پروفیسر امیر حمزہ ورک
تیرھویں صدی میں منگولیا سے وحشی تاتاریوں کا طوفان اٹھا اور چنگیز خاں کی سربراہی میں سارے ایشیاء کو لپیٹ میں لے لیا۔ ہلاکو خان سنٹرل ایشیاء کو روندتا ہوا بغداد پہنچا اور بیمار عباسی سلطنت کا خاتمہ کر دیا۔ترکوں نے اس کے کھنڈرات پر عثمانی سلطنت کی بنیاد رکھی اور مصر کے علاوہ تمام ممالک قبضہ میں لے لیے۔چودھویں صدی کے وسط تک یہ سلطنت عروج پر پہنچی۔اس وقت یورپ صلیبی جنگوں میں ناکامی کے بعد پاپائیت کے بوجھ تلےہز ارسالہ تاریک دور سے گزر رہا تھا- اور ضروریات زندگی کے لئے ہندوستان اور
چین کا محتاج تھا –تجارتی راستہ ایران اور ترکی سے گزرتا اور آبنائے با سفورس جو کہ ایشیا ء کو یورپ سے جدا کرتا ہے-ترکوں نے طاقت کے نشے میں جنت کی بشارت پر آبنائے باسفورس پار کی اور باز نطینی سلطنت کے صدر مقام قسطیننیہ پر قبضہ کر لیا اور مشرقی یورپ کی طرف بڑھنے لگے۔یورپ کی تجارتی شاہرگ کاٹ دی گئی۔یہی تاریخی حماقت ثابت ہوئی۔ گلہ گٹنے پر یورپ نیند سے جاگ پڑا اور ہندوستان و چین کا راستہ تلاش کرنے کے لیے سمندروں میں کود پڑا۔طاقتور بحری بیڑے بنائے اور جنوبی افریقہ کا چکر کاٹ کر نہ صرف ہندوستان اور چین پہنچے بلکہ براعظم امریکہ آسڑیلیا نیوزی لینڈ اور ہزاروں جزائر پر قابض ہو گیا۔ترکوں کی حرکت نے انسانی تاریخ کا دھارا تبدیل کردیا۔یورپی تجارتی کمپنیاں سمندروں پر قابض ہو گئیں۔ہندوستان ایک صدی سے انتشار کا شکار چلاآرہا تھا اور پھر بیرونی حملہ آوروں کو دعوت دے رہاتھا چنانچہ برطانیہ کی ایسٹ انڈیا کمپنی نے حکمت عملی سے دوسری کمپنیوں کو بچھاڑکر مقامی حکمرانوں کے باہمی تضادات کو استعمال کیا اور تجارتی مراعات حاصل کرتے کرتے مقامی بے روز گار وں کو فوج میں بھرتی شروع کردیا۔ اس قبضہ گیری کے عمل کو نو آبادیاتی نظام کے نام سے یاد کیا جاتا ہے- اسی نو آبادیاتی نظام کی چھتری تلے دو عالمی جنگیں لڑی گئیں- جب سرمایہ داری نے سرمائے کا جوکاروبار تجارت سے شروع کیا تھا وہ مقامی سرمایہ داری اور پھر عالمی سرمائیہ داری سے ترقی کرتا ہوا عالمی سامراج بنا-
پہلی اور پھر دوسری عالمی جنگ منڈیو ں کی تقسیم پر لڑی گئی جس کے نتیجے میں برطانوی سامراج کی قیادت میں پرانی سامراجی طاقتیں زوال پزیر ہو گئیں اور دونوں عالمی جنگوں سے محفوظ رہنے والے امریکہ نے عالمی سرمایہ داری کی قیادت سنبھالی-دونوں عالمی جنگوں کے نتیجے میں نوآبادیاتی نظام زوال پزیر ہو چکا تھا اور یورپین سامراجی ملکوں کے شکنجے سے ایشیاء اورافریقہ میں غلام ریاستیں ازاد ہو رہی تھیں- اور نوآبادیاتی نظام سے آزادی کی اس لرائی میں کئی ریاستوں میں سوشلزم کا سورج بھی طلوع ہوا غرضیکہ اب نو آبادیاتی سامراجی طاقتوں کے لئے اس نطام کو مزید جاری رکھنا ممکن نہی تھا-کیونکہ جنگوں سے تباہ حال یورپ اپنی نوآبادیوں پر کنٹرول جاری رکھنے کے قابل نہی رہا تھا اور نہ ہی وہ سرمایہ دارانہ نطام کی قیادت کے قابل رہ گیا تھا- اس لئے عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی سربراہی توانا اور طاقتور سرمائہ دار ملک امریکہ کے سپرد ہوئی-اور امریکی سامراج نے دنیا پر سرمایہ دارانہ نظام کی بالادستی قائیم رکھنے ، سابقہ نو آبادیوں اور نام نہاد آزاد ریاستوں پر سامراجی حکمرانی کا تسلسل یا دوبارہ نفاذ، معاشی سامراجیت،عالمگیریت،ثقافتی سامراجیت،قائم کرنے اور کسی ترقی پزیر ملک کو براہ راست فوجی کنٹرول یا بلواسطہ سیاسی کنٹرول یا کسی ملک پر اثر انداز ہونے یا کنٹرول کرنے کے لئے مشروط امداد دینے جیسے طریقے اختیار کرنے کا فیصلہ کیا-امریکی سامراج کی قیادت میں اس نئے سامراجی بالا دستی کے نظام کو تیسری دنیا کے ملک گھانا کے راہنما کامریڈ نکرومہ نے ساٹھ کی دہائی میں جدید نو آبادیاتی نظام کا نام دیا اور یہ اصطلاح پوری دنیا میں مستعمل ہو گئی-دوسری جنگ عظیم کے بعد گھانا کے صدر کامریڈ نکرومہ نے نظریاتی طور پر 20 ویں صدی کے بعد لینن کی طرف سے “امپیریلزم دی ہائیسٹ سٹیج آف کیپٹلزم” (1917) کے پمفلٹ میں پیش کیے گئے سماجی و اقتصادی اور سیاسی دلائل کو تیار کیا اور آگے بڑھایا- اس سلسلے میں ان کی کتاب ” جدید نو آبادیاتی نظام،سامراج کا آخری مرحلہ” 1965 ء میں شائع ہوئی-
جدید نو آبادیاتی نظام کے بارے میں صدر نکرومہ نے کہا “کس طرح ایک ریاست نظریہ میں خود مختار ہو سکتی ہے اور اس میں بین الاقوامی خودمختاری کے تمام ظاہری احوال
موجود ہو سکتے ہیں، تاہم، اس کا معاشی نظام اور سیاسی پالیسی باہر سے چلتی ہے-بظاہر آزادی کے باوجود، اگر غیر ملکی فوجی دستے کسی ملک میں ٹھہرے ہوں، یا سرمایہ کاروں یا کارپوریشنوں نے اس میں سرمایہ کاری کی ہو، تو اس کی پالیسیاں عام طور پر دیگر بیرونی قوتوں کے ذریعے وضع کی جاتی ہیں، خاص طور پر سابق نوآبادیاتی طاقتوں یا سپر پاورز جیسے کہ امریکہ وغیرہ-“
آئی ایم ایف کا قیام اس جدید نو آبادیاتی نظام کی ایک اہم کڑی کے طور پر 1944 ء میں سامنے آیا- آئی ایم ایف 1930 کی دہائی کے عظیم کساد بازاری کے بعد قائم کیا گیا تھا۔ 44 بانی رکن ممالک نے بین الاقوامی اقتصادی تعاون کے لیے ایک فریم ورک بنانے کی کوشش کی۔ آج، اس کی رکنیت میں 190 ممالک شامل ہیں، جن میں 150 ممالک سے عملہ شامل ہے – یہ ادارہ جنگ عظیم دوم کے بعد بریٹن وڈز کے معاہدہ کے تحت بین الاقوامی تجارت اور مالی لین دین کی ثالثی کے لیے دسمبر 1945 میں قائم ہوا۔ امریکہ کے شہر برٹن ووڈ میں 44 ممالک کی اس کانفرنس میں آئی ایم ایف کے ساتھ دو اور ادارے بھی بنانے کا فیصلہ کیا گیا جن میں اقوام متحدہ اور عالمی بینک کا قیام بھی شامل تھا-آج ان تینوں اداروں کا کردار ساری دنیا جانتی ہے کہ سامراج کی عالمی بالا دستئ قائیم کرنے کے لئے اور نو آبادیاتی نظام کی جگہ جدید نو آبادیاتئ نظام قایم کرنے کے لئے اقوام متحدہ،عالمی بینک او ر آئی ایم ایف تخلیق کئے گئے تا کہ پسماندہ اور ترقی پزیر ملکوں ،ریاستوں اور قوموں پر معاشی ،سیاسی،ثقافتی غلبہ برقرار رکھا جا سکے-
عالمی بینک اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ – بین الاقوامی مالیات کے دو اہم ادارے – دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد برسوں کے تنازعات کی وجہ سے بکھری ہوئی معیشتوں کو بحال کرنے کے لیے قائم کیے گئے تھے۔ عالمی بینک کا بنیادی مقصد یورپی ریاستوں کی ترقی اور تعمیر نو میں مدد کرنا تھا۔ آئی ایم ایف کا مقصد عالمی معاشی استحکام کو یقینی بنانا تھا۔ لیکن برسوں سے یہ دونوں ادارے امریکی سامراج کے ایجنٹ بن چکے ہیں۔ قرض لینے والے ممالک میں امریکی اثر و رسوخ کو فروغ دینے اور مسلط کرنے کے لیے ان کی پالیسیاں اور حکمت عملی تیار کی جاتی ہے اور ان پر عمل درآمد کیا جاتا ہے۔ کئی دہائیوں کے کامیاب آپریشن کے بعد، امریکہ نے زیادہ تر قرض لینے والی ریاستوں کے فوجی اور اقتصادی اثاثوں پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ بہت زیادہ مقروض ممالک کی حکومتیں بے بسی سے دیکھ رہی ہیں جب کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈز ان کے لیے اپنی پالیسیاں بنا رہے ہیں۔ یہ انہیں بتاتا ہے کہ اپنی کرنسی کی قدر کب اور کس حد تک کم کرنی ہے، کن وسائل کو بیچنا ہے، کیا خریدنا ہے، کس چیز کا مالک ہونا ہے، کتنا خرچ کرنا ہے اور کس چیز پر خرچ کرنا ہے۔ یہ انہیں بتاتا ہے کہ تجارت کیسے کی جاتی ہے۔امریکی سامراج کا مقصد اپنے سیاسی، ثقافتی، سماجی، اقتصادی اور فوجی کنٹرول کو اپنی حدود سے باہر پھیلانا ہے۔ اس کے ٹولز میں گن بوٹ ڈپلومیسی، ملٹری فتح اور ملٹی نیشنلز ،عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے ذریعے اقتصادی رسائی شامل ہے۔
آئی ایم ایف کے جال میں پھنس کر ترقی پذیر ممالک آسانی سے اپنے وسائل پر کنٹرول کھو بیٹھتے ہیں اور سامراجی طاقتوں کے مستقل گاہک بن جاتے ہیں۔آئی ایم ایف آخری حربے کے طور پر عالمی سامراجی ، طاقتوں کے لیے ان پر اپنی پالیسیاں مسلط کرنے کے لیے انتہائی موثر طریقے تلاش کرتا ہے۔ حکومتیں آئی ایم ایف سے اس وقت رجوع کرتی ہیں جب ان کے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں ہوتا اور انہیں مدد کی شدید ضرورت ہوتی ہے۔ آئی ایم ایف ان کے ساتھ اس طرح ڈیل کرتا ہے کہ وہ جلد ہی مجازی غلاموں کی حیثیت سے بھی کم ہو جاتے ہیں۔ آئی ایم ایف سے قرضہ لینے والی ریاستوں کو اپنی خودمختاری چھوڑنی پڑتی ہے
معاشی سامراج کے دور میں سامراجی ممالک اپنے زائد سرمائے کو براہ راست سرمایہ کاری اور قرضوں کی صورت میں غلام ریاستوں سے زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ سامراجی طاقتیں غریب یا ترقی پذیر ممالک کو سب سے پہلے غیر ملکی امداد اور قرضوں پر انحصار کرکے ان پر اپنا سیاسی، سماجی، معاشی اور فوجی تسلط مسلط کرتی ہیں۔ منحصر معیشتوں کو خام مال کا غیر مساوی تبادلہ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ جب کہ غیر ملکی سرمایہ کار بے پناہ منافع کماتے ہیں، کلائنٹ ممالک تجارتی اور بجٹ خسارے کا شکار ہیں۔ اپنی روزمرہ کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے وہ بہت زیادہ قرض لینے پر مجبور ہیں تاکہ ان پر قرضوں کا بوجھ مزید بڑھ جائے۔
آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک پر سب سے زیادہ کنٹرول، ووٹنگ کی طاقت ، سیاسی اور سرمایہ کااثر و رسوخ رکھنے والے پانچ سامراجی ملک مریکہ، جاپان، جرمنی، فرانس اور برطانیہ۔ ہیں- یہ بات قابل غور ہے کہ ورلڈ بینک کی تاریخ میں گیارہ صدور میں سے سبھی کا تقرر امریکہ سے ہوا ہے۔یہ پانچوں بڑے ترقی یافتہ سامراجی ملک دنیا کے کسی بھی خطے یا ریاست کے وسائل پر کنٹرول کے لئے عسکری ذرائع استعمال کر سکتے ہیں لیکن اس کا منفی مفہوم نکلتا ہے جو دوسری عالمی جنگ کے نتائج سے ظاہر ہےٰ- اس قسم کے بدنما داغ کے بغیر دنیا بھر کے وسیع خزانوں کا کنٹرول حاصل کرنے کے لیے کسی نہ کسی قسم کی کور اسٹوری ہونی چاہیے۔ جدید نو آبادیاتی مرحلے میں، نوآبادیاتی فتح پردے کے پیچھے ہونی چاہیے۔ یہ آئی ایم ایف جیسے پیشہ ورانہ معاشی اداروں اور تنظیموں کے ذریعے ترتیب دیا گیا ہے جنہیں “مہذب” ادارے کے طور پر دیکھا جاتا ہے
جب ترقی پذیر ممالک مالی امداد قبول کرتے ہیں، تو ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف اپنے ٹروجن ہارس کے اندر انتظار کرنے والے استعاراتی فوجیوں کو اتارنے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں۔ پالیسی ڈکٹیشن قرض وصول کنندہ ملک کے ڈیفالٹ پر منحصر نہیں ہے۔ صرف قرضوں کو قبول کرنے کی شرائط عطیہ دہندگان کے حاصل کردہ اختیارات کو واضح طور پر بیان کرتی ہیں۔ یہ شرائط وہ مظہر ہیں جو ساختی ایڈجسٹمنٹ پروگرام اور مشروط معاہدوں کی شکل میں آتی ہیں۔ اکثر عطیہ دہندگان کی طرف سے جن شرائط پر اصرار کیا جاتا ہے ان کا ترقی پذیر دنیا میں ترقیاتی اہداف کے حصول کی کوششوں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
آئی ایم ایف ایک عوامی ادارہ ہے، جو دنیا بھر کے ٹیکس دہندگان کی طرف سے فراہم کردہ رقم سے قائم کیا گیا ہے۔ یہ یاد رکھنا ضروری ہے کیونکہ یہ براہ راست یا تو ان شہریوں کو رپورٹ نہیں کرتا ہے جو اس کی مالی اعانت کرتے ہیں یا ان لوگوں کو جن کی زندگی اس سے متاثر ہوتی ہے۔ بلکہ، یہ سامراجی ملکوں کی وزارت خزانہ اور سرمایہ دار دنیا کی حکومتوں کے مرکزی بینکوں کو رپورٹ کرتا ہے۔
یہ سوچنا کہ ان مالی امدادی اداروں اور اس کے سرپرستوں کے حاصل کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے نادانی اور کم نظری ہے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے آپریشنز میں شامل امداد کی تقسیم کی منافقانہ اور غیر مساوی طرز عمل، مفادات کے تصادم اورغیر منصفانہ طرز عمل کی بہت سی مثالیں ہیں جنہوں نے ترقی پذیر ممالک کے غریب ترین شہریوں کو نقصان پہنچایا ہے۔ ایسی ہی ایک وحشیانہ مثال 1980 کی دہائی کے دوران ہیٹی میں پیش آئی جس میں ورلڈ بینک اور یو ایس ایڈکے مشترکہ ترقیاتی منصوبے میں خطے کو استحکام اور جمہوری بنانے کا مشن بیان کیا- لیکن یہ مشن ریاستہائے متحدہ امریکہ کی ہیٹی میں فوجی موجودگی کے استعمال کے لئے مکمل کیا گیا-اس ضمن میں ممتاز امریکی دانشور نام چومسکی کا کہنا ہے کہ۔۔۔۔۔””آئی ایم ایف اور ئو ایس ایڈ نے ہیٹی میں غربت کے خاتمے کے نام پر صحت اور تعلیم کے اخراجات کو روکا،اور ہیٹی کے امیر لوگوں اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کے فائیدے کے لیے سیمنٹ اور فلور ملوں کی نج کاری کو یقینی بنانے کے لئے امداد روک دی-زرعی کاروبار کو کافی فندنگ ملی لیکن کسانوں کو زراعت کے لئے کوئی وسائل فراہم نہی کئے گئے-غیر ملکی کروباریوں کو سستی بجلی فراہم کی گئی جس پر سسبسڈی دی گئی اور عام شہریوں کی بجلی کے استعمال پر سبسڈی روک دی گئی۔۔۔۔””
بہت سے ترقی پذیر ممالک وسیع معدنی اور قیمتی دھاتی وسائل کے گھر ہیں جن سے ترقی یافتہ ممالک نو آبادیاتی دور سے اپنی پیداوار اور کھپت کو بڑھانے کے لئے بطورایندھن استعمال کرتے چلے ا رہے ہیں- مثال کے طور پر ٹیکنالوجی اور مینوفیکچرنگ کے شعبوں میں۔ آئی ایم ایف کے قرض دینے کی طاقت مالیاتی اور سیاسی اداروں کو ان قدرتی وسائل کو نکالنے کی صلاحیت فراہم کرتی ہے اور آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک خاص طور پر ایسا کرنے کے قابل عمل طریقہ کار کو طے کرتے ہیں ۔ ائی ایم ایف کی فنڈنگ مشروط تقاضے اور صنعتوں کی نجکاری کا مطالبہ کرتی ہے جس کا مقصد بڑے، بین الاقوامی ادارون اور کارپوریشنوں کے ذریعے ترقی یافتہ ممالک کے لیے ترقی پذیر دنیا میں تجارتی رکاوٹوں کو کم کرنا نجکاری کے عمل کو تیز اور آسان بناتا ہے،اور غیر ملکی کارپوریشنوں کو ان کی منڈیوں تک غیر محدود رسائی فراہم کرتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب کہ مغرب کے اثر و رسوخ نے ترقی پذیر ممالک سے اپنی تجارت کی رکاوٹوں کو کم کرنے کا مطالبہ کیا ہے، انہوں نے اس کے بالکل برعکس کیا ہے۔ مغرب نے اپنی موجودہ تجارتی رکاوٹوں کو برقرار رکھا ہے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک ترقی پذیر ممالک کو زرعی اور صنعتی سبسڈی پروگراموں کو ختم کرنے پر مجبور کرتے ہیں، نتیجتاً وہ کسی بھی ممکنہ برآمدی آمدنی سے باہر ہو جاتے ہیں۔
مزید برآں، ترقی پذیر ممالک کی حکومتیں جو کہ وسائل سے مالا مال زمینوں پر انحصار کرتی ہیں اور ریاست کی ضمانت شدہ آمدنی کے ایک بڑے ذریعہ کے طور پر کان کنی کے ٹیکسوں پر انحصار کرتے ہیں۔ نتیجتاً،آئی ایم ایف کے دباو پر یہ قومیں اپنے شہریوں کے بجائے غیر ملکی ملکیتی کارپوریشنوں کی فلاح و بہبود کی وکالت کرتی ہیں اور اسی کے مطابق ان کارپوریشنوں کو عوامی پالیسی پر اثر انداز ہونے کے قابل بناتی ہیں- خاص طور پر ایکواڈور میں، جہاں کان کنی کے تمام پراجیکٹس کا 90% کینیڈا کی ملکیت ہے، عام شہری کے پاس کارپوریشنوں کو زمینی کنٹرول، ماحولیاتی اور سماجی اثرات، خودمختاری، اور معدنی دولت کی منتقلی جیسے اہم مسائل کے لیے جوابدہ ٹھہرانے کے لئے کوئی اواز بلند نہی ہوتی-
ترقی پذیر ممالک میں آئی ایم ایف کی غیر ملکی امداد سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کی بہت سی حیرت انگیز مثالیں ہیں۔ عالمی سامراجی ادارے اپنی مدد کے لئے من پسند طرز حکمرانی کو فروغ دیتے ہیں جسیے “ناقص گورننس ،قانون کی کمزور حکمرانی، احتساب کا فقدان، معلومات پر سخت کنٹرول، ناقص معیار کے ادارے اور اعلیٰ سطح کی بدعنوانی۔ اس کے باوجود، “خراب طرز حکمرانی” کا مظاہرہ کرنے والے ممالک کو بغیر سرزنش یا فنڈز کی معطلی کے قرضوں میں مسلسل توسیع دی جاتی ہے۔ خاص طور پر، افریقہ میں اکتیس
ممالک ایسے ہیں جو بد ترین خراب گورننس کا ٹریک ریکارڈ رکھنے کے باوجود اب بھی عالمی بینک اور آئی ایم ایف سے غیر ملکی امداد میں اپنی مجموعی قومی پیداوار کا 10% سے زیادہ وصول کرتے ہیں-
ستم ظریفی یہ ہے کہ جب ترقی پذیر ممالک فعال طور پر اپنی مالیاتی پالیسیوں کو آگے بڑھاتے ہیں اور معیشت میں بہتری حاصل کرتے ہیں، جو کہ “گڈ گورننس” کے مترادف ہوتی ہے تو ان کو دی جانے والی ترقیاتی امداد کی رقم کم کر دی جاتی ہے۔ اس سے اہم نکتہ یہ سامنے آتا ہے کہ ہے کہ جن خطوں کو آئی ایم ایف کی امداد کی مسلسل فراہمی کی جاتی ہے ان ریاستوں کے وسائل اور زمیں پر عالمی سامراجی طاقتیں آسانی سے رسائی حاصل کر لیتی ہیں-
آئی ایم ایف اور ورلد بینک جیسے سامراجی اداروں سے امداد لینے والے ترقی پذیر ممالک کی بیوروکریسی ہی واحد عنصر نہیں ہیں جو بدعنوانی کا شکار ہوتی ہیں جو غیر ملکی امدادی پروگراموں میں مواقع سے فائدہ اٹھاتی ہیں بلکہ پورا ریاستی ڈھانچہ اور ادارے کرپشن کا شکار ہوتے ہیں اور ان عالمی مالیاتی اداروں سے مل کر اپنے عوام کو لوٹتے ہیں ۔ اس مضمون میں جن دو بڑی ڈونر تنظیموں کا جائزہ لیا گیا یعنی ، ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف ان کی بد نیتی اور کرپشن 2001 میں منظر عام پر لایا گیا، بنگلہ دیش میں شروع ہونے والے تین الگ الگ عدالتی مقدمات سے واضح ہوتی ہے میں ان مقدمات میں ان اداروں پر بدعنوانی کا الزام عائد کیا گیا۔ خاص طور پر، اکاؤنٹنگ میں غلطیاں جو مبینہ طور پر دسیوں ملین ڈالر میں تھیں، ورلڈ بینک کے سابق اہلکاروں نے فنڈز کے “غلط خرچ” ہونے کی تصدیق کی۔ عدالتی کارروائی کے ذریعے بنیادی دستاویزات کو بھی عام کیا گیا اور ان شواہد کی طرف اشارہ کیا گیا کہ کثیرالجہتی امدادی تنظیمیں ترقی پذیر دنیا میں بدعنوانی اور بدعنوانی کو بڑھانےکے لیے سرگرم عمل ہیں۔
پاکستان کی بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے قرض لینے کی اپنی تاریخ ہے، جسے چار مختلف ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ قرض لینے کے ابتدائی سال 1950 سے 1988 تک پھیلے ہوئے تھے،پاکستان نے 11 جولائی 1950 کو آئی ایم ایف میں شمولیت اختیار کی کیونکہ نئے قائم ہونے والے ملک کو 1947 میں برطانوی ہندوستان سے اپنے قیام کے بعد سے مالی مسائل کا سامنا تھا۔ 1958 میں پہلی بار پاکستان بیل آؤٹ کے لیے آئی ایم ایف کے پاس گیا۔ اس کے لیے آئی ایم ایف نے8 دسمبر 1958 کو پاکستان کو 25,000,000 امریکی ڈالر دی گئی-پاکستان 1965 میں دوبارہ آئی ایم ایف کے پاس گیا۔ اس بار آئی ایم ایف نے 16 مارچ 1965 کو جنگ زدہ ملک کو 37,500,000 امریکی ڈالر دیے۔ تین سال بعد، پاکستان پھر تیسری بار آئی ایم ایف کے پاس گیا اور آئی ایم ایف نے968 1اکتوبر17کو پچھتر کروڑ ڈالر دیے۔ اور انیس سو پچاس سے جو سلسلہ شروع ہوا وہ ابھی تک جاری ہے- آئی ایم ایف کی شرائط اور دباو نے پاکستان کی سیاست،معیشت اور ثقافت پر کیا کیا گل کھلائے اس کے لئے الگ سے اگلے شمارے میں مضمون تحریر کیا جائے گا