جھونکا ہوا کا تھا ،اِدھر آیا ،اُدھر گیا
فرانس اورجرمنی کی جنگ، جسے فرانکو-پرشین جنگ بھی کہا جاتا ہے، (19 جولائی 1870-10 مئی 1871)، جس میں پرشیا کی قیادت میں جرمن ریاستوں کے اتحاد نے فرانس کو شکست دی۔ جنگ نے براعظم یورپ میں فرانسیسی تسلط کا خاتمہ کیا اور اس کے نتیجے میں ایک متحد جرمنی تشکیل پایا۔ اس فرانکو-پرشین جنگ کے دوران، پیرس کے محنت کشوں نے بورژوا حکومت کے خلاف بغاوت کی اور اقتدار پر قبضہ کر لیا یہ انقلاب تاریخ میں پیرس کمیون کے نام سے جانا جاتا ھے-مزدوروں کی پہلی حکومت کے طور پر اس کی تعریف کرتے ہوئے، کلاسیکی مارکسی مصنفین نے اسے ایک مثال کے طور پر لیا اور اسے جنین پرولتاریہ کی آمریت (سوشلسٹ جمہوریت ) کا نمونہ قرار دیا-
مارکس کے مطابق پیرس کمیون کے اصول یہ ہیں کہ ’’محنت کش طبقہ محض تیار ریاستی مشینری پر قبضہ نہیں رکھ سکتا اور اسے اپنے مقاصد کے لیے نہیں چلا سکتا۔‘‘ عام انتخابات اور ایک کھڑی فوج کے خاتمے کو کلاسیکی مارکسی مصنفین نے پیرس کمیون میں قائم ہونے والے طاقت کے عضو کی وضاحتی خصوصیات کے طور پر شمار کیا۔ پیرس کمیون کی شکست کے بعد کمیون کی مارکسی تشریح کا چین و روس سمیت پوری دنیا میں بڑے پیمانے پر پرچار کیا گیا۔
1871ءکا پیرس کمیون تاریخ کا ایک ایسا واقعہ ہے جو بہت سے انقلابیوں کے دلوں میں ایک خاص مقام رکھتا ہے۔ کارل مارکس نے اسے ’’پہلا کامیاب محنت کش طبقے کا انقلاب‘‘ قرار دیا تھا۔پیرس کمیون 18 مارچ ء1871 کو قائم کیا گیا تھا، لیکن اس کی جڑیں ء 1848 کے انقلاب فرانس میں تلاش کی جا سکتی ہیں، جب فرانس میں شروع ہونے والے جمہوری انقلاب کی لہر پورے یورپی براعظم میں ڈھل گئی تھی۔ یہ بات درست ہے کہ یہ پہلا مزدور انقلاب صرف 72 دن زندہ رہ سکا اور شکست کھا گیا لیکن تاریخ شاہد ہے کہ نہ فرانس پہلے والا فرانس رہا ، نہ یورپ پہلے والا یورپ رہا، اور نہ دنیا پہلے والی دنیا رہی اور آزادی،مساوات اور اخوت کا پرچم کبھی سرنگوں نہ ہوا-پیرس کیمون کو ڈیڑھ صدی پوری ہو گئی دنیا بھر کے انقلابیوں- دانشوروں-فلاسفروں-غریب مزدوروں کسانون کی حکومت قائم کرنے والوں-سرمایہ داری کا تختہ الٹ کر سوشلزم نافذ کرنے والی سیاسی جماعتیں اب تک پیرس کیمون کے تجربے کا تجزیہ کرتے چلے آ رہے ہیں –خود مارکس اور اینگلس نے اس سے بہت کچھ سیکھا اور کیمونسٹ مینی فیسٹو کے د یباچے میں اس کے اسباق کا زکر اور تجزیہ بھی کیا-پھر روس (سوویٹ یونین)میں دوسرے مزدور انقلاب کے برپا کرنے میں لینن اور اس کی پارٹی نے پیرس کیمیون کے تجربات اور اسباق سے خوب سیکھا-
شروع سے ہی کمیون کو یہ تسلیم کرنے پر مجبور کیا گیا کہ محنت کش طبقہ، ایک بار اقتدار میں آنے کے بعد، پرانی ریاستی مشین کے ساتھ نہیں چل سکتا۔ یہ کہ اپنی صرف فتح شدہ بالادستی کو دوبارہ نہ کھونے کے لیے، اس محنت کش طبقے کو اپنے خلاف استعمال ہونے والی تمام پرانی جابرانہ مشینری کو ختم کر دینا چاہیے-
پیرس کیمیون نے تاریخ کے آنے والے انقلابات کے لئے بہت سے سوالات چھوڑے اور مستقبل کی سماجی تبدیلی کی تصویر کشی کو جنم دیا کہ-
1-سرمایہ داری پر کیسے قابو پایا جائے؟
2- کیا یہ بتدریج ہو گا یا سب ایک ساتھ؟
3-؟ کیا یہ جمہوریت کے ذریعے ہو سکتا ہے، یا اسے پرتشدد ہونا پڑے گا؟
پیرس کیمیون کی ناکامی سے دنیا بھر کے انقلابیوں کے ذہنوں میں یہ سوالات اٹھے ان میں ایک لینن بھی تھا-اس نے 1900 ءمیں جلاوطنی کو خیر آباد کیا اور روس واپسی کی ٹھانی،جرمنی میں قیام کے دوران وہ جرمن مارکسسٹوں میں نظریاتی تقسیم کامشاہدہ کر چکا تھا کی جرمن کیمونسٹوں کا ایک گروپ ایڈورڈ برنسٹین کی قیادت میں سوشلزم کے حصول کے لئے پرامن جمہوری ذرائع کی وکالت کر رہا تھا –روس پہنچ کر لینن نے اصرا کیا کہ انقلاب—–زبردست اور پر تشدد ہونا چاھئے حالانکہ مارکس کے ہاں متوقع پر تشدد انقلاب کی عدم موجودگی یہ سوال پیدا کرتی ہے کہ لینن کو یہ خیال کہاں سے ملا؟
مورخین ہمیشہ پیرس کیمیون اور اس پر لینن کے تجزیہ پر متوجہ رہے ہیں-
شروع سے ہی کمیون کو یہ تسلیم کرنے پر مجبور کیا گیا کہ محنت کش طبقہ، ایک بار اقتدار میں آنے کے بعد، پرانی ریاستی مشین کے ساتھ نہیں چل سکتا۔ کہ اپنی صرف فتح شدہ بالادستی کو دوبارہ نہ کھونے کے لیے، اس محنت کش طبقے کو ایک طرف تو اپنے خلاف استعمال ہونے والی تمام پرانی جابرانہ مشینری کو ختم کر دینا چاہیے، اور دوسری طرف، خود کو اپنے ہی نائبوں کے خلاف محفوظ رکھنا چاہیے۔ حکام، ان سب کا اعلان کرتے ہوئے، بغیر کسی استثناء کے، کسی بھی وقت واپس بلانے کے تابع ہیں۔اس کے بعد، اینگلز نے ایک درست، نظریاتی نکتہ پر یہ نتیجہ اخذ کیا، ’’تاہم، حقیقت میں، ریاست ایک طبقے کے دوسرے طبقے پر جبر کرنے کی مشین کے سوا کچھ نہیں ہے، اور درحقیقت جمہوری جمہوریہ میں بادشاہت سے کم نہیں‘‘۔
دو دہائیوں بعد، 1917 کے اکتوبر انقلاب کے درمیان، لینن نے کمیون پر مارکس کے خطاب کو دوبارہ پڑھا اور وراثتی ریاستی مشینری کے خطرات پر غور کیا۔ لینن نے لکھا، پرانے ریاستی اداروں کو، نہ کہ پارلیمانی نظام کو، توڑنا پڑا اور ان کی جگہ پرولتاریہ طرز حکمرانی کی نئی شکلیں لانی پڑیں۔ زار کی سلطنت کے خلاف 1905 کے انقلاب کے دوران
روسی کارکنوں نے نمائندہ حکومت اور انتظامیہ کی ایک شکل بنائی جسے سوویت کہا جاتا ہے۔ کمیون اور 1905 کے روسی انقلاب کے بارے میں لکھتے ہوئے، لینن نے لکھا، ‘کمیون نے یورپی پرولتاریہ کو سوشلسٹ انقلاب کے کاموں کو ٹھوس طریقے سے پیش کرنا سکھایا’؛ انقلاب کو جمہوریت اور انسانی ضروریات کے جواب کے لیے فوری خواہشات سے نمٹنا تھا۔ ریاست اور انقلاب میں، لینن نے کمیون کے جمہوری طریقہ کار پر غور کیا
ایسا لگتا ہے کہ کمیون نے تباہ شدہ ریاستی مشین کو ‘صرف’ مکمل جمہوریت سے بدل دیا ہے: کھڑی فوج کا خاتمہ؛ تمام عہدیداروں کو منتخب کیا جائے گا اور انہیں واپس بلایا جائے گا۔ لیکن حقیقت میں یہ ‘صرف’ بنیادی طور پر مختلف قسم کے دوسرے اداروں کے ذریعہ بعض اداروں کی ایک بہت بڑی تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ بالکل ‘مقدار کے معیار میں تبدیل ہونے’ کا معاملہ ہے: جمہوریت، جس کا تعارف مکمل طور پر اور مستقل طور پر کیا جاتا ہے جیسا کہ بالکل تصور کیا جا سکتا ہے، بورژوا سے پرولتاری جمہوریت میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ ریاست (=کسی خاص طبقے کو دبانے کے لیے ایک خاص قوت) سے ایسی چیز میں جو اب ریاست کے لیے مناسب نہیں رہی۔ کمیون ٹو کوگل مین پر غور کرتے ہوئے مارکس نے لکھا، ’’تاریخ میں ایسی عظمت کی کوئی مثال نہیں ملتی‘‘۔ لیکن یہاں وہ غلطی پر تھا۔ سرمایہ داری کے خلاف محنت کش طبقے کی جدوجہد جابرانہ حکومت کو ختم کرنے اور نئی جمہوری شکلیں قائم کرنے کی بہادری اور تخلیقی کوششوں کی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔
اٹھارویں ویں صدی کے آخر میں، ہیٹی کے سرمایہ دارانہ باغات پر محنت کش طبقے نے بغاوت کی اور خود کو پود لگانے والے حکمرانی سے آزاد کرایا؛ انہوں نے حکمرانی کی نئی شکلیں بنانے کی کوشش کی، ان میں سے کچھ غلامی سے دور بھاگنے والے غلاموں کی طرز پر بنائے گئے اور اپنی مساوات قائم کی۔ کمیونٹیز۔ ایسے تجربات پرولتاریہ بغاوتوں کے درمیان جمہوری تنظیم کے رجحان کے بارے میں ہماری سمجھ کو تقویت بخشتے ہیں۔ ہیٹی انقلاب (1804) سے لے کر شنگھائی کمیون (1927) تک تجربات کی ایک سیدھی لائن ہے۔ یہ تمام مثالیں ہیں جن کا باریک بینی سے مطالعہ کیا جانا چاہیے تاکہ ہم پرولتاری انقلابات کی حرکیات کی حدود کے بارے میں مزید واضح ہو سکیں اور یہ مطالعہ کر سکیں کہ پرولتاری جمہوریت کی بہتر تعمیر کیسے کی جا سکتی ہے۔
پیرس کیمیون کی ناکامی کے بعد پہلا کامیاب مزدور انقلاب 1917 میں روس مین برپا ھوا- جسے تاریخ بالشویک انقلاب کے نام سے یاد کرتی ہے-لینن ایک عظیم نابغہ روزگار تھا-اس نے پیرس کیمیون کی ناکامی سے بہت کچھ سیکھا کیمونسٹ مینی فیسٹو سمیت مارکس کو بار بار پڑھا-“مارکس نے سرمایہ دارانہ انقلاب اور مزدر انقلاب کے فرق کو واضح کرتے ہوۓ کہا تھا کہ۔۔۔۔۔۔۔
18ویں صدی کے سرمایہ دارانہ انقلابوں کا قدم ایک طرف فتح کی طرف اٹھتا ہے-ایک کے بعد ایک ڈرامایی اثر دِکھاتا ہے،روز ایک نیا لطف اور ولولہ دکھاتا ہے،لیکن اِ ن انقلابوں کی عمر مختصر ہوتی ہے-جلدی سے وہ اپنی انتہائی بلندی کو چھو لیتے ہیں اور پھر نشہ اتر تا ہے تو دیر تک خمار رہنے کے بعد یہ ہوش آتا ہے کہ طوفان اور ہنگامے کے دور کا جو حاصل ہوا ہے اسے سمیٹا جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے بر خلاف پرولتاری یا مزدور انقلاب جو انیسویں صدی کے انقلاب ہیں لگاتار اپنے آپ پر تنقید کرتے ہیں۔۔۔۔اور بار بار اپنی رفتار روک لیتے ہیں،،،،پھر اُسی طرف پلٹ کر آتے ہیں جو بظاہر تکمیل پا چکا تھا-تاکہ پھر وہیں سے قدم بڑھایا جاۓ۔۔۔۔اور بیدردی کے ساتھ اپنی پہلے کی کوششوں کے ادھ کچرے پن اور کوتاھیوں کا مزاق اُڑاتے ہیں،اور دشمن کے قدم اکھارنے میں لگ جاتے ہیں گویا مقصد صرف اتنا ہے کہ وہ ( مزدور انقلاب) وہ زمین سے پھر تازہ قوت لے کر اٹھ کھڑا ہو اور پہلے سے بھی زیادہ قدم جما کر،طاقتور ہو کر سرمایہ داری کے سامنے ڈٹ کلر کھرا ہو جاتا ہے۔۔پرولتاری انقلابوں نے جس منزل پر پہنچنا ہو اس سے پہلے جو انجانے یا ناکامی کے مرحلے آتے ہیں ان کا سامنا کرتے ہوۓ بار بار پیچھے ہٹتے ہیں (یعنی بار بار ناکامی بھی ہو سکتی ہے) اور اس وقت تک یہ عمل جاری رہتا ہے۔۔جب تک پیچھے ہٹنے کی راہیں ختم ہو جاتی ہیں اور زندگی خود پرولتاریہ کو آواز دیتی ہے آگے بڑہو جو کہتے تھے کر دکھاؤ۔۔۔۔ہاتھ کنگن کو آر سی کیا ہے۔۔(یعنی انقلاب مکمل کر کے دکھاؤ)