ہیں۔

حکمرانوں کی خوشنودی کی خاطر مذہب تبدیل کرنے سے محنت کشوں کی معاشی حیثیت تبدیلی نہیں ہوتی۔وہ رام رام کر کے بھی شودر یا ویش ہی رہے گا ۔ کلمہ پڑھنے سے بھی  کمی کمین ہی کہلائے گا اور نئے حکمرانوں کی پیروی میں عسائیت قبول کر کے خاکروب یا سینٹری ورکر بن جائے گا۔ہمارے بڑے بھی  پدرم سلطان بود کے نعرے لگاتے اور خوش ہوتے رہے۔علامہ اقبال صاحب بھی اسی خوش فہمی میں نعرہ لگا بیٹھے

دشت تو دشت دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے

                                                بحر ظلمات میں دوڑا دئے گھوڑے ہم نے

سوال ہے کہ ہم کون تھے؟ وہ جو اللہ اکبر کے نعرے لگا کر ہماری بہو بیٹیاں اور مال و دولت چھین کر لے جاتے رہے ۔اتفاق سے کبھی جساً سنگھ جیسا نوجوان ان لٹیروں سے بچا ہی لیتا تھا۔(احمد شاہ ابدالی کی طرف  اشارہ) –برصغیر میں مسلم حکمران خاندان بنیادی طور پر بیرونی حملہ آور تھے اور فاتح بن کر آتے تھے -ہند پر مسلم حکمرانی بنیادی تضادات کا شکار رہی۔

نمبر1- مقامی ابادی  کے ساتھ تاریخی، نسلی،لسانی،فقری،سماجی و تہذہبی سانجھ نہ تھی ۔ لہذا انتظامی ڈھانچہ بھی باہر سے لایا جاتا۔حاکم و محکوم کے درمیان لا تعلقی اور دوری قائم رہتی ۔سرکاری زبان بھی عربی،ترکی اور فارسی ہی چلتی رہی۔ہر حکمران کی بنیادی ترجیح ذاتی اقتدار برقرار رکھنا تھا۔جس کی بنیاد محض طاقت تھی عوامی فلاح یا ملکی بہتری ترجیح میں شامل نہ تھی۔

نمبر2۔بیرونی حملہ آوروں اور قاتحین کے درمیان انتقال اقتدار ،اور جانشینی کے قوائد اور قانون  موجود نہیں  تھےبلکہ طاقت ہی فیصلہ  کن ہوتی  تھی۔حکمران خاندان کے درمیان بلکہ خاندان کے اندر بھی اقتدار کی تبدیلی اور جانشینی کی خاطر خانہ جنگی جاری رہتی۔ اورایسے ماحول میں معشیت اور وسائل کی تباہی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔

نمبر3۔ملک بھر میں پیداواری عمل صنعت ،دستکاری ،تجارت اور زراعت وغیرہ بنیادی طور پر غیر مسلم آبادی کے ہاتھ میں تھا جبکہ حکمرانی کا کوڑا مسلمانوں کے پاس تھا  لہذا سرمایہ کاری نجی ہاتھوں میں جمع ہونا ممکن نہ رہا۔اگر کسی کے پاس ارتکاز  زر ہوا بھی تو وہ خوف کی وجہ سے اسے تعمیر ی مقاصد یعنی تعلیم و تربیت ، تحقیق اور معاشی وسائل کی ترقی پر صرف کرنے کی بجائے زیر زمین چھپا لیتا تھا۔یہی سب سے بڑا تضاد تھا جس کی وجہ سے ہند میں معاشی وسائل کی ترقی صدیوں جمود کا شکار رہی۔ترقی یافتہ تبدیلیوں کا مالک ہندوستان جیسا گیاریویں صدی میں مسلمانو ں کے ہاتھ آیا انسیویں صدی میں انگریزوں کی آمد تک ویسا ہی رہا ۔ جبکہ اسی عرصہ میں یورپ ہزار  رسالہ تاریک دور سے چھٹکارہ پا کر صنعتی انقلاب کے ذریعے دنیا پر قابض ہو رہا تھا۔

ترکوں کی تاریخی حماقت

تیرھویں صدی میں منگولیا سے وحشی تاتاریوں کا طوفان اٹھا اور چنگیز خاں کی سربراہی میں سارے ایشیاء کو لپیٹ میں لے لیا۔ ہلاکو خان سنٹرل ایشیاء کو روندتا ہوا بغداد پہنچا اور بیمار عباسی سلطنت کا خاتمہ کر دیا۔ترکوں نے اس کے کھنڈرات پر عثمانی سلطنت کی بنیاد رکھی اور مصر کے علاوہ تمام ممالک قبضہ میں لے لیے۔چودھویں صدی کے وسط تک یہ سلطنت عروج پر پہنچی۔اس وقت یورپ صلیبی جنگوں میں ناکامی کے بعد پاپائیت کے بوجھ تلےہز ارسالہ تاریک دور سے  گزر رہا تھا- اور ضروریات زندگی  کے لئے ہندوستان  اور  چین کا محتاج تھا –تجارتی راستہ ایران اور ترکی سے گزرتا اور آبنائے با سفورس جو کہ ایشیا ء سے یورپ سے جدا کرتا ہے پارکرکے یورپ سے جداکرتا  ھے پار کر کےیورپ جاتا۔ترکوں نے طاقت کے نشے میں جنت کی بشارت پر آبنائے پار کی اور باز نطینی سلطنت کے صدر مقام قسطیننیہ پر قبضہ کر لیا اور مشرقی یورپ  کی طرف بڑھنے لگے۔یورپ کی تجارتی شاہرگ کاٹ دی گئی۔یہی تاریخی حماقت ثابت ہوئی۔

گلہ گٹنے پر یورپ نیند سے جاگ پڑا اور ہندوستان چین کا راستہ تلاش کرنے کے لیے سمندروں میں کود پڑا۔طاقتور بحری بیڑے بنائے اور جنوبی افریقہ کا چکر کاٹ کر نہ صرف ہندوستان اور چین پہنچے بلکہ براعظم امریکہ آسڑیلیا نیوزی لینڈ اور ہزاروں جزائر پر قابض ہو گیا۔ترکوں کی حرکت نے انسانی تاریخ کا دھارا تبدیل کردیا۔یورپی تجارتی کمپنیاں سمندروں پر قابض ہو گئیں۔ہندوستان  ایک صدی سے انتشار کا شکار چلاآرہا تھا اور پھر بیرونی حملہ آوروں کو دعوت دے رہاتھا چنانچہ برطانیہ کی ایسٹ انڈیا کمپنی نے حکمت عملی سے دوسری کمپنیوں کو بچھاڑکر مقامی حکمرانوں کے باہمی تضادات کو استعمال کیا اور تجارتی مراعات حاصل کرتے کرتے مقامی بے روز گار وں کو فوج میں بھرتی شروع کردیا۔

ء1757  میں تقسیم کرو اور حکومت کروکے فارمولا سے بنگال پر قبضہ کر لیا جس کا بہار اور اڑیسہ بھی حصہ تھے۔سازش اور رشوت سے سراج الدولہ کی بڑی فوج شکست کھاگئی۔جنوب میں بڑی رکاوٹ میسور کے حکمران حیدر علی اور ٹیپو سلطان تھے۔ان کے خلاف مرہٹوں  اور نظام حیدر آباد کو استعمال کیا۔ٹیپو کی شہادت کے بعد بہت جلد بلا  مزاحمت پنجاب کے علاوہ تمام ہند پر انگریز پر قابض ہو گئے۔شیر پنجاب رنجیت سنگھ نے جنگ زدہ اجڑے ہوئے پنجاب کو متحد کیا۔کشمیر اور پشاور تک امن قائم کیا اور نصف صدی تک انگریزوں کے سامنے چٹان کی طرح کھڑا رہا۔اس کی موت کے بعد انگریز پنجاب پر بھی قابض ہو گئے اور اب کوئی مزاحمت باقی نہ رہی۔

انگریز دور

ء 1857تک ایسٹ انڈیا کمپنی ہندپر قابض رہی اور یہ دور لوٹ مارکا دور تھا۔رشوت سازش اور حیلہ بازیوں سے کمپنی نے ملکی و سائل کی لوٹ مار جاری رکھی اور ہند میں صدیوں سے جمع شدہ سونا چاندی ہیرے جواہرات کوہ نور ہیرا سمیت سب چھین لیا۔اس کے رد عمل میں پہلے فوجی دستوں میں بغاوت پھوٹی اور پھر پورے ملک میں پھیل گئی۔بہت سے گورے قتل ہوئے اور دلی بھی چھن گیا مگر مقامی ایجینٹوں اور وفاداروں جیسے مہاراج پٹیالہ اور خصوصاً پنجابی جاگیرداروں کی مدد سے انگریز دوبارہ قابض ہو گئے۔آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر گرفتار ہوا۔شہزدوں سمیت دھرتی کی خاطر لڑنے والوں کو پھانسیا ں دی گئیں جبکہ دھرتی کے غداروں کو جاگیروں اور خطابات سے نوازا گیا ۔پنجاب کے نون، دولتانے، ٹوانے وغیرہ  وغیرہ وہی لوگ ہیں۔اس مرحلہ پر تاج برطانیہ نے کمپنی سے قبضہ لے کر ہندوستان کا کنڑول خود سنبھال لیا۔ ہندوستان کو ریاستی نقطہ نظر سے اس کے زرعی وسائل اور خام مال سے فائدہ اٹھانے اور ایک وسیع منڈی کو محفوظ کرنے کے لیے اقدامات شروع کئے۔براہ راست لوٹ مار پر قابو پایا۔مرکزی سطح پر ریاستی ڈھانچہ تعمیر کرنے کے لیے قوانین اور عدالتی نظام قائم کیا -بنجر زمینوں کو آباد کرنے کے لیے دریاؤں پر بند باندھ کر دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام تعمیر کیا۔اسی طرح ریلوے کا نظام- ابتدائی سطح سے پرائمری سکول کالج -اور دیگر تعلیمی ادارے- ڈاک کا نظام –بنک- لوکل گورنمنٹ کے ادارے  زمین کی پیمائش،کلہ بندی کا مکمل ریکارڈ -مختصریہ کہ برصغیر ہندو پاک میں آج جو جدید اقتصادی و انتظامی ڈھانچہ ہے انگریز کا دیا ہواہے۔اس میں بھارت نے کچھ اضافے کئے ہیں مگر ہمارے حکمرانوں نے اسے بھی تباہ کیا ہے۔

انگریز نے اقتدار مسلمانوں سے چھینا اور ایک صدی کے انتشار اور بد امنی کے بعد ہندوستان میں مکمل نظم اور امن قائم کیا لہذا غیر مسلم آبادی نے اسے اپنی نجات تصور کیا اور حکمرانوں سے تعاون بڑھایا۔چند وطن فروش جاگیر داروں کے علاوہ انگریز بھی مسلم آبادی پر اعتماد نہ کرتے تھے۔دوسری طرف مسلم ملاؤں نے فتوے جاری کئے کہ کافر حکمرانوں کی زبان انگریزی پڑھنا اور ان سے تعاون کفر ہے۔لہذامسلم عوام پسماندگی اور غربت کا شکار ہوگئے جبکہ غیر مسلم انگریزی تعلیم سے فائدہ اٹھا کر کاروبار حکومت، پیداواری عمل، صنعت اور تجارت میں حکمرانوں کے شراکت دار ہو گئے۔سرسید نے جوکہ بطور مجسٹریٹ سرکاری ملازم تھا اپنی کلاس یعنی مسلم اشرافیہ کے لیے جگہ حاصل کرنے کی غرض سے 1857ء کی جنگ آزادی پر “اسباب بغاوت ہند “کے نام پر کتاب لکھی -جس میں مجاہدین اور دھرتی پر جان دینے والوں کو خوب گالیا ں لکھیں اور انگریزی سرکار کی برکتوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے اس سے تعاون کا پرچار کیا۔اس گھناؤ نے فعل کے معاوضہ میں مسلم نواب اور اشرافیہ گروہ کے لیے علی گڑھ کالج کی منظوری لے لی البتہ محنت کش عوام کا کوئی پرسان حال نہیں تھا انگریز نے دیہی زندگی میں خاص مداخلت نہیں کی وہاں پنچا ئتی نظام جاری  رہا اور دیہاتی عوام بدستور اس بات سے لا تعلق رہے کہ دلی میں کون حکمران ہے۔طویل عرصہ کی افراتفری اور ماردھاڑ   کےبعد معاشرے میں مکمل امن سے بڑھ کر کیا نعمت ہو سکتی تھی جو انگریزی حکومت نے فراہم کردی۔

غلام جاگنے لگے-

قریباً دو صدیوں سے مغربی یورپ کے سامراجی ممالک تیسری دنیا پر قابض تھے اور نو آبادیاتی غلام مقدر سمجھ کر خاموش تھے۔کہ 1914ء میں سامراجی ملکوں نے منڈیوں کی چھینا جھپٹی کے لیے پہلی جنگ عظیم شروع کردی۔جنگی ضروریات ،وسائل  وخوراک اور افرادی قوت کے لیے نو آبادیاتی ملکو ں کا محتاج ہونا پڑا۔اس سے ان ملکوں کی اشرافیہ اور عوام کا حوصلہ بڑھا اور انہون نے بیرونی حکمرانوں سے مراعات کے مطالبات شروع کر دیے۔اسی جنگ کے دوران روسی عوام نے بادشاہت کا خاتمہ کرکے ملکی اقتدار سنبھال لیا۔روس پر محنت کشوں کے اقتدار نے عالمی سطح پر روشنی کے مینار کا کام کیا۔پوری دنیا اور خصوصاًنو آبادیاتی غلاموں میں اپنے حقوق کا ادراک جاگنے لگا اور آزادی کے لیے پر تولنے لگے۔ہندوستان میں سیاسی محاذپر کانگرس پارٹی ،مسلم لیگ اور مختلف مذہبی گروپ منظم ہونے لگے۔

ء  1935انڈیا ایکٹ کے ذریعے محدود صوبائی و بلدیاتی اختیارات کے ساتھ محدود رائے شماری کے حقوق دیےگئے۔1939ء میں دوسری جنگ عظیم پھوٹ پڑی ۔یہ خونی اور طویل جنگ تھی جس کے لیے برطانیہ کا ہندوستان پر انحصار بڑھ گیا اور ادھر مکمل آزادی کا مطالعہ ہونے لگا۔سیاسی ابھار نے مختلف تنظیوں کی صورت اختیار کی۔محنت کشوں کی نمائندہ کمیونسٹ پارٹی اور لیفٹ گروپ مسلح جدوجہد کے ذریعے عوامی راج کے لیے منظم ہورہے تھے۔سرمایہ دار اور کاروباری اشرافیہ کانگرس کی چھتری تلے انگریز کی جگہ خود اقتدار حاصل کرنا چاہتی تھی ۔علامہ مشرقی کی احرار پارٹی ،جماعت اسلامی اور دیگر مذہبی بنیاد پرست گروپ ملک میں اسلامی نظام لانا چاہتے تھے جبکہ مسلم لیگ ہندو اکثریت سے خوف زدہ  گو مگوکی کیفیت میں تھی ۔

ء  1935کے انڈیا ایکٹ کے تحت اکثر صوبائی حکومتیں کانگرس کے حصہ میں آئیں اور مسلم لیگ پنجاب میں بھی حکومت نہ بنا سکی۔ادھر کانگرس نے اپنا منشور شائع کردیاجس میں جاگیروں کا مکمل خاتمہ شامل تھا۔مسلم لیگ دہلی کے آس پاس یو پی سی پی کے اردو بولنے والے مسلم جاگیرداروں اور نوابوں اور بنگالیوں پر مشتمل تھی جو علی گڑھ سے تعلیم یافتہ تھے۔متحدہ ہندوستان میں اپنے جاگیرداری مفادات اور مستقبل خطرہ میں دیکھتے ہوئے انہوں نے علیحدہ وطن کا مطالبہ کردیا لہذا1940ء میں قرار داد لاہور منظور کی گئی۔مسلم لیگ اور کانگرس کی کبھی خاموش کبھی اعلانیہ حمائیت سے لیفٹ اور بنیاد پرست تحریکوں کو کچل دیا گیا۔

دوسری عالمی جنگ میں جیت کے بادجود برطانیہ اب مقامی مزاحمت کے پیش نظر اتنے بڑے ملک پر قبضہ قائم رکھنے کی سکت نہ رکھتا تھا لہذا اس کی طرف سے انتقال اقتدار کے لیے مشرقی مغربی اور وسطی بندپر مشتمل تین نیم خودمختار صوبے اور ایک مرکز کا وفاقی ڈھانچہ فارمولا دیا گیا۔جسے مسلم لیگ نے تسلیم کر لیا لیکن امریکی اثر میں نہرو نے رد کردیا۔لہذا جون1947ء میں تقسیم ہند کا اعلان کردیا گیا۔اعلان ہوتے ہی پنجاب کے جاگیر دار راتوں رات یونیسٹ پارٹی چھوڑ کر مسلم لیگ میں کود پڑے۔پنڈت نہرو نے ہوشیاری سے آخری وائسرائے ماؤنٹ بیٹن کو آزاد بھارت کا پہلا گورنر جنرل تسلیم کر لیا جبکہ قائد اعظم یہ عہدہ خود رکھنے پر مصررہے۔اس کا نقصان قومی اثا ثہ جات کی تقسیم میں برداشت کرنا پڑا۔بے چارہ گاندھی پاکستان کی خاطر بنیاد پرست ہندو  نتھورام کے ہاتھوں ماراگیا۔اسی طرح باؤنڈری کمیشن کے ذریعے مسلم اکثریتی آبادی والے ضلع فیروزپور گنڈا سنگھ ہیڈ ورکس اور گورداسپور کشمیر کے لیے راستے کی خاطر بھارت کے حوالے کردیے گئے۔انتقال آبادی تقسیم کا حصہ  نہی تھی مگر مخصوص مفادات نے فسادات  بھڑکا دئے۔وزیر اعلےٰ  بینگال سہر وردی کی موجودگی میں کلکتہ میں ہندو ،مسلم آبادی کا قتل عام ہوا۔ادھر ٹیکسلہ کے علاقہ میں سکھ راہنماء تارا سنگھ کا خاندان قتل کردیا گیا ۔پھر یہ آگ سارے ملک میں پھیل گئی لاکھوں لوگ مارے گئے عزتیں برباد ہوئیں گھر، محلے اور شہر جلا دیے گئے اور تاریخ کی سب سے بڑی خونی ہجرت وجود میں آگئی۔

لیاقت علی خاں میرٹھ اور کرنال کے جاگیر دار خاندان سے تھے جو پاکستان کے وزیر اعظم  کے وزیراعظم نامزدہوئے۔کشمیر ی راہنماء شیخ عبداللہ کا نمائندہ وزیر اعظم سے مل کر کشمیر کے پاکستان میں الحاق بارے صلاح مشورہ کرنے کے   لئے   دو  ہفتے لاہور مقیم رہا مگر لیاقت علی نے وقت دینے کی بجائے یہ مطالبہ کیا کہ پہلے الحاق کا اعلان کرو پھر بات ہو گی۔نمائندہ واپس چلاگیا اور مہاراجہ نے ہندوستان سے الحاق کا اعلان کردیا۔اس پر قبائلی لشکر نے پاک فوج سے مل کر آزاد کشمیر پر قبضہ کر لیا اور سری نگر ہوائی اڈہ پر بھی قابض ہوگئے۔لیاقت علی نے خوف زدہ ہو کر ہوائی اڈہ خالی کرنے کا حکم دیا جس  پرفوج اتار کر بھارت  مقبوضہ کشمیر پر قابض ہوگیا۔بھارت سے ہجرت کرکے آنے والے لٹے پٹے قافلے  کھیتوں کھلیانوں میں پیاروں کی لاشیں چھوڑے ہوئے جب منزل مقصودتک پہنچے تو ان کا کوئی پرسال حال نہیں تھا۔قائداعظم کو صحت کے بہانے زیارت بھیج دیا گیا اور نئے حکمران ہندو سکھ کی چھوڑی ہوئی متروکہ املاک کی  بندربانٹ میں لگ گئے۔پنجابی مہاجرین کے حامی افتخار ممدوٹ کو پنجاب کی وزارت اعلےٰ سے برطرف کرکے  جھرلو انتخاب کے ذریعے دولتانہ ممتاز کو وزیر اعلےٰ بنا دیا گیا۔پنجابی مہاجرین کا لینڈر ریکارڈ لاہور تھا جسکا مرکزی  ہند سے اردو دان مہاجرین کا ریکارڈ موجود نہ تھا- لہذا انہیں بیان حلفی پر الائمنٹ کی اجازت تھی۔کمشزبحالیات  اختر حسین  بھی  یو پی کے مہاجر تھے۔اس طرح متروکہ املاک  اردو بولنے والے مرکزی ہند کے مہاجرین کو لٹا دی گئیں -جبکہ پنجاب سے آنے والے ان پڑھ دیہاتیوں میں سے کچھ کو کچھ ملا اور باقی بے چارے یونٹ ہی بیچنے پر مجبور ہوئے۔

پاکستان نئے سامراج کی گرفت میں

اپنے طبقاتی پس منظر اور مفادات کے تابع وزیر اعظم لیاقت علی خاں نے سوویٹ روس کا دعوت نامہ ٹھکردیا اور امریکہ یاترا پرواشنگٹن چلے گئے اور وہاں پر سوشلسٹ کیمپ کے خلاف سیٹو ،سینٹو ،معاہدہ بغداد ،اتحاد میں شمولیت کر کے ملک کو سامراجی اتحاد ی بنادیا۔پھر لازمی شرائط کے تحت پاک فوج کو محب وطن عناصر سے صاف کرنا اور ملک سے لیفٹ کی تحریک کا خاتمہ ضروری تھا لہذا واپسی پر راولپنڈی سازش کا افسانہ تراش کر جنرل اکبر خاں اور ساتھیوں کو گرفتار کرکے جیلوں میں ڈال دیا اور ساتھ ہی کمیونسٹ پارٹی پر پابندی لگا کر بائیں بازو کی قیادت کو جناب فیض احمد فیض سمیت جیلوں میں ڈالا۔اسی پر صبر نہیں کیا بلکہ پروڈا کے تحت محب وطن سیاسی قیادت باچہ خاں،سہروردی، جی ایم سید ،جیسے چوٹی کے رہنماؤ ں کو غدار قرار دے کر ان پر سیاست ممنوع کردی۔ روس کی جاسوسی کے لیے   امریکہ کوبڈھ بیر کا اڈہ دیا۔ امریکی ہدایات پر عمل کے دوران 1951ء میں گولی کا نشانہ بنے۔اس پر سادہ لوح ناظم الدین پھرنے گورنر جنرل کا عہدہ افسر شاہی کے  چہیتےمفلوج غلام محمد کے سپرد کیا اور خود جمہوری شوق میں وزیر اعظم بن گئے۔غلام محمد نے میوزیکل چیئر کا کھیل شروع کرکے سیاست دانوں کو نچاناشروع کردیا۔کبھی چوہدری محمد علی ،محمد علی بوگر ہ ،سہر وردی ،آئی آئی چند ریگر ،وزیر اعظم کی کرسی پر بٹھائے اور جھکائے جاتے رہے اور آخر میں قومی اسمبلی لپیٹ دی گئی۔جنرل ایوب خاں کو وزیر دفاع لیکر سول و فوجی افسر شاہی کا اتحاد قائم کیا گیا جو آج تک قائم چلا آ رہا ہے اور اب عدلیہ بھی اس میں شامل ہو چکی ہے۔

ء 1956کا آئین نافذ کرکے جعفر از بنگال ،وطن فروش کے خاندان سے جنرل سکندر مرزا پہلے صدر بنائے گئے اور فیروز خان نون وزیر اعظم-  دوسال بعد جب آئین کے تحت ملکی انتخابات ہونا تھے تو خفیہ رپورٹ نے نیشنل عوامی پارٹی کو کامیاب ہوتے دکھایا۔ ایوب خاں نے احمق سکندر مرزا سے آئین منسوخ کروایا اور خود کو مارشل لاء ایڈمینسٹر مقرر کروایا۔چند روز بعد مرزا صاحب کی چھٹی ہو گئی۔اس دور کی اخباری کہانی ہے کہ ایوب خاں کے والد محترم انگریزی فوج میں بطور  بگلچی ملازم تھے اور اس دستہ کا حصہ تھے جس نے پہلی عالمی جنگ میں خانہ کعبہ پر گولہ باری کی تھی۔باقی واللہ عالم۔

ایوب خاں نے ایبڈو کے ذریعے سیاستدانوں کو فارغ کردیا۔کرپشن کے الزام پر سول سروس کی  چھانٹی کی اور جاگیرداروں کا زور توڑنے کے لیے زرعی اصلاحات بھی کیں۔آج کے پاکستان کے صوبائی یونٹوں کو توڑ کر ون یونٹ بنایااور بنگالی اکثریت سے بچنے  کے

 لئے   پیرٹی کے نام پر 1962ء کا آئین خود ہی بنایا اور بی ڈی سسٹم کے تحت لوکل باڈی انتخاب کروایا اور پھر صدارتی الیکشن کا اعلان کروایا۔محترمہ فاطمہ جناح ہمت کرکے مقابلہ کو آئیں مگر بی ڈی ممبران جو کہ ووٹر تھے کو  بذریعہ پولیس قابو کرکے انتخابی ڈھونگ رچایا گیا۔مخالفت پر کراچی کی مزدور بستیوں میں قتل عام سے کامیابی کا جشن منایاگیا۔ُملک فتح کرنے کے بعد کشمیر فتح کرنے کی ٹھانی تو ہندوستان نے لاہور اور سیالکوٹ پر دھاوا بول دیا۔اس مرحلہ پر اتحادی امریکہ نے اسلحہ سپلائی روک لیاور 13دن میں اسلحہ ختم ہوگیا۔روسی وزیراعظم نے تاشقند بلاکر دونوں ملکوں کی صلح کروائی۔بدترین شکست جو 1965ء  میں ہو ئی اس پر ایوب خاں فیلڈ مارشل بھی بن گئے۔امریکی رویہ سے مایوس ہوکر سوشلسٹ کیمپ کی طرف دیکھنا چاہا  اور ساتھ ہی دس سالہ کامیابی کاجشن شروع کیا۔پھر کیا تھا عوام کا صبر جواب دے گیااور وہ سڑکوں پر آگئے۔مزاحمت بڑھنے پر فیلڈ مارشل پر فالج کا حملہ ہوا اور ان کے نائب یحیٰ خاں نے گن پوائنٹ پر اقتدار چھین کر آئین منسوخ کیا اور مارشل لاء لگادیا۔ایوب خان  کےدس سالہ طویل مارشل لاء دور میں جمہوریت کی بساط لپیٹ دی گئی سیاست دانوں کو بے دخل کردیاگیا بعد ازاں کنونشن لیگ کے نام پر لوٹے بھرتی کر لیے گئے۔تاہم برائے نام زرعی اصلاحات فکری حوالے سے انقلابی قدم تھا۔زراعت میں جدید آلات کا استعمال اور صنعتی پیداوار کی حوصلہ افزائی مثبت اقدامات تھے۔ویسے بھی اس کے لبرل اور سیکولر رویہ نے ملک ے سماجی ڈھانچہ کو نقصان نہیں پہنچایا۔

سقوط ڈھاکہ

یحییٰ خاں کے والد انگریزی فوج میں اس دستہ کے رکن تھے جس نے جنرل نیپئر کی سربراہی میں سندھ کے راستے پشاور پر حملہ کیااوروہ علاقہ پنجاب کی سکھ حکومت سے چھینا -وہ ایک نیا آئین بنا کر اپنے اقتدار کو طول دینا چاہتا تھا۔دوسرا کردار بھٹو صاحب  تھےجن کے والد ریاست جو ناگڑھ کے دیوان تھے۔ریاست کا راجہ پاکستان میں اتحاد کی غرض سے قائداعظم سے ملاقات کرنے کراچی موجود تھا۔الزام یہ ہے کہ شاہنواز دیوان صاحب نے کانگرسی لیڈر پٹیل کو خبر کردی جس پر بھارت نے ریاست پر قبضہ کر لیا۔تیسرا کردار مجیب الرحمان جو مشرقی پاکستان کے مفادات کا ترجمان تھا۔قیام پاکستان پر قائداعظم کی موجودگی میں اکثریتی صوبے مشرقی پاکستان پر اردو زبان لازمی کردی گئی جن کی مادری زبان سوفیصد بنگالی تھی لہذااحتجاج ہوا اور گولی چلی۔مشرقی حصہ کو مغربی حصہ کے حکمرانو ں کی نوآبادی بنادیاگیا۔1965ء کی جنگ میں اسے خداکے سہارے چھوڑ دیا گیا۔آئے روز کے سمندری طوفانوں سے وہ ڈوبتےرہے  کوئی سدباب نہ کیا گیا۔حکمرانی کے لیے افرادی قوت  مغربی حصہ سے آتی رہی جبکہ ایک بھی تھانہ کا ایس۔ایچ۔او بنگالی   نہ تھا۔ایوبی دس سالا مارشل لاء نے بنگالی احساس محر ومی کو آخری حد تک پہنچایا۔مجیب الرحمان نیم خود مختاری کے چھ پوائنٹ ایجنڈا کا نعرہ لگا کر ہیرو بن گیا۔یحییٰ خاں نے ون یونٹ ختم کر کے اسی امید پر انتخاب کا اعلان کردیاکہ کوئی بھی پارٹی اکیلی حکومت بنانے کے قابل نہ ہو گی اور وہی ملک پرراج کرے گا۔

لیکن نتیجہ الٹ آیا۔بھٹو صاحب بیگم نصرت بھٹو اور اسکی ہم وطن ناہید مرزا کے حوالے سے صدارتی محل میں داخل ہوئے وزیر خارجہ بنے اقتدار کے مزے لوٹے اور معاہدہ تاشقند سے واپسی پر ایوب خاں کے خلاف بغاوت کا اعلان کردیا۔امریکی متبادل گھوڑے کی تلاش میں تھے لہذا اس پر ہاتھ رکھ دیا۔بھٹو صاحب ایوب کے خلاف مزاحمتی تحریک کے لیڈر بن گئے اور روٹی کپڑا مکان کا نعرہ لگا کر ماؤزے تنگ ٹوپی پہن لی۔سوشلزم کے نعرہ پر بہت سے لیفٹ کے لوگ پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے۔مغرمی حصہ میں بھٹو صاحب کی پارٹی جیت گئی مگر 70کے الیکشن کے نتیجہ میں یحییٰ خاں اور بھٹوصاحب بند گلی میں پھنس گئے۔اقتدار مجیب الرحمان کے سپرد کرنے کی بجائے اسے اگر تلہ فرضی سازش میں گرفتار کرلیا اور مشرقی حصہ پر فوج کشی کردی۔اگر عوامی لیگ اکثریتی پارٹی کو اقتدار منتقل کردیا جاتا تو آج ملک سلامت ہوتا -لیکن جاگیرداری اور فوجی مفادات کو خطرہ محسوس ہوا اور ملک قربان کردیاگیا۔

فوج کے اشارے پر جماعت اسلامی کے جھنڈے تلے  الشمس اور البدر کےمسلح گروہ بنا کر بنگالیوں کا قتل عام شروع کردیااور فوج نے قتل عام کے ساتھ بنکوں اور بنگالی کاروباری اداروں کو لوٹنا شروع کردیا۔جواب میں بنگالی مکتی  باہنی کے نام سے مسلح ہونے لگے اور فوج کے خلاف گوریلہ جنگ منظم ہونے لگی اس مرحلہ پر سامراجی اشارے پر ہندوستانی فوج داخل ہو گئی اور بالاآخر جنرل نیازی نے جو نوے ہزار مسلح فوج کے کمانڈر تھے انہوں نے ڈھاکہ میں صرف 15سوہندوستانی سپاہیوں کے سامنے  ہتھیار ڈال دیے۔ہمارے بہادروں نے اپنے ملک کو لوٹ کر دولت کے صندوق بھر رکھے تھے۔صندوقوں سمیت 90ہزار بہادر ہندوستانی قیدی ہوئے اور بقیہ پاکستان کو فوری طورپر نوٹ منسوخ کرنا پڑے۔آدھا ملک گنوانے اور ذلت آمیز شکست پر فوج بددلی کا شکار رہی لہذا بھٹو صاحب سول مارشل لاء ایڈ منسٹر یٹر بن گئے اور کئی جرنیل نکال دیے گئے۔بنگلادیش کے اعلان کے بعد جنگی قیدیوں کی رہائی  بنگلہ دیش پر منحصر تھی-بنگلادیش کو تسلیم کرنے کے عوامی غصہ اور دباؤ کی وجہ سے بھٹو صاحب جرائت نہیں پاتے تھے لہذا عالمی اسلامی کانفرنس لاہور میں بلائی گئی اور اس کے کندھے استعمال کرکے مجیب الرحمان کو رہا کر کے لایا گیا اور بنگلادیش کو تسلیم کیا گیا۔پھر جنگی قیدی رہا ہوئے۔ 1973ء کا متفقہ آئین پاس ہونے پر 70کے الیکشن میں اپوزیشن لیڈر نے وزیر اعظم کا حلف اٹھا یا۔سوشلزم کے نام پر ڈیڈ سو ایکڑ زرعی اور تین سو ایکڑ غیر زرعی زمین کی حد رکھ کر زرعی اصلاحات کا اعلان کیا حالانکہ چالاک وزیروں نے پہلے ہی فرضی اولادوں   کے نام پر پہلے ہی عملہ مال کو ڈیروں پر بلا کر انتقال کروا رکھے تھے۔لاہور میں روٹی پر ٹیکس لگا گیا اور شلوار قمیض عوامی صورت کی فیکٹری لگا کر سوشلز م مکمل ہو گیا۔

جنوبی ایشیاء میں ایسے فرضی سوشلسٹ اندرا گاندھی اور  بندرانائیکے جیسے امریکہ بہادر اور بھی  لاد چکا تھا تاکہ سوشلزم کو بدنام کرکے سد باب کیا جاسکے ۔سوشلزم کے نام پر ملک میں صنعتی اداروں ،ٹرانسپورٹ ،تعلیمی ادارے، قومی ملکیت میں لیکر بدعنوان افسر شاہی کے سپرد کر دیے جنہوں نے برباد کردیے۔صنعتی پہیہ رک گیا سرمایہ ملک سے بھاگنے لگا اور منڈی امریکہ کے لیے محفوظ ہوگئی۔ان اقدامات پر تو سامراج خوش تھا مگر اسلامی سر براہی کانفرنس کی قیاد ت کرکے بھٹو صاحب اپنے آپ اسلامی ملکو ں کا لیڈر تصور کرنے لگے اور اسلامی ایٹم بم بنانے کا خبط سما گیا۔

امریکہ نے منع کیا مگر باز نہ آئے ۔جاگیرداری ذہنیت تھی اختلاف براشت نہیں تھا لہذا ترقی پسند اور لیفٹ کے ساتھیوں کو ختلاف رائے کے جرم میں بے عزت کرکے پارٹی سے نکال دیا۔اسی طرح بلوچستان میں عطاء اللہ مینگل کی حکومت اور سرحد میں مفتی محمود کی حکومت ختم کرکے گورنر راج لگایا اور دونوں پارٹیوں کی لیڈرشپ کو گرفتار کرکے حیدرآباد  ٹریبیونل  کےسپرد کیا ۔امریکی ناراضگی کے ساتھ ملک کے اندر بھی آمرانہ رویہ کی وجہ سے مخالفت بڑھنے لگی۔اختلاف رائے کو دبانے کے لیے نجی فورس ایف ایس ایف مسلح کی اورقبل ا ز وقت انتخابات  کا اعلان کردیا۔قومی اسمبلی کے انتخاب کے دوران بلا وجہ خوف زدہ ہو کر دھاندلی کر دی جس پر اپوزیشن نے صوبائی الیکشن کا بائکاٹ کرکے احتجاجی تحریک شروع کردی۔جیسے جیسے تحریک پر تشددبڑھتا گیا ،وکلاء برادری، دانشور طبقات اور محنت کش تحریک میں شامل ہوتے گئے۔یہ دیکھ کر اپوزیشن 9ستاروں نے نظام مصطفےٰ کا نعرہ لگا دیا۔تحریک کا زور دیکھ کر بھٹو صاحب مذاکرات پر آئے اور دوبارہ انتخاب کرانے پر پر رضا مندی ظاہر کردی۔

اسی دباؤ میں ملاؤں کورام کرنے کے لیے شراب کے ٹھیکے منسوخ کیے اور احمدیوں کو کافر قرار دیا جس سے ان کے حوصلے اور بڑھ گئے اور بات نظام مصطفےٰ کے نفاؓ پر آگئی تاہم مذکرار ت کامیاب ہوگے  اور دوبارہ الیکشن ہونے طے پائے۔ دوسرےروزفریقین نے

 معا معدہ پر دستخط کرنا تھے۔فوج تاک میں تھی اور موقع بھی آخری تھا لہذا پچھلی رات ضیا ء الحق کے شیر  ٹینکوں پر سور ملک فتح کرنے سڑکوں پر تھے اور پی پی قیادت کی گرفتاریاں ہو رہی تھیں۔ضیا ء الحق نہایت شاطر آدمی تھا اور خوب جانتا تھا کہ پسماندہ اور جاہل عوام کو دھوکہ دینے کے لیے مذہب اسلام سے بڑا موثر ہتھیار کوئی نہیں۔لہذا میرے ہم وطنوں کے اعلان میں آئین معطل ہوا- مارشل لاء نافذ ہوا ور اسلامی قوانین کے نفاذ کے وعدہ کے مطابق 90دن میں الیکشن کا وعدہ کیا گیا۔نشریاتی اداروں سے اذانیں گونجنے لگیں سڑکوں پر باجماعت نمازیں  ہونے لگیں۔۔۔گانے اور جنسی آسودگی کے بازار  بند کر دیے گئے۔حیدر آباد  ٹریبیونل سمیٹ کر پشتون ،بلوچ قیادت کو  رہا کر دیا۔اجڑے ہوئے اور برباد صنعتی و دیگر ادارے سابق  مالکان کو واپس کردیے اس طرح کے لالچ دیتے ہوئے 90روز کا وعدہ طول پکڑتاگیا کہ قسمت چمکی اور روسی قیادت نے حماقت کرتے ہوئے افغانستان کے انقلاب کے دفاع میں روسی فوج  افغانستان میں داخل کردی۔

دھوکے بازی ملاحضہ ہو۔———-

ریفرنڈم کر والیا کہ اگر آپ اسلام پسند ہیں تو میں صدر پاکستان ہوں -سر عام سرکاری ملازمین بیلٹ بکس بھرتے ہے۔ملک میں دہشت پھیلانے کے لیے عام مجرموں کے ساتھ سیاسی کارکنوں ،دانشوروں ،صحافیوں کو پارکوں میں کوڑے مارے گئے اور سرعام پھانسیاں دی گئیں۔پیپلز پارٹی کے خاتمے کی غرض سے سندھ میں اردو بولنے والے لسانی گروہ ایم کیو ایم کو مسلح کیاگیا جنہوں نے کراچی اور دیگر شہروں کو یر غمال بنا کر سندھیوں ،پنجابیوں بلوچ اور پشتون آبادی کاقتل عام شروع کروایا۔صنعتی اور کاروباری ادارے کراچی سے بھاگنے لگے اور آج تک کراچی کوڑے کا ڈھیر بنا ہواہے۔جمہوریت کی بحالی کے نام پر 1984ء کے غیر حماعتی انتخاب کے ذریعے مجلس شوریٰ بنائی اور بے ضرر سا وزیر اعظم محمد خاں جونیجوبٹھادیا۔1973ء کے آئین کا صلہ بگاڑدیا۔قرار داد مقاصد کی حیثیت محض سفارشی تھی اسے آئین کا حصہ بنا دیا۔توہین رسالت اور توہین مذہب کی آڑ میں ایسے قوانین بنائے کہ جسے اور جب چاہا جیل میں ڈال دیا۔مسلمانوں کے ملک میں اسلام کو خطرہ سبحان اللہ ،—اسلام کے نام پر ملکی قوانین کی شکل ہی بگاڑ دی گئی جوآج تک درست نہیں ہو رہی۔

بزدل ظالم ہو تا ہے۔بھٹو صاحب کے خوف سے اس کا عدالتی قتل کیا جماعت اسلامی کے امیر میاں طفیل نے قرآن پر حلف اٹھا کر اس غرض کے لیے چار سلطانی گواہ فراہم کیے اور حضرت عمرؓ کے بعد ضیاء الحق کو اسلام کا سب سے بڑا ہیرو قرار دیا۔بھٹو صاحب کی پھانسی پر ہمالیہ تو کیا روتا  پی پی کی قیادت بھی دم سادھ گئی۔یہی مکافات عمل ہوتا ہے۔جاہل اور پسماندہ معاشرے میں عوامی تائید کے بغیر سوشلسٹ انقلاب کا اعلان اور پھر انقلابیوں کی آپس میں قتل و غارت، مزاحمت اور خانہ جنگی ہونا تھی اور اس پر روسی مداخلت ،——–امریکہ کی ویت نام میں شکست کے زخم تازہ تھے۔بدلہ لینے کا موقع دیکھ کر امریکہ اور مغربی اتحادیوں نے آئین شکن اور غاصب آمر ضیا ء الحق کو مرد مومن کا خطاب عطاء کردیا۔پھر کیا تھا افغان مہاجرین اور مدرسوں کے طالب علموں کو فوجی کیمپوں میں تربیت اور امریکی اسلحہ سے مسلح کرکے افغان جہاد پر روانہ کردیا۔مال غنیمت میں افغان دوشیزاؤں کے حصول کے لیے ہمارے عرب بھائی بھی مقدس جہاد میں شریک ہوگئے۔لاکھوں مہاجرین پاکستان امڈ آئے۔جنکی دیکھ بھال فوج کے ساتھ جماعت اسلامی اور مذہبی گروہوں کے سپرد ہوئی۔مجاہدین اور مہاجرین کے لیے امریکہ اور یورپی ممالک سے غلے، خوراک اور رہائش کے لئے ڈالر برسنے لگے۔یہ موج میلہ جاری تھا کہ اچانک  روسیوں نے واپسی کے لیے جنیوا مذاکرات کی تجویز دی۔امریکی بھی 9سالہ خانہ جنگی سے جان چھڑانا چاہتے تھے فوری مان گئے مگر ضیاء الحق ٹولہ کو منظور نہیں تھا۔

وزیر اعظم جونیجو نے حوصلہ کرکے شرکت کی اور معاہدہ پر دستخط کردیے لیکن واپسی ہوائی اڈا پر اترنے سے پہلے برطرف کردیے گئے اور خود ہی اپنا بیگ اٹھا کر سندھ چلے گئے۔اس دوران جہادیوں کی بھرتی مہاجرین کی خوراک رہائش اور اسلحہ سپلائی میں اور ایران عراق جنگ کے لیے اسی اسلحہ خصوصاً  سٹنگرمزائل کی ایران کو فروخت میں ضیا ء الحق اینڈ کمپنی ڈھیروں ڈالر تقسیم کرکے جنیوا معاہدہ کی مخالفت امریکہ کے لیے قابل برداشت نہ رہی۔لہذا مرد مومن بہالپور سے واپسی پر ہمراہی ملزم جنرل عبدالرحمان کے ساتھ آم کھاتے ہوئے چل پڑے۔امریکہ نے اپنے سفیر کی قربانی دیدی۔

محدود جمہوریت کا وقفہ

امریکی تیور دیکھ کر مرزا سلیم بیگ کا جرنیلی ٹولہ جمہوریت کی بساط لپیٹنے کی جرعت نہیں کرتا اور الیکشن کرواتا ہے۔بھٹو کے عدالتی قتل کے ردعمل میں پی پی اکثریت حاصل کرتی ہے اور بے نطیر کو کڑی شرائط کے ساتھ شریک اقتدار کرلیا جاتا ہے۔اس پر بھی وزیر اعظم صاحب تحفہ جہموریت عطاء کرتی ہیں مگر پھر بھی وہ قابل برداشت نہیں۔سوشلزم اور نظام مصطفےٰ کے فرضی نعرے پٹ چکے تھے اب کرپشن کا نعرہ تخلیق کیا گیا۔بے نظیر کی حکومت دو دفعہ ایک دفعہ نواز شریف کو کرپشن کے نام پر نکال دیا گیا۔نواز شریف نے دوسری باری میں ہندوستان سے بات چیت کے ذریعے مسائل حل کرنے کی کوشش کی،ہندوستان کی طرف سے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں نواز شریک ہمت کرکے چاغی میں ایٹمی دھماکے کرچکا تھا۔اس صورتحال میں دونوں ملکوں نے کشمیر سمیت تمام مسائل حل کرنے پر آمادگی ظاہر کردی۔بھارتی وزیراعظم واجپائی پاکستان آئے یاد گار پر خطاب میں قائداعظم کی تعریف کی پاکستان کی حقیقت کو تسلیم کیا اور کشمیر کے حل پر اتفاق ہو گیا۔معاہدوں پر دستخط دہلی میں ہونا طے پائے– دونوں ہمسایوں کے درمیان امن کی صورت میں جر نیل شاہی کواپنے وجود کا جواز خطرے میں نظر آیا۔لہذا جنرل مشرف نے وزیر اعظم سے خفیہ کار گل کا معرکہ کردکھایا۔جواب میں بھارتی فوج نے بہالپور کی طرف سے حملہ کرنے کے لیے حرکت شروع کردی۔امریکی سیٹلائٹ نے صورتحال سے وزیرعظم نواز شریف کو مطلع کردیا۔جس پر شریف نے امریکی قیادت سےفوری رابطہ کیا اور وہاں جا کرکارگل سے واپسی کا یقین دلایا۔تاہم بھارت جنگ بندی پ رازی  نہی ہو ا۔اور اسی حالت میں واپسی کی شرط رکھی۔اسی طرح کچھ حاصل کئے بغیر سینکڑوں جوان قربان کردئے گئے اور ساتھ اسلحہ میں بھی چھوڑ آئے۔جنرل مشرف کی یہ حرکت واضح بغاوت کے مترادف تھی۔

تیسرا مارشل لاء

نواز شریف کی حکومت مشرف کو ڈسمس کرکے کاروائی کرنا چاہتی تھی کہ اس نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔آئین معطل ہو گیا اور مسلم لیگی قیادت گرفتار ہو گئی۔پی پی کے خلاف نیب متحرک ہو گئی۔نوازشریف کو سزائے موت سنائی گئی تا ہم بیرونی   دباؤ کے تحت دس سالا جلا وطنی کر دی گئی۔مشرف نے کشمیر پر وہی معاہدہ خود کرنا چاہا   تو بنیاد پرستوں نے بمبئی اور پارلیمنٹ پر حملہ کر کے ناکام بنا دیا۔امریکہ میں ڈیمو کریٹ   کی حکومت نے مشرف کی حرکت کو ناپسند کیا لیکن پھر القائدہ نے نیویارک میں نو گیارہ کا حملہ کردیا اور مشرف کے وارے نیارے ہو گئے۔روسی فوجوں کی واپسی پر مغربی دباؤ میں سلامتی کونسل کے زریعے ڈاکٹر نجیب کی انقلابی حکومت کو فارغ کر دیا گیا اور قابل میں مجاہدین کی حکومت بن گئی جسے شمالی افغانستان کے تاجک ازہک اور ترکمان عناصر نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور مجاین میں خانہ جنگی شروع ہو گئی۔اسی خانہ جنگی کے دوران امریکی تیل کمپنی  ئونوکال نے ترکمانستان کا تیل براستہ افغانستان کراچی لانے کا معاہدہ کر لیا اور افغانستان کی خانہ جنگی ختم کرنے کے لیے پاکستانی جرنیل شاہی کے مد د سے طالبان کو مسلح کیا اور کابل پر قبضہ کردیا مگر شمالی اتحاد کی مزاحمت ختم نہ ہوسکی امریکی کمپنی تو بھاگ گئی مگر خانہ جنگی جاری رہی۔

نیویارک حملہ پر امریکہ نے طالبان سے اسامہ بن لادن حوالے کرنے کا مطالبہ کیا مگر وہ نہ مانے اس مرحلہ پر امریکی فون پر جنرل مشرف نے ہوائی اڈے شاہراہیں بندرگاہیں سب کچھ امریکہ کے حوالے کردیا۔جدید ترین اسلحہ کے تجربات افغانستان پر ہونے لگے۔مہاجرین کے لیے پھر پاکستان میں طالبان بھی پناہ کے لیے ادھر ہی آتا تھا۔مشرف حکومت نے طالبان پکڑ پکڑ کر امریکہ کے حوالے کرکے ڈھیروں ڈالر کمائے۔طالبان کے منتشر ہونے پر امریکہ نے حامد کرزئی کی پٹھو حکومت بنائی جس کےخلاف طالبان نے گوریلہ جنگ شروع کردی۔بدلہ چکانے کے لیے روس اور ایران نے ہر ممکن طالبان کی مدد کی اور بالاآخر 20سال کی خانہ جنگی کے بعد طالبان آج کابل پر قابض ہوگئے۔نیٹو ممالک کی ڈیڑھ لاکھ جدید ہتھیاروں سے مسلح فوج اسلحہ چھوڑ کر بھاگ گئی اور اشرف غنی بھی ڈالر بھرکر بھاگ گیا۔

جمہوریت کا ڈرامہ

دونوں بڑی پارٹیوں ن لیگ اور پی پی کی قیادت جلا وطن تھی۔نیب کا ہتھیار استعمال کرکے دونوں کو توڑ ا      ق لیگ اور پیٹریاٹ نکالیں– بے نظیر اور نواز دور میں کراچی کو کچھ سکون ملاتھا۔مشرف خود بھی ایم کیو ایم تھا لہذااس لسانی گروہ کو پھر مسلح کیا اور کراچی پھر یرغمال بن گیا۔اس بندوبست کے بعد 2002ء میں الیکشن کا ڈرامہ رچایا۔جمالی صاحب کچھ عرصہ اور پھر آئی ایم ایف نے اپنا وزیر اعظم شوکت عزیز دیا تاکہ وصولیاں ہو سکیں۔مغرب کے چہیتے تھے ڈالر آرہے تھے -ملک کے اندرکسی مزاحمت کا ڈر نہیں تھا۔اب عدلیہ کر سر کرنے لگے ملک کے چیف جسٹس افتخار چوہدری کو جی ایچ کیو لےجا کر استعفی طلب کیا۔انکار پر بے عزت کیا اور معطل کرکے نظر بند کر دیا۔وکلاء نے احتجاج کیا تو پورے ملک میں وکلاء کی گرفتاریاں شروع کردیں۔اس پر مزاحمتی تحریک زور پکڑ گئی اور کمانڈو جنرل کے پاؤں اکھڑنے لگے۔

  زرداری صاحب سے این ار او  کرکے پی پی قیادت کے خلاف مقدمات واپس لیے۔بے نظیر صاحبہ واپس آئی تو پہلے کراچی میں ان پر حملہ کروایا جس میں سینکڑوں پی پی کارکن ہلاک ہوئے مگر وہ خوف زدہ نہ ہوئی۔اور راولپنڈی جلسہ کا اعلان کردیا۔اسی دوران نواز شریف بھی واپس آگئے۔پنڈی جلسہ میں بے نظیر کو قتل کر دیا گیا۔اس پر سندھ میں آگ بھڑک اٹھی اور  ریلوےسمیت قومی اثاثے جلانے لگے۔زرداری نے پاکستان کھپے کا نعرہ بند کرکے آگ بھجائی۔بے نظیر کی ہمددری کے ووٹ سے پی پی حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی اور زرداری صاحب نے صدارت سنبھال کر کمانڈو جنرل کو فارغ کردیا۔

زرداری صاحب بے نظیر دور سے ہی ٹین پرسنٹ کا خطاب پاچکے تھے اب تو ترقی لازمی تھی۔حصہ داری پر کبھی کبھی تعاون کا سلسلہ جرنیل شاہی سے چلتا رہا۔کیانی صاحب بظاہردھیمے مزاج کے پیشہ ور تھے تاہم اپنے شعبہ کی مراعات وصول کرتے رہے۔ادھر زرداری صاحب ریان علی جیسی ماڈلز کے ذریعے اور کبھی سیدھے لانچوں سے ملکی دولت دبئی وغیرہ  ڈھوتے رہے۔نہ تو آئین شکن مشرف سے بازپرس کی-حتہکہ بے نظیر کے قاتل بھی نہ ڈھونڈ سکے -زرداری ہاؤس بنتے رہے اور پانچ سالوں میں ملکی معشیت زمین بوس ہوگئی۔کبھی بجلی آجاتی تو بچے گلی میں ناچنے لگتے۔تاہم دوتعمیری کا م زرداری کے کھاتہ میں جاتے ہیں۔ایک تو رضا ربانی صاحب چیئرمین سینت کی ان تھک محنت اور دیگر جماعتوں کے تعاون سے آئین پاکستان کا حلیہ کافی درست ہوا۔صدر سے حکومتوں کی بر طرفی کی تلوار چھین لی گئی اور اٹھارھویں ترمیم سے صوبوں کو اختیارات منتقل کردیے گئے۔دوسرے اسی دور میں چین کے ساتھ سی پیک معاہدہ کی بنیاد رکھی گئی۔ ایران کاکے ساتھ گیس پائیپ لائن کا معائدہ کیا -افتخار چوہدری جس کی بحالی کے لیے قوم سڑکوں پر آئی اس کےبحال ہونے پر زرداری دشمنی میں گیلانی کو سزا دیکر نا اہل کردیا۔پی پی حکومت تو بحال رہی مگر اس کی حماقت  سے جرنیل شاہی کو حکومتیں گرانے کا عدالتی نسخہ ہاتھ آگیا جو اپنے سر الزام لیے بغیر کار آمد ثابت ہوا۔

نواز شریف کی دفاعی اداروں کو آئینی حدود میں رکھنے کی ضد اور زرداری صاحب کی چالاکیوں سے بیزار جرنیل شاہی نئے گھوڑے کی تلاش میں تھی جس کی نشاندہی یہودی لابی نے کردی۔عمران خاں جو عرصہ سے ہاتھ پاؤں مار رہا تھا فوراًتابعداری کے لیے تیار ہوگیا۔لہذا آئی ایس آئی نے 2011ء میں لاہور مینار پاکستان کے جلسہ میں لانچ کروایا۔مگر 2013ء کے انتخاب میں میدان نہ مار سکا اور ن لیگ حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی۔نواز شریف نے پہلی ترجیح کے طور پر چینی حکام کے ساتھ سی پیک معاہدہ کے لیے تما م تفصیلات طے کیں اور چینی صدر کو معاہدہ پر دستخط کی غرض سے دورہ کی دعوت دیدی۔امریکہ کے لیے سی پیک ڈراونا خواب تھا۔نئے گھوڑے نے دھاندلی کا شور ڈالاکینیڈاسے  ملاں قادری کو تیار کیا گیا اور شاہراہ دستور پر دھرنا شروع ہو گیا۔تین نکاتی ایجنڈاتھا۔راحیل شریف کو توسیع ملازمت درکار تھی۔چینی صدر کا دورہ منسوخ کروانا اور نواز شریف حکومت کا خاتمہ۔126روز تک اسلام آباد کے ریڈزون میں میلا لگایا۔پی ٹی  و ی پر قبضہ،پارلیمنٹ پر حملہ،سول نافرمانی کے اعلانات، پولیس پر حملے،جیو کے دفاتر پر لگا تار شیلنگ باری۔طوافوں کے مجرے اور رات بھر غلیظ دھندا—-آئی ایس آئی کے ظہیر الاسلام نے نواز شریف کا استعفےٰ طلب کرکے بے حیائی اور بے غیرتی کی انتہا کردی۔

دوسری طرف سپریم کورٹ نے دھاندلی کا  دعوی رد کردیا اور پارلیمنٹ حکومت کے ساتھ کھڑی ہو گئی اسی دوران پشاور میں اے پی ایس سکول پر دہشت گردی حملہ میں سینکڑوں بچے اور استاد مارے گئے تو دھرنا اٹھانا پڑا۔ایک طرف تو نواز شریف کی سربراہی میں پوری قوم دہشت گردی کے خلاف دفاعی اداروں کے ساتھ کھڑی تھی مگر آئی ایس آئی باز نہیں آ رہی تھی۔اب تحریک لبیک کے ذریعے فیض آباد دھرنا کرکے جڑواں شہروں کا رابطہ ملک سے کاٹ دیا گیا۔سپریم کورٹ سے اشارے پارکر پانامہ کا ڈرامہ رچایا گیا اور وزیراعظم کو نا اہل کرکے سزا دلوائی گئی۔حکومت کے خلاف مسلسل سازشوں کے باوجود چینی صدر کا دورہ اور سی پیک معاہدہ دستخط کے بعد اس پر تیز رفتاری سے عمل شروع ہوا۔بجلی کے پلانٹ تعمیر کرکے سپلائی پوری کر دی گئی۔لوڈ سیڈنگ  نےجان چھوڑی۔موٹر وے ،ہزارہ ایکسپریس، لاہور تا کراچی تکمیل کے مراحل طے ہونے لگے۔ڈالر اور ضروری اشیاء کی قیمتیں کنٹرول میں آگئیں اور ملکی ترقی کی 58فی صد تک پہنچ گئی اورملک ایشیائی ٹائیگر بننے کی طرف رواں ہوا۔وادی سوات شمالی و مغربی وزیرستان اور فاٹا سے دہشت گردی کا خاتمہ ہواکراچی سمیت ملک بھر میں امن قائم ہوا۔روزگارمیں اضافہ ،قیمتوں میں استحکام سے خوشحالی کا احساس بڑھنے لگا۔

سی پیک کے ساتھ چینی کمپنیوں کے ڈیموں کی تعمیر میں سرمایہ کاری شروع کردی جیسے جیسے چینی اثر ملک میں بڑھنے لگا امریکہ کے کان کھڑے ہوئے۔

کووڈ19نے عالمی معشیت کو زیرو پر لا کھڑا کیا جبکہ چین نے بیماری پر قابو پا کر ملکی ترقی کی شرح 9فی صد پر پہنچا دی عالمی منڈی کے حوالے سے امریکہ اور چین کے درمیان سر دھڑ کی بازی پہلے ہی لگ چکی تھی لہذا سی پیک کی تکمیل کو روکنا امریکہ کی اولین  ترجیح ٹھہرا۔کشمیر ہماری شہہ رگ کے نعرہ پر جرنیل شاہی 70سال سے ملک پر قابض تھی۔اب اسکا قبضہ مکمل ہو چکا تھا زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں بچا جس پر ملٹری کا کنٹرول نہ ہو۔ہندوستان کو ڈرانے کے لیے ایٹم بم اور میزائل کافی ہیں۔ائیرکنڈیشن  اور محلات میں رہ کر پراپرٹی کا کاروبار، فوج کا پیشہ اور پارٹیوں کو توڑنا اور نئی بنانا کام ٹھرا تو پھر جنگ کو ن لڑے گا۔لہذا کشمیر تنازعہ بے سری راگنی کو ن گائے۔کسی سیاسی گماشتےکے سر رکھ کر جان چھڑانی تھی۔دوسرے یہ کہ 2016ء کے ترکی کے تجربہ سے قومی سرمایہ اور اس کی نمائندہ سیاسی قوت سے خوف آنے لگا تھا اور نواز شریف اشارے بھی دے رہا تھا کہ آئینی حدود میں رہا جائے۔نواز شریف کا آئین شکن مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ اور سزا ،نا قابل معافی جرم ٹھہرا۔

زرداری صاحب نے اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی دے ڈالی مگر نواز شریف نے ساتھ نہ دیا تو باہر بھاگنا پڑا۔پھر 2018ء کے الیکشن سے قبل مقتدرہ سے ڈیل ہو گئی اور سندھ میں پی پی کو نہ چھیڑنے کا وعدہ۔لہذا جرنیل شاہی نے براہ راست اقدام کرکے 2018ء کا الیکشن چھین لیا اور زرداری صاحب کے تعاون سے ن لیگ کو مرکز اور صوبوں سے بے دخل کردیا گیا۔انتخاب کے دوران ہی سی پیک منصوبوں کے خلاف اربوں کی کرپشن کے الزمات کے ساتھ سب کا آڈٹ کروانے کے اعلان ہو رہے تھے۔حلف اٹھانے کے بعد نئی عمرانی حکومت کے وزیر سی پیک کو دو سال کے لیے معطل کرنے پر زور دینے لگے۔چین پر براہ راست رشوت دینے کے الزام ،لاہور کی اورنج ٹرین منصوبہ پر 22ماہ تک پابندی سابقہ حکومت پر چور چور کی گردان اور نیب کے ذریعے لیگی قیادت اور کاروباری میڈیا مالکان اور افسر شاہی کے خلاف پکڑ دھکڑ اور گرفتاریاں اور متواتر شور ،کہ ملک لٹ لیا ،اجڑ گیا۔تین سال سے ہی تماشہ لگا ہوا ہے۔اندرونی و بیرونی سرمایہ کاری زیرو، سرمایہ باہر پناہ ڈھونڈنے لگا۔قومی معشیت زمین بوس ہو چکی ہے۔

ہائبرڈ سسٹم

گذشتہ تین سال سے عجیب و غریب نظام چلا یا جا رہا ہے۔نہ جمہوریت ہے اور نہ ہی مارشل لاء ہے۔وزیر اعظم بنی گالا میں مختلف مافیا کے جھرمٹ میں اپوزیشن کو مسلسل گالیاں دے رہے اور نیب و دیگر اداروں کے ذریعے اپوزیشن ،سرمایہ و کاروباری افراد ،میڈیا مالکان اور ن لیگ دور کی افسر شاہی کے خلاف مقدمات بنوا دیتے ہیں۔تقسیم کا ر اس طرح ہے کہ ملکی سلامتی خارجی و داخلی ریاستی اور جرنیل شاہی کا کام ،ملکی معشیت بجلی تیل گیس کی قیمتوں سمیت معاشی پالیسی آئی ایم ایف کے ذمہ جبکہ وزیر مشیر مافیا، آٹا، چینی ،تیل گیس، ادویات و دیگر ضروریات زندگی پر قبضہ کرکے اربوں روپے کی دیہاڑیاں لگانے میں آزاد ہیں -گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر پر پی ٹی آئی کا قبضہ کرواکے ن لیگ کو ہاں سے بھی بے دخل کردیا گیا ہے۔امریکی اور فوجی ایجنڈا تکمیل کو پہنچا۔سی پیک ٹھپ ہوا۔سرمایہ ملک سے فرار ہوا۔ڈالر بے قابو،افراط زر کی وجہ سے قیمتیں روزانہ کی بنیاد پر اوپر،انرجی تیل ،گیس روزانہ مہنگی صنعت کیسے چلے۔بے روز گاروں کا سیلاب،جرائم میں اضافہ،میڈیاکو سدھانے کے لیے نئی قانون سازی،اعلیٰ عدلیہ پہلے کب آزادتھی کہ من پسندجونئیر جج چن چن کے لائے جا رہے ہیں۔آنے والے کل میں بھی اندھیرا ہی نظر آتا ہے۔اگلے الیکشن میں زرداری صاحب کو سبز جھنڈی کروائی گئی ہے۔

بقو ل غالب

کوئی امید بر نہیں آتی                                    کوئی صورت نظر نہیں آتی

تا ہم ۔۔۔مادیت کے قوانین اٹل ہیں۔تبدیلی ناگزیر ہے،دیکھئے کل کو کیا ہوتا ہے۔؟

1-سامراجی غلبہ اور اس کے فطری اتحادی 2- و ڈیرہ شاہی اور جاگیرداری باقیات  اور 3-بنیاد پرست، رجعت پسند قوتیں ہی ملک کے بنیادی تضادات ہیں۔ان کے خاتمہ کے بغیر محنت کش کی بھلائی یا نجات کا تصور کیسے کر سکتے ہیں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *