پاکستان میں سیاسی تبدیلی کیسے ممکن ہے؟

پاکستان میں سیاسی تبدیلی کیسے ممکن ہے؟

                                     رانا اورنگ زیب عاکمگیر صدر 

عوامی ورکرز پارٹی پاکپتن

انقلا بات تاریخ کاایک اہم پہلو ہے۔انسانی سماج کی تاریخ انقلابات کے بغیر نامکمل ہے۔ایک طویل مدت تک اپنے ایک خاص ڈگر پر چلنے کے بعد سماج ایک ایسے نکتے پر آجاتا ہے جہاں موجود سماجی رشتے ، نظریات،ذرائع،پیداوار  سماج کو آگے لے جانے کی بجائے اسے پیچھے کی جانب دھکیلنا شروع کر دیتے ہیں ایسے میں سماج کی ایک مکمل تبدیلی کی ضرورت ہوتی ہے۔جس کے لیے نئے نظریات جنم لینا شروع کرتے ہیں۔جو سماج میں موجود تضادات کا ادراک کرتے ہوئے ان کاحل پیش کرتے ہیں۔ یہ نظریات نئے سماجی رشتوں کی پیش بندی کرتے ہیں –

ایک طرف تاریخِ انسانی کے مطالعہ سے یہ حقیقت آشکار ہوئی ہے۔کہ جب تک انسان طبقاتی غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے اُسے حقیقی آزادی میسر نہں ہوسکتی  اور وہ انسان اپنی زندگیوں اور اپنی قسمتوں پر دسترس حاصل نہیں کر سکتے،جب تک وہ طبقاتی غلامی سے نجات حاصل کرنے کے لئے اور اس طبقاتی سماج کو تبدیل کرنے کی باہمی جدوجہد کا راستہ جو پُر امن اور سیاسی حکمتِ عملی پر معین ہو اختیار نہ کرینگے ،آزادی کے ثمرات حاصل نہ ہو سکیں گے اور یہی جدوجہد انسانیت کی ضرورت کی دنیا سے آزادی کی دنیا کی طرف ایک جست ہے۔

آج انسانیت ایک دوراہے پر کھڑی ہے ایک طرف جدید سائنس اور تکنیک کی حاصلات نے ہمیں وہ ذرائع میسر کر دیے ہیں جن کو بروئے کار لاتے ہوئے ہم ان سبھی مسائل اور محرومیوں سے نجات حاصل کر سکتے ہیں ہم بیماریوں کو ختم کر سکتے ہیں۔جہالت سے جان چھڑا سکتے ہیں بے گھری سے چھٹکارا پاسکتے ہیں صحراؤں کو گلزاروں میں تبدیل کرسکتے ہیں دوسری طرف وہ راستہ ہے جہاں یہ خواب حقیقت میں مذاق اور المیے میں ڈھل جاتے ہیں جہاں سائنس کی دریافتوں کو وسیع تباہ کاریوں کے سامان کی تیاری کیلئے استعمال کیا جارہا ہے۔جہاں غربت،بھوک،جہالت،اور بیماری عام ہے۔جہاں انسانوں کی اذیتوں اور ذلتوں کا کوئی شمار نہیں ہے۔جہاں بڑھتی ہوئی امیری محرومیوں کی دلدل کو اور بھی وحشی بناتی جاتی ہے۔جہاں ہم ایک انسان کو چاند پر بھیج سکتے ہیں لیکن جہاں ہر سال 1کروڑانسان صرف بھوک کی وجہ سے مر جاتے ہیں جہاں 100ملین بچے پیدا ہوتے اور گلیوں میں ہی جیتے اور پھر مر جاتے ہیں آخر کب تک دنیا کے انسان اس محرومی،بھوک اور افلاس،جہالت اور بد امنی اور عدم تحفظ کا شکار رہیں گے؟۔

ایک فلسفی نے کہا تھا کہ نہ تو رونا ہے نہ ہی ہنسنا ہے، بلکہ سمجھنا ہے۔۔۔ یہ ایک بلکل درست نصیحت ہے کیونکہ اگر ہم اس دنیا کو نہیں سمجھتے کہ جس میں ہم زندہ رہتے ہیں تو ہم اسے تبدیل کرنے کے کبھی قابل نہیں ہو سکیں گے پاکستان کے قیام کے بعد ہی سے ملک کی اشرافیہ اور سول و فوجی بیورو کریسی نے سامراجی آقاؤں کی ہدایات کے مطابق ملک کا نظم و نسق چلایا۔جس کے تحت انہوں نے اپنی کلاس،طبقہ کو مضبوط اور خوشحال کر لیا اور پاکستان کی عوام و محنت کش طبقات نہ صرف ملکی وسائل سے محروم کردئے گئے بلکہ محنت کش عوام گھمبیر مسائل کا شکار ہوگئے پاکستان میں عارضی اور مصنوعی رسہ کشی جو اشرافیہ طبقہ کے درمیان اقتدار کی لڑائی کے طور پر ایک دکھاوے کے لئے اُستوار نظر آتی ہے اُس کا مقصد عوام کو سیاست سے دوررکھنا اور مایوسی کا شکار کرنا مقصود ہے۔ نیز جو سیاسی برتری قدرتی طور پر افرادی طاقت اور 95%طبقہ ہونے کی صورت میں محنت کش طبقہ کو حاصل ہے اُس کا شیرازہ بکھیرنے اور انہیں سیاست سے دور رکھنے کی حکمت عملی اپنائی گئی جس بنا پر آج تک محنت کش طبقہ کی کوئی ایسی سیاسی پارٹی جو برتری کے لحاظ اور نمائندگی کے لحاظ سے محنت کش طبقات کی نمائندہ ہو اور سیاسی قوت کے طور پر اشرافیہ طبقہ کے مقابل آتی ہو پیدا نہ ہوسکی

،پاکستان کی مختلف دہائیوں میں لیفٹ کی پارٹیوں نے ایسی سیاسی پارٹی بنانے کی بے حد کوشش کی لیکن  جسے یا تو ریاستی جبر اور ظلم کا نشانہ بناتے ہوئے کچل دیا گیا اور پارٹیوں پر بین لگا کر اُس کی قیادت کو قید و بند کی صحوبتوں کا نشان بناتے ہوئے کارکنان کو سخت زیادتی جبر سے منتشر وبکھیر دیا گیا یا اُن کے لئے انتہائی سخت حالات پیدا کردئے گئے جس سے کارکنان مایوسی کا شکار ہوئے اور پارٹی کے اندر سے پارٹی کو تباہ کرنے کے سامان پیدا کر دیئے گئے۔ مزید  کئی ایک  وجوہات کی بنا پر پارٹی کو ایک سیاسی قوت نہ بننے دیا گیا ان وجوہات میں پارٹی کی قیادت جو بالا تر طبقہ سے نمو پذیر ہوئی وہ محنت کش طبقہ کی پارٹی کے لئے موزوں نہ ہے اس لئے وہ سیاسی پارٹیا ں جو ترقی پسندی روشن خیالی کو اپنانتے ہوئے لیفٹ کے سیاسی پروگرام کی بنیاد یا مارکس ازم کی بنا پر بنائی گئی تھیں قیادت کی ہم آہنگی اوراس سیاست کے لئے قیادت کا موزوں اور پر جوش نہ ہونا پارٹی کی تنزلی کا سبب بنا۔۔۔۔

مختلف اوقات میں کئی لیفٹ کی پارٹیاں آپس میں مر جر کرتے ہوئے اکھٹی بھی ہوئیں مگر بعد میں  باہمی گروہی اختلافات کی وجہ سے پھر گروپوں میں تقسیم ہوگئیں ان پارٹیوں میں نیچے طبقے کے لوگ کارکن کے طور پر کام کرتے تھے قیادت پھر اشرافیہ کلاس میں تھی پارٹی کی تنزلی میں مخصوص افراد کو کلیدی عہدوں پر فائز کرنا بھی شامل ہے۔جن کی وجہ سے سیاست صرف ڈرائنگ روم اور بحث و تکرار تک رہی عوام میں سیاست کو نہ لے جایا گیا اور نہ ہی عوامی مسائل کو لے کر عوام میں سیاست کی اہمیت اور شعوری بیداری کرتے ہوئے محنت کش عوام کو سیاسی جدوجہد کے ا بھارمیں شامل کیا گیا۔اس لئے عوام ان پارٹیوں سے آشنا نہ ہوئے اور نہ ہی ان میں شمولیت کی تگ و دو کی –اشرافیہ طبقہ کی سیاسی پارٹیاں ملکی سول و فوجی اسٹیبلشمنٹ کی معاونت سے اقتدار کی بندر بانٹ کرتی رہیں جو کہ آج تک جاری ہے۔

ان حالات میں عوام کو اپنے تابناک مستقبل ملنے اور آزادی کے ثمرات حاصل ہونے مشکل توہیں لیکن ناممکن نہ ہیں۔ ان حالات میں عوام کو اشرافیہ طبقہ کے ظلم و بر بریت کے لئے اکیلا چھوڑدینا اور اشرافیہ طبقہ کی کھلی لوٹ مار کرنے کا بازار گرم کرنے کے لیے آزاد چھوڑ دینااور ان کا راستہ نہ روکنا محنت کش طبقہ کی جدوجہدکو ختم کرنے کے مترادف ہے۔محنت کش طبقہ کے ہرذی شعورادراک وفہم رکھنے والے سنجیدہ سیاسی کارکن کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنے طبقہ کو ان مشکلات سے نکالنے کے لئے سیاسی جدوجہد کا پُرامن جمہوری راستہ اختیار کرے دنیا میں اب تبدیلی عسکری قوت سے ممکن نہ ہے۔بلکہ اسی جمہوری طریقہ کار میں اپناراستہ اختیارکر کے محنت کش عوام کے اقتدار اور اُن کے معاشی سیاسی مسائل کے لئے جدوجہد کا راستہ اختیار کرنا ضروری اور لازمی ہو گیا ہے آج کی دنیا میں ۔کوئی جدوجہد سیاسی تحریک اور سیاسی جماعت کے بغیر ممکن نہ ہے

اس لئے دنیا میں سرمایہ داری نظام کی تباہ کاریوں سے نجات کے لئے محنت کش طبقہ کی پارٹی کی ضرورت ہے  جو کہ جمہوری سیاسی اور پُر امن جدوجہد کا راستہ اختیار کرتے ہوئے پاکستان کی محنت کش طبقہ  کو مسایل سے جنات کے لئے  جدوجہد کرے اور اُنہیں متحد کرتے ہوئے ایک سیاسی قوت اور طاقت کے طور پر اپنے ہم رکاب کر کے اشرافیہ طبقہ کا راستہ روکے یہی ایک راستہ پاکستان میں تبدیلی کا راستہ ہے۔اور محنت کش طبقہ کی سیاسی پارٹی جس کی قیادت بھی اسی محروم اور محنت کش طبقہ میں سے ہو ایک سیاسی قوت کے طور پر ابھر کر پاکستان میں سیاسی معاشی تبدیلی کا ذریعہ بن سکتی ہے۔جب تک عوام خود اپنے سیاسی معاشی حقوق کی جدوجہد میں شامل نہ ہونگے کوئی حقیقی تبدیلی ممکن نہ ہے۔
”آخر میں غالب کے دو اشعار“
لکھتے رہے جنوں کی حکایاتِ خوں چکاں
ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے
تیری وفا سے کیا ہو تلافی کہ دہر میں
تیرے سوا بھی ہم پہ بہت سے ستم ہوئے

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *