ڈاکٹر طاہر شبیر ، لا ہور
و ہ انگلستان کا بادشاہ چارلس اول تھا جس نے اپنے زمانے میں زرعی اصلاحات کیں۔ یعنی زرعی نظام میں کچھ مثبت تبدیلیاں کیں تو بادشاہ کا ایوان دو گروپوں میں تقسیم : و گیا۔ ایک گروپ وہ جو اصلاحات کے حق میں تھا۔ دوسرا وہ جو ان اصلاحات کا مخالف تھا۔ جولوگ ان اصلاحات کے مخالف تھے وہ بادشاہ کے دائیں جانب بیٹھتے تھے اور جو ان تبدیلیوں کے حق میں تھے وہ ایوان میں بادشاہ کے بائیں جانب بیٹھے تھے۔ ان اصلاحات اور تبدیلیوں پر دائیں جانب یعنی اصلاحات کی مخالفت کرنے والے دھڑے کی طرف سے جو دلائل پیش کئے جاتے تھے۔ اخبارات اپنی آسانی کے لئے انہیں دائیں بازو کے دلائل لکھتے اور اصلاحات کے حق میں جو دلائل دیئے جاتے انہیں بائیں بازو کے دلائل لکھتے کیونکہ یہ لوگ ایوان میں بادشاہ کے بائیں جانب بیٹھتے تھے ۔ تب سے یہ الفاظ سیاست میں اصطلاح کے طور پر استعمال ہونے لگے۔ دائیں باز دسے مرا د وہ لوگ لئے جاتے ہیں جو معاشرے کو جوں کا توں رکھنا چاہتے ہیں ۔ وہ معاشرتی، معاشی اور سیاسی ڈھانچے میں کسی قسم کی تبدیلی کی زبر دست مخالفت کرتے ہیں ۔ معاشرے میں ہونے والے ارتقاء اور ترقی لانے والی قوتوں کے خلاف جنگ جاری رکھتے ہیں۔ اس کے برعکس بائیں بازو سے مراد ان لوگوں کی ہے جو معاشرے میں معاشرہ کی بہتری کے لئے بنیادی تبدیلیاں لانے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ معاشرے کی ترقی میں ایک قدم اور آگے بڑھانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ تاریخ دانوں نے جب ماضی کی تاریخ پر نظر ڈالی تو ہر معاشرے میں اور ہر عہد میں دو قوتیں برسر پیکار پائیں اور ہر عہد میں بائیں بازو کی جدو جہد سے ہونے والی ترقی کا سراغ لگایا۔ ہر دور کی ریاستی طاقتوں نے ترقی پسند اور سیاسی و سماجی تبدیلیاں لانے والے افراد کی مخالفت کی اور انہیں سختی سے کچلا جاتا رہا۔
مسلمان حکمرانوں نے بھی ظلم وستم کا یہ سلسلہ خلافت راشدہ کے بعد شروع کیا اور تا حال جاری ہے، اگر سلجوقی حکمرانوں نے اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے گیارہویں صدی عیسوی میں امام غزالی کو استعمال کیا تھا تو پاکستانی ریاست نے یہی کام بیسویں صدی عیسوی میں مولانا مودودی سے لیا۔ دائیں بازو کی ان رجعت پرست قوتوں کا سلسلہ آج بھی القاعدہ، طالبان اور داعش کے روپ میں جاری ہے ۔ جن کو مسلمان ممالک کے حکمرانوں اور سامراجی طاقتوں کی حمایت حاصل ہے۔ اس لڑائی کو عقل پرست اور عقیدہ پرستوں کی لڑائی بھی کہا جاتا ہے کیونکہ عقید و پرست ہمیشہ عقل اور شعور کے مخالف ہوتے ہیں۔ عقیدہ پرستوں کو ہر دور میں حکمرانوں اور ریاستی قوتوں کی حمایت حاصل ہوتی ہے اور ریاست عقیدہ پرستوں کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتی ہے۔
ان قدامت پرست قوتوں کی مخالفت میں جو دلائل قلم اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر معاشرے کی بھلائی کے لئے اپنے تحریری اور حقیقی سفر کو جاری
رکھتے ہیں انہیں بائیں بازو کے لکھاری یا ترقی پسند مصنفین کہا جاتا ہے۔
ترقی پسندادیوں نے اُمراء کی خواہشات اور شاہوں کے قصیدوں کو چھوڑ کر عوام کے دکھ سکھ کو اپنی تحریروں کا موضوع بنایا۔ ترقی پسندوں نے سامراجیوں، سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے مظالم کے خلاف اور انسانی تاریخ میں پہلی بار مزدوروں ، کسانوں اور مظلوم انسانوں کی حمایت کو ایک تحریک کی شکل دے کر اپنی تحریروں میں شامل کیا۔ مشترکہ ہندوستان میں ترقی پسند تحریک کے آغاز کے بعد ترقی پسندوں نے ادب کو محض ال بہلانے کی چیز ماننے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے صرف عشق و عاشقی کے راگ الاپنے کے بجائے حیات اور زندگی کے مسائل پر غور کرنا اور ان کا حل نکالنا شروع کیا۔ کیونکہ ترقی پسند اور مارکسسٹ ادبیوں کو جہاں انسانی مسائل کا اور اک ہوتا ہے وہاں ان کے پاس ان مسائل کو حل کرنے کا علم بھی ہوتا ہے۔
ترقی پسندادیبوں کی پہلی کل ہند کانفرنس کے موقع پر مولانا حسرت موہانی نے تو یہاں تک کہا کہ محض ترقی پسند ی کافی نہیں جدید ادب کو سوشلزم اور کیونزم کی بھی تلقین کرنی ہوگی۔ اسے انقلابی ہونا چاہئے۔ اسلام اور کمیونزم میں قطعی کوئی تضاد نہیں۔ اسلام کا جمہوری نصب العین اس بات کا متقاضی ہے کہ ساری دنیا میں مسلمان اشتراکی نظام قائم کرنے کی کوشش کریں، کیونکہ موجود ودور میں زندگی کی سب سے بڑی ضرورت یہی ہے۔ یہاں سرسید تحریک یا علی گڑھ تحریک کا ذکر کرنے سے پہلے برصغیر پاک و ہند کی مختلف زبانوں کے ادب کی ترقی کے لئے فورٹ ولیم کالج کی خدمات کا جائزہ لینا ضروری ہے۔
فورٹ ولیم کالج کلکتہ
یہ بر صغیر پاک و ہند میں مغربی طرز کا پہلا تعلیمی ادارہ تھا جو لارڈ ولزلی گورنر جنرل (1798 – 18055ء) کے حکم سے 1800ء میں کلکتہ میں قائم ہوا کالج قائم کرنے کا فیصلہ گورنر جنرل نے 10 جولائی 1800 /17 صفر 1215 کو کیا ۔ مگر اس شرط کے ساتھ کہ کالج کا یوم تاسیس 24 مئی 1800 ، تصور کیا جائے کیونکہ وہ دن سلطان ٹیپون کے دارالحکومت سرنگا پٹم کے سقوط کی پہلی سالگرہ کا دن تھا۔ لیکن فورٹ ولیم کالج میں باقائدہ تعلیم 24 نومبر 1800 ء سے شروع ہوئی۔ پہلے دن فقط عربی کا درس دیا گیا، دوسرے دن فارسی کا اور تیسرے دن یعنی 26 نومبر کو ہندوستانی اردو زبان کی باری آئی۔
جدید اردو نثر کا آغاز فورٹ ولیم کالج کلکتہ کی تصانیف سے ہوتا ہے۔ یہ کتابیں اسی زبان میں لکھی گئی تھیں جو زبان تھوڑے فرق کے ساتھ دہلی ،لکھنو اور شمالی ہند کے دوسرے تہذیبی مراکز میں بولی جاتی تھی۔ اٹھارویں صدی میں اُردو شاعری کی زبان بھی قریب قریب یہی تھی ۔ البتہ اس میں نثر نگاری کا آغاز ابھی نہی ہوا تھا، کیونکہ درباروں ، سرکاری دفاتر حتی کہ خط و کتابت کی زبان ابھی تک فارسی ہی تھی –
اگر کبھی اردو میں کچھ لکھا بھی جاتا تھا تو فارسی اور عربی کی اتنی بھر مار ہوتی تھی کہ عام آدمی اس مصنوعی زبان کو سمجھ ہی نہیں سکتا تھا۔ اس کے بالمقابل ہندوی (سنسکرت) تھی جو شمالی ہند کی قدیم بولی تھی۔ ہندوی کے بارے میں ڈاکٹر گلکرسٹ کی رائے یہ تھی کہ ہندوی فارسی کی ضد ہے۔ دیو ناگری رسم الخط میں بائیں سے دائیں جانب کو لکھی جاتی ہے۔ مسلمانوں کے غلبے سے پہلے دعو ناگری رسم الخط کی ہندوستان میں وہی حیثیت تھی جو یورپ میں اس وقت 1796 ، رومن رسم الخط کی ہے لیکن مدت ہوئی کہ دیو ناگری کی جگہ عربی اور فارسی نے لے لی ہے ۔ چند مسلمان ہندی جانتے ہیں اور ان ہندوؤں کی تعداد بھی زیادہ نہیں جو ہندوی جانتے ہیں۔ لہذا ایسٹ انڈیا کمپنی نے یہ ہی مناسب خیال کیا کہ اُردو کے فارسی آمیز طرز تحریر اور ہندوی ،دونوں سے گریز کیا جائے اور اس زبان کو اپنایا جائے جو شمالی ہند کے تہذیبی مرکزوں میں بولی اور سمجھی جاتی تھی۔
ڈاکٹر گلکرسٹ نے اس زبان کا نام ہندوستانی زبان رکھا۔ ڈاکٹر گلکرسٹ کی رائے میں ہندوستانی زبان تین زبانوں سے مل کر بنی ۔ ہندی ، عربی اور فارسی۔ اس زبان کا بالائی ڈھانچہ فارسی اور عربی کی آمیزش سے تیار ہوا ۔ البتہ اس کی بنیاد ہندی ہے۔ جدید اردو نثر کی کتا میں اسی زبان میں لکھی گئیں۔
ہماری نظر سے اب تک فورٹ ولیم کالج سے پیشتر کی ایسی کوئی تصنیف نہیں گزری تھی جو جدید اردو نثر میں لکھی گئی ہو مگر گلکرائیسٹ ( جس کو ہندوستانی ( اردو ) زبان سے والہانہ محبت تھی ) کی کتاب “مشرقی زبان دان” کے مطالعے سے پتا چلا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے حکام کی بعض ایسی تحریریں بھی ہیں جو فورٹ ولیم کالج سے پیشتر ہندوستانی یا جدید اردو میں لکھی گئیں۔ آئین لشکری غالبا” ان میں سب سے قدیم تحریر ہے۔ اس لحاظ سے یہ دعوی ‘ بے جانہ ہو گا کہ آئین لشکری جدید اردو نثر کی پہلی کتاب ہے۔
آئین لشکری وہ قواعد وضوابط ہیں۔ جن کے تحت ایسٹ انڈیا کمپنی ہندوستانی سپاہیوں کو اپنی دیسی فوج میں بھرتی کرتی تھی۔ یہ قواعد و ضوابط انگریزی زبان میں تھے۔ 1796ء میں کرنل ولیم اسکاٹ نے ان کا فارسی اور ہندوستانی میں ترجمہ کیا۔ ہندوستانی ترجمے کی اصلاح ڈاکٹر گلکرسٹ نے کی۔
نومبر 1800 ء سے کالج میں با قاعدہ تعلیم شروع ہوئی۔ کالج میں مشرقی زبانوں کی تعلیم پر بہت زور دیا جاتا تھا۔ بالخصوص ہندوستانی (اردو) اور فارسی پر کیونکہ ہندوستانی زبان شمالی ہند کی بول چال کی زبان تھی اور فارسی پورے ملک میں ابھی دفتری اور درباری زبان تھی۔ لہذا انگریز پروفیسروں کی مدد کے لئے ہر شعبے میں دیسی منشی اور پنڈت ملازم رکھے گئے جن کی تنخواہ انگریز پروفیسروں سے بہت کم تھی ۔ ان منشیوں کا کام درس و تدریس میں انگریز اُستادوں کا ہاتھ بٹانا اور طلباء کے لئے نصاب کی کتابیں تیار کرنا تھا۔
ابتدا میں فارسی کے بیس، ہندوستانی (اُردو) کے بارہ بنگالی کے چھ اور عربی کے چار منشی مقرر ہوئے۔ لیکن ہندوستانی ( اردو ) زبان کی مقبولیت کے پیش نظر جلد ہی ہندوستانی منشیوں کی تعداد 25 تک پہنچ گئی ۔ ڈاکٹر گلکرسٹ کی تجویز پر ہندوستانی ( اردو ) کے شعبے میں ایک قصہ خواں بھی مقرر تھا جو طلباء کو ان کی قیام گاہ پر جا کر داستا نیں اور قصے سناتا تھا۔ یہاں اس بات کی وضاحت کرنا بھی ضروری ہے کہ فورٹ ولیم کالج انگلستان سے آنے والے انگریز افسران، ملازمین اور فوجیوں کو مقامی زبانیں سکھانے کے لئے قائم کیا گیا تھا، تا کہ حکمران طبقہ عوام کی زبان کو سمجھ سکے۔
ہندوستانی ( اردو ) زبان کے چیف منشی میر بہادر علی حسینی مصنف ” اخلاق ہندی و نقلیات لقمانی” تھے۔ عام منشیوں میں قابل ذکر میرا امن دہلوی مصنف “باغ و بہار ، حیدر بخش حیدری مصنف ” آرائش محفل و تو طا کہانی کاظم علی جو ان مصنف سنگھاسن ، بتیسی و بارد ماسہ – میر شیر علی افسوس مصنف بہار اُردو اور خلیل علی خان اشک مصنف ” داستان امیر حمزہ تھے۔
اساتذہ اور منشی صاحبان درس دینے کے علاوہ طلبا کے لئے کتابیں بھی لکھتے تھے ۔ چنانچہ فورٹ ولیم کالج میں لغتیں ، تواریخ، اخلاقی ، مذہبی اور قصے کہانیوں کی کتا میں بڑی تعداد میں تیار ہوئیں۔ یہ کتابیں زیادہ تر اساتذہ اور منشیوں کی تصانیف ہیں لیکن دوسرے مصنفوں کی کتا میں بھی منظور کی جاتی تھیں ۔ مثلا باسط خاں کی “گل صنوبر ،شاکر علی کی الف لیلی ،” نہال چند لاہوری کا قصہ “گل بکاؤلی مرزاعلی لطف کی “گلشن ہند کالج کے زیر اہتمام چھپیں ، حالانکہ ان کتابوں کے مصنف کا لج سے وابستہ نہ تھے ۔
فورٹ ولیم کالج سے بیشتر اردو نثر کی کوئی کتاب بول چال کی آسان زبان مں موجود نہ تھی- اس لئے یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ جدید اردو نثر کی بنیاد فورٹ ولیم کالج میں پڑی- فورٹ ولیم کالج سے قبل بیشتر اردو نثر و نظم کی کتابیں قلمی ہوتی تھیں اس لئے عام لوگ ان سے مھروم رہتے تھے فورٹ ولیم کالج کی بدولت اردو کتابیں ہزاروں کی تعداد میں چھپنے لگیں-اس طرح اردو پڑھنے والوں کا حلقہ بہت وسیع ہو گیا- حقیقت یہ ہے کہ جب تک اردو زبان و ادب زندہ ہے فورٹ ولیم کالج کا نام بھی زندہ رہے گا- جنوری 1854 ء میں فورٹ ولیم کالج کا وجود ختم کر دیا گیا-
اب تک جو ادب تخلیق ہوتا تھا اس میں کوئی مقصدیت نہ تھی بلکہ یہ ادب برائے ادب ہی ہوتا تھا- سر سید تحریک نے ادب میں مقصدیت پیدا کی- اس تحریک میں اردو ادب کے عناصر خمسہ کا کردار بہت اہم ہے- جن میں سر سید ا حمد خان، مولنا الطاف حسین حالی،ڈپٹی نزیر احمد، مولنا شبلی نعمانی اور مولنا محمد حسین آزاد شامل ہیں-ان میں مولنا محمد حسین آزاد مقصدیت کے ھامی تھے لیکن قدامت پسندانہ نظریات رکھتے تھے باقی چاروں ترقی پسند نظریات رکھتے ہوئے مقصدیت کے حامی تھے-اس وقت کے ادب برائے ادب لکھنے والوں نے ترقی پسند تحریک کی کھل کر مخالفت کی لیکن اس کے سفر کو روکا نہی جا سکا- کچھ لوگ ترقی پسند تحریک کو سر سید کی تحریک کا تسلسل سمجھتے ہیں جو درست نہی ہے- کیونکہ سر سید ایک علمی اور جدت پسند تحریک تھی جو مسلمانوں کو زہنی طور پر ساینئس ،انگریزی، اور جدید علام سیکھنے کے لئے آمادہ کرتی تھی- اس تحریک نے سماجی نا انصافیوں اور ظلم و جبر کے حلاف کوئی کام نہی کیا-عورتوں کی آزادی، حقوق نسواں،اور عورتوں کی تعلیم پر کوئی زور نہی دیا اور نہ ہی نچلے طبقات یا پسے ہوئے مظلوم لوگوں کی بھلائی کے لئے کوئی تحریری یا عملی کام کیا- سر سید تحریک میں جو لوگ شامل تھے وہ اپنے سماجی مرتبے سے کم سطح پر آنے کے لئے بھی تیار نہیں تھے-
اس کے برعکس انجمن ترقی پسند مصنفین نے اپنی تحریروں کے ذریعے سماج میں ظلم وستم کے زمہ دار جاگیر داروں،وڈیروں اور سرمایہ اور نو آبادیاتی طاقتوں کو بے نقاب کیا-ترقی پسند ادیبوں نے پسے ہوئے طبقات کی کھل کر حمائیت کی انھوں نے آزادئ نسواں عورتوں کے سیاسی و سماجی حقوق اور عورتوں کی تعلیم کے فروغ کے لئے تھریری اور عملی کام کیا- ازادئی نسواں اور عورتوں کی تعلیم کے مخالف رجعت پرست قوتوں کا ترقی پسند ادیبوں نے ڈٹ کر مقابلہ کیا- ان کی یہ جدوجہد آج بھی جاری ہے- بد قسمتی سے ہر حکمران کی طرح پاکستانی حکمران بھی اس ملک کو لق و دق صحرا بنانا چاھتے ہیں-اہل ہوس دکھ درد اور اسائیشوں کی مساویانہ تقسیم کرنے کے لئے تیار نہی- جس کا نتیجہ بد ترین انارکی کی سورت میں کسی وقت بھی ملک کے گلی کوچون میں نمودار ہو سکتا ہے- ان ھالات میں پاکستانی شاعروں اور ادیبوں کی سب سے پہلی زمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنے خیالات و افکار سے عوام میں نئی زندگی کی روح پھونکیں-بیداری،جوش اور انقلاب کے گیت گائیں- ہر مایوس انسان کو امید اور ھوشی کا پیغام سنائیں اور سماج میں بسنے والے کسی انسان کو ناکارہ نہ ہونے دیں-یہی وہ واحد راستہ ہے جو اس سماج کو بدترین انارکی سے بچا سکتا ہے عوام کے شعور کی سطح بلند کئے بغیر کسی انقلاب کی توقع کرنا حماقت کے سوا کچھ نہیں اور سماجی شعور کو بڑھاوا دینے میں شاعروں اورادیبوں سے زیادہ بہتر کوئی کردار ادا نہی کر سکتا-
آؤ آج ہم عہد کریں کہ انجمن ترقی پسند مصنفین کا جو سفر اپریل 1936 میں لکھنؤ سے سید سجاد ظہیر،ملک راج آنند، منشی پریم چند، ڈاکٹر رشیدہ جہاں،فرق گورکھپوری، مولنا حسرت موہانی، اور دوسرے مصنفین نے شروع کیا تھا جس مین فیض ایمد فیض،سید سبط حسن، حمید اختر، ساحر لدھیانوی،حبیب جالب، احمد فراز اور ظہیر کاشمیری جیسے عظیم لوگ شامل ہائے ہم اس سفر کو جاری رکھیں۔
ترقی پسند فکر اور علم کی اس شمع کو اگلی نسلوں تک لے جائیں گے چاھے ہمیں کتنی ہی مشکلات اور روکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑے کیونکہ سچا مارکسسٹ لیننسٹ کبھی مایوس نہی ہوتا-اسے یقین ہوتا ہے کہ اس دنیا کے مسائیل کا حل مارکسزم کے علاوہ کسی اور مطام مین نہی ہے-سید سجاد ظہیر کا کہنا ہے کہ ہمارے نزدیک ہر وہ ادیب جو ملک کی آزادی اور جمہوریت کے لئے لکھتا ہے-ترقی پسند ادیب ہے لیکن مولنا حسرت موہانی اس قسم کی رعایت کے حق میں نہی تھے ان کے نزدیک ترقی پسند ادیب کا اشتراکیت پسند یا کیمونسٹ ہونا ضروری ہے—–
ہم مولنا حسرت موہانی سے مکمل اتفاق کرتے ہیں کیونکہ مارکسزم سماجی شعور کی بلند ترین سطح ہے اور یہی ترقی پسند ادیبوں کی مزل ہے ہم ہر مزہب کے ٹھیکیداروں کو یہ بتا دینا چاھتے ہیں کہ کسی مزہب کا حدا سرمایہ داروں،لٹیروں، اور ظالموں کا حمائیتی نہی ہو سکتا کسی مزہب کا خدا سماجی نا انصافی اور معاشی عدم مساوات کو پسند نہی کرتا اس دنیا میں اب سامراج کا نافز کردہ ظلم و جبر کا نطام نہی چلے گا اب اس طبقاتی نظام کا خاتمہ ہونے والا ہے اور سماجی و معاشی مساوات کے نطام مارکسزم کی منزل قریب ہے-
انتہائی عوامی سطح کا علمی و ادبی حلقوں سے جڑا تکنیکی مضمون لکھنے پر ڈاکٹر طاہر عوامی داد کے مستحق ہیں ۔۔۔ ہمیں آج ہر صورت میں تاریخی سماجی ارتقاء جسے ہمارے اکابرین نے انجمن ترقی پسند مصنفین کی صورت میں جاری کیا ،،، پوری شدومد سے جاری و ساری رکھنے کی از حد ضرورت ہے ۔۔۔ بلکہ آج تو عالمی استعماری قوتیں زیادہ جبر و استحصال سے کام لے رہیں ہیں تو پھر اس کی مزاحمت بھی عوامی حلقوں میں زیادہ طبقاتی شناخت اور جڑت سے ہونی چاہیے جو افسوس آج کا ادیب اور سیاسی کارکن سماجی سطح پر ادا کرنے سے کوسوں دور ۔۔۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آج زہنی فوکس عوامی جمہوری معاشی آزادیوں کی تحریک سے ہٹ کر انتہائی معروضی سطح پر محدود کر دی گئیں جو سراسر سامراجی قوتوں کی عالمی کامیابی ہے جبکہ عوامی آواز بھی ٹکڑوں میں سامنے آتی ہے لیکن تسلسل اور تفصیلات سے خالی ہونے کی وجہ سے وہ عام لوگوں کے دلوں میں گھر نہیں بنا پاتی اور فوری فوری منظر عام سے غائب ہو کر استحصالی قوتوں کی منظم اور مربوط مزاحمت کرنے سے فارغ ۔۔۔
لہذا آج ایسے عوامی ادب اور ان سے جڑے مزاحمتی بیانیہ کو عوامی حلقوں تک پہنچنے میں ہم سیاسی کارکنان کا بنیادی کردار کی پہلے سے کہیں زیادہ سماجی ضرورت ہے جسے بہرحال عقلی حلقوں کو دیکھنے کی بنیادی ترین ضرورت
• Maulana Hasrat Mohani rightly defined
Progressive Writers
• Symbolic Expression of ” Right and Left”
has now changed into ” Right and Wrong ” for drawing line between Oppressors and Oppressed.
♪ Historically Well Tracked ✓