رانا اعظم ، عوامی ورکرز پارٹی
قسط 3
ہم نے دوسری قسط میں سوال رکھا تھا کہ کیا پشتون قوم پرست اپنی بقا کی جنگ کو بڑھا چڑھا کر بیان کر رہے ہیں۔؟ بقا کی جنگ کی بات ہم نے اس پس منظر کی تھی کہ دور نہ بھی جائیں تو گذشتہ 15 سال سے پختون خواہ میں تحریک انصاف بھاری اکثریت سے انتخاب جیت رہی ہے ۔ جب کی تحریک انصاف کی طالبان اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ گاڑی جھنتی ہے ۔ صرف گذشتہ الیکشن میں اسٹیبلشمنٹ سے دوری ہوئی اور یہ دوری بھی عارضی ہے ۔ طالبان بارے تو اس کا آج بھی وہی موقف ہے ۔ ہمارے قوم پرست دوست کہہ سکتے ہیں کہ انہیں ان انتخابات میں طالبان کی وجہ سے لیول پلینگ فیلڈ نہیں ملا ۔ ایک حد تک یہ بات درست بھی ہے، لیکن قوم پرست قوتوں اور ملاوں کے ہارنے کی صرف یہی ایک وجہ نہیں ہے ۔ 2018 کے الیکشن میں ہماری اپنی پارٹی کے دو امیدواران نےاسلام آباد سے قومی اسمبلی کی دو سیٹوں سے الیکشن لڑا ۔ یہ وہ وقت تھا جب ہمارے یہی دو امیدوار اسلام آباد میں پی ٹی ایم کا جلسہ کروانے کی پاداش میں جیلوں میں بھی گئے ۔ ان میں سے ایک ہماری پختون خاتون امیدوار تھیں جو ہمیشہ سے قوم پرست اور پی ٹی ایم کی مرکزی لیڈرشپ میں تصور کی جاتی ہیں ۔ انہی کی وجہ سے ہمیں یہ سب لکھنا پڑ رہا ہے۔ ہمارے امیدواران کو قومی اسمبلی کے حلقوں میں چند سو سو ووٹ ملے ۔ اس کا مطلب ہوا کہ اسلام آباد میں آباد ہزاروں پشتونوں میں سے کسی نے بھی ہیمں ووٹ نہیں دیا ۔ کوئی دوست کہہ سکتا ہے کہ اسی الیکشن میں علی وزیر اور محسن دراوڑ کی جیت ہوئی تھی ، لیکن انہیں نہیں بھولنا چاہیے کہ دونوں ہمارے دوست تحریک انصاف کی مدد سے جیتے تھے ۔ تحریک انصاف نے ان کے مقابلے میں اپنے امیدوار نہیں دیئے تھے ۔
ہمارا مقدمہ یہ ہے کہ جہاد افغانستان ، ہیروئین کلاشنکوف اور وار آن ٹیرر کے پیسے نے پشتون خطہ یا خیبر پختون خواہ میں مڈل کلاس کو جنم دیا۔ کاروبار، کمرشلائزیشن خوب پھلی پھولی ۔ سول بیوروکریسی اور فورسز میں اپنے حصہ سے زیادہ کیک حاصل کیا ۔ سب محرومیاں وغیرہ ہوا ہوگئیں۔ قوم پرستی کے غبارے سی ہوا نکل گئ ۔ قوم پرستی اب اس مڈل کلاس کی ضرورت نہیں رہی ہے ۔ یہی مڈل کلاس اب تحریک انصاف کی ریڑھ کی ہڈی بن گئ ہے ۔ ہمارے ا پنے پارٹی دوستوں کے پاس اس مقدمہ کا کوئی جواب نہیں ہے ۔ یہ وہ اصل اسباب ہیں ، جس نے پشتون سماج کو بدل کے رکھ دیا ہے۔ جنگیں جہاں محنت کش عوام کے لئے تباہی کا باعث بنتی ہیں وہیں سامراج اور اس کے اتحادیوں کے لیے منافع بخش ہوتی ہیں ۔
اتحادیوں کی تعریف کو وسیع کرکے دیکھنا پڑے گا۔ جس میں پختون خواہ کے لوگ بھی آتے ہیں ۔ انہوں نے بھی فواید اٹھائے ۔ پہلی عالمی جنگ میں لینن سے کسی نے پوچھا کی کہ کتنی خوفناک جنگ ہے؟ لینن نے فوری جواب دیتے ہوئے کہا کہ . جنگیں سامراج اور سرمایہ داری کے لیئے ہمیشہ منافع بخش ہوتی ہیں۔
اب ہم اصل موضوع پہ آتے ہیں ۔ ہم نے دوسری قسط میں اپنی ہی پارٹی دوستوں کا جوقوم پرستی کا مقدمہ زور و شور لڑرہے ہیں ، کا موقف لکھ دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سرد جنگ کا عفریت لانے والے امریکہ اور چین ہیں ۔ روس ، ایران، پاکستان، افغانستان اور ہماری اسٹیبلشمنٹ حصہ دار ہیں ۔ امریکہ اور چین اپنی پراکسی کے ذریعے پشتون خطہ کو میدان جنگ بنائیں گے ۔ ہم نے اسی سلسلہ کی پہلی قسط میں ایک بات آپ کے سامنے رکھی تھی کہ اگر ہم امریکی سامراج اور چین کے طبقاتی کردار کو ایک ہی طرح لیں گے تو جواب ایک آئے گا اور اگر امریکہ کو سامراجی کردار کے عدسہ سے لیں گے تو جواب دوسرا ہوگا ، چونکہ ہمارے قوم پرستی کی سیاست کرنے والے لوگ خواہ کسی بھی سیاسی جماعت میں ہوں ۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ چین اپنے پڑوس میں یہ “عفریت “کیوں لائے گا ۔
ہم بہت واضع ہیں ۔ ہم چین کو سوشلزم کے راستہ پر گامزن سمجھتے ہیں اور امریکہ کو امریکی سامراج کہتے ہوئے ہماری زبان لڑکھڑاتی نہیں ہے ۔ ہمارے ان پارٹی دوستوں پر پارٹی کی طرف سے دباؤ بڑھنے پر ایک نیا بیان آ گیا کہ ہم نیٹو اور چین کو ایک نہیں سمجھتے ۔ یہی وہ پینترا ہے جس سے امریکہ کو
سامراج کہنے سے بچ نکلنے راستہ ملتا ہے ۔
ہمارے سادہ لوح دوستوں کو کچھ باتیں سمجھ نہیں آتیں ۔ پہلی بات یہ کہ چین آج سوویٹ یونین سے مختلف سمت پر کھڑا ہے ۔ سامراجی سرمایہ دار ممالک کی خود بہت بڑی تجارتی انحصار چین پر ہے ۔ یہ صورت سوویٹ یونین کی نہیں تھی ۔ وجوہات ہمارا آج کا موضوع نہیں ہے ۔ چین کا گھراو کرنا اس کے جغرافیائی محلے وقوع کی بنا پربھی ممکن نہیں ہے۔ چین امریکہ کےترقی یافتہ سرمایہ دار ممالک میں نہیں گھرا ہوا ۔ صرف انڈیا کی مدد سے یہ ممکن نہیں ہے ۔ انڈیا خود چین اور روس کا بڑا تجارتی حصہ دار ہے ۔ ہاں امریکہ چین کی تعمیر وترقی کو روکنے کے لیے ایک سست روی سے سرد جنگ کا ماحول بنائے رکھے گا ۔ آج امریکی سامراج خود بھی سرد جنگ کو گرمانے کی پوزیشن میں نہیں ہے ۔ تحریک طالبان پاکستان مجموعی طور پر پاکستان اور خاص طور پہ پختون خواہ اور بلوچستان میں اپنی دہشت گردانہ کارروائیاں جاری رکھے گی ۔ حالانکہ ہماری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تحریک انصاف اور عمران خان کے منہ بولے فیض بھائی اس نئی دہشت گردی کے زمہ دار ہیں ۔ جنہوں نے گڈ طالبان کو دوبارہ یہاں لا کر یہاں بسایا ، اسی عمران خان کو پشتون قوم ٹنوں کے حساب سے ووٹ دیتی ہے ۔ ہمارے اپنے قوم پرستی کی سیاست کرنے والے پارٹی دوستوں کو فیصلہ کرنا پڑے گا کہ انہوں نے محنت کش عوام کے ساتھ کھڑے ہونا ہے یا پی ٹی ایم اور دیگر قوم پرستوں کے ساتھ ۔ اج ترقی پسندوں اور سوشلسٹوں کا فرض بنتا ہے کہ اپنے خطہ کو میدان جنگ بننے سے روکنے کے لیے عوام کی مدد سے سامراج دشمن فرنٹ کے ذریعےمتحرک کریں ۔
کیا ہوگا اگر کوئی قوم خطے میں دوسری قوموں پر بالادستی حاصل کر لیتی ہےتو۔ معاشی ترقی فاعل اور مفعول کی ضرورت ہے۔اور دونوں لازم و ملزوم ۔ قومی بالادستی کا امریکی ماڈل ہو یا چین کی طبقاتی جدوجہد ۔ اس کا اگلا مرحلہ مقامی بالادستی سے شروع ہوتا ہے۔سکندر اعظم، صلاح الدین ایوبی اور بہت سے دیو مالائی کرداروں کا انجام (مثبت یا منفی) سرمائے کے حصول تک محدود رہا ہے۔ اسی طرح کے دیگر کردار تخلیق ہو رہے ہیں اور عوامی جدوجہد کو نامیاتی قوم پرستی کی آگ میں جلانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ سمجھیں یا نہ سمجھیں یہ سب سرمایہ دارانہ نظام کی ہی چالیں ہیں۔
کیا ہوگا اگر کوئی قوم خطے میں دوسری قوموں پر بالادستی حاصل کر لیتی ہےتو۔ معاشی ترقی فاعل اور مفعول کی ضرورت ہے۔اور دونوں لازم و ملزوم ۔ قومی بالادستی کا امریکی ماڈل ہو یا چین کی طبقاتی جدوجہد ۔ اس کا اگلا مرحلہ مقامی بالادستی سے شروع ہوتا ہے۔سکندر اعظم، صلاح الدین ایوبی اور بہت سے دیو مالائی کرداروں کا انجام (مثبت یا منفی) سرمائے کے حصول تک محدود رہا ہے۔ اسی طرح کے دیگر کردار تخلیق ہو رہے ہیں اور عوامی جدوجہد کو نامیاتی قوم پرستی کی آگ میں جلانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ سمجھیں یا نہ سمجھیں یہ سب سرمایہ دارانہ نظام کی ہی چالیں ہیں۔
Correct gardezi sahab.